"نئے پاکستان سے نئے کشمیر تک"

جمعرات 29 جولائی 2021

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

پاکستان کی سیاست میں ہمیشہ سے ہی بلند و بالا دعوے کرنے کا رواج عام ہے، سیاسی لیڈران عوام کی توجہ حاصل کرنے کے لئے وہ وعدے یا دعوے بھی کر دیتے ہیں جو بعد میں اِنہی کے لئے دردِ سر بن جاتے ہیں، عمران خان نے وزیراعظم بننے کے لئے نئے پاکستان کا نعرہ لگایا اور پاکستان بھر میں کیے گئے جلسوں کے ذریعے نئے پاکستان کے فوائد بتائے اور کہا کہ میں وزیراعظم بننے کے بعد وہ پاکستان بناؤں گا یہاں یورپ سے لوگ نوکریوں کی تلاش میں آئیں گے، ملک کی معیشت بحال ہو گی، ہم تعلیم اور صحت پر زیادہ پیسا لگائیں گے، بجلی اور پٹرول کی قیمتیں سستی ہونگی، مہنگائی کم ہو گی، میڈیا آزاد ہو گا، مقامی لوگوں کو روزگار ملے گا، بےروزگار نوجوانوں کے روزگار کے لئے خصوصی انتظامات کیے جائیں گے، لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے ترقیاتی کام ہونگے، کرپشن کا خاتمہ ہوگا اور ناجانے کون کون سے آسمان کو چھوتے بلند وبالا دعووں کے پہاڑ کھڑے کیے گئے، جس کے بعد پاکستانیوں میں اُمید کی کرن پھوٹی اور عمران خان کو پاکستانیوں کی طرف سے مسیحا سمجھنا شروع کر دیا گیا، نوازشریف گورنمنٹ کو جب عدالتی فیصلے کے ذریعے نااہل کیا گیا تو سیاسی طور پر ایک خلا پیدا ہوا جس کو پُر کرنے کے لئے عمران خان کا سہارا لیا گیا، عمران خان نے موقع سے بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوئے سیاسی بیساکھیوں کے ذریعے 2018 میں بلآخر حکومت بنا لی اور وزیراعظم بن بیٹھے، اب یہ وقت پرانی بیساکھیوں کے ذریعے نئے پاکستان کے وعدےکو حقیقت کا روپ دینے کا تھا، وہ وعدے پورے کرنے کا وقت تھا جس کے خواب الیکشن سے پہلے پاکستانیوں کو دکھائے گئے تھے لیکن آج تین سال گزرنے کے بعد بھی نیا پاکستان تو دور کی بات پرانا پاکستان بھی اُجڑ چکا ہے، اخلاقی اقدار سے لے کر سیاسی اقدار تک، سبھی کچھ دیمک زدہ ہو گیا ہے، نہ وہ وعدے وفا کیے گئے جن کا اظہار الیکشن سے پہلے کیا گیا تھا بلکہ اقتدار کی حوس نے تمام اُصولوں کو روند ڈالا ہے، نیا پاکستان تو نہ بن سکا البتہ لوگوں کے ذہنوں پر ایسی دھند چھا چکی ہے کہ بہت سوں کو سب دھندلا نظر آنے لگا ہے یعنی کہ لوگ سیاسی طور پر اچھے یا برے میں فرق تلاش ہی نہیں کر پا رہے، حکومت کی مایوس کن کارکردگی کے باوجود بہت سے لوگ اب بھی سب اچھا ہے کے گُن گاتے نظر آتے ہیں حالانکہ اعداد وشمار کے مطابق پاکستان کی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے،انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے، مہنگائی عروج پر ہے، بےروزگاری نے راتوں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں. عمران خان بیس سالہ جدوجہد کی بھی بات کرتے تھے، نئے پاکستان میں یہ جدوجہد بھی عیاں ہو چکی ہے کہ یہ محظ سیاسی نعرہ ہی ہے، کیونکہ عمران خان کے سپورٹرز حکومتی کارکردگی یا ووٹ کی اہمیت سمجھنے کی بجائے فقط یہ دیکھتے ہیں کہ خان صاحب بیانات اچھے دے دیتے ہیں، ہمارے وزیراعظم صاحب ہینڈسم بھی ہیں اور اچھی تقریر کر لیتے ہیں، حالانکہ جدوجہد کے بعد سیاسی شعور تو ضرور ہونا چاہئے تھا ،لوگ کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ ڈالتے، حکومت یا وزیراعظم سے پوچھ گچھ ہوتی لیکن ایسا بلکل نہیں ہے، نئے پاکستان میں حکومتی کارکردگی تو دور کی بات اخلاقی کارکردگی بھی مایوس کن ہے، سیاسی کلچر زنگ آلود ہو چکا ہے، معاشرے میں سیاست کے نام پر گالم گلوچ اور زبان درازی حد سے زیادہ بڑھ چکی ہے، نہ خاندانی سیاسی نظام بدلا اور نہ ہی کارکردگی کے نام پر ووٹ دینے کا رواج عام ہوا بلکہ آج شخصیت پرستی بھی کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے، جس کی زندہ مثالیں ضمنی انتخابات یا پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان کے انتخابات میں دیکھنے کو ملیں جہاں الیکشن سے قبل حکمران جماعت کے کارکنان نے اُڑان بھرتے ہوئے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی اور پھر بعد ازاں یہی لوگ جیتے تو کیسی جدوجہد کہ عمران خان ایسے لوگ یا نظریاتی کارکن نہ تیار کر سکے جو الیکشن جیتنے کے قابل ہوں یا اِن الیکٹیبلز کے بغیر حکومت بنا سکیں، آخر یہ تھا وہ نیا پاکستان جس کے لیے ناجانے کن کن اُصولوں کو قربان کیا گیا اور عوام کو سنہرے سپنے دکھائے گئے، نئے پاکستان کی داستان تو طویل ہے لیکن ابھی نئے کشمیر کی بنیاد پڑ چکی ہے،یہاں عمران خان نے حکومت کیسے حاصل کی، اِس بحث میں جانے کی بجائے فقط یہ دیکھنا ہے کہ تاریخ خود کو دہرائے گی یا اب کی بار واقعی نیا کشمیر بنے گا، اللہ ہی خیر کرے�

(جاری ہے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :