دنیا بہت تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور اِس ترقی کرتے دور میں میڈیا کا کردار بھی بہت ضروری ہو گیا ہے، پاکستان میں میڈیا یا صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے، ہم میں سے بہت سے یہ بھی نہیں جانتے کہ یہ ستون کس طرح سے زنجیروں میں جکڑا جا چکا ہے، آئے روز مختلف اشخاص یا معلوم افراد کی طرف سے شکنجه سخت ہو رہا ہے، اندازہ لگائیں جب ریاست کے چوتھے ستون کا یہ حال ہے تو باقی ستونوں کا حال کیا ہوگا، پاکستان میں صحافتی اداروں پر ہر دور میں مشکل وقت آئے، خاص طور پہ ڈکٹیٹرز کے ادوار میں صحافی ادارے سنسر شپ اور کئی پابندیوں کی زد میں رہے لیکن جمہوری ادوار میں بھی صحافت کی حالت زار تسلی بخش نہیں رہی اب تو حال بے حال ہو چکا ہے،کبھی صحافیوں کو راہ چلتے اُٹھا لیا جاتا ہے، تو کبھی گھر میں گھُس کر مارا پیٹا جاتا ہے تو کبھی گولیاں مار کر جان لینے کی کوشش کی جاتی ہے،یعنی کہ صحافت اور صحافی کی زبان بندی کے لئے ہر ممکن کوششیں کی جا رہی ہیں، مجھے باقاعدہ صحافت شروع کیے چند سال ہی ہوئے ہیں اور اپنی عمر کے تیئیسویں سال میں یہ بات تو جان چکا ہوں کہ پاکستان میں صحافت کرنا کتنی مشکل بات ہے لیکن اپنے سینئرز کو دیکھتا ہوں تو حوصلہ ملتا ہے کہ صحافت میں مشکلات آئیں گی، بہت سے لوگ خواہ مخواہ میں آپکے دشمن بھی بن جائیں گے لیکن اُصولوں کا سودا کبھی بھی نہیں کرنا، صحافت کے اِس سفر میں حامد میر صاحب کو ہی ہمیشہ اُستاد اور لیڈر مانا، جب سے ہوش سنبھالا ہے تب سے ہی اِنکے کالمز پڑھنا اور پروگرامز دیکھنا معمول رہا ہے، جیو پر جب کیپیٹل ٹاک پروگرام شروع ہونا ہوتا تو باقی گھر والے بھی اِنکے پروگرام کو دیکھنے کے لئے دن بھر انتظار کرتے اور اِنکا پروگرام سب سے زیادہ دیکھے جانے والے پروگرامز میں ہی شمار رہا، پاکستان کے الیکٹرونک میڈیا میں حامد میر تک ابھی شاید کوئی نہ پہنچ پائے کیونکہ جس خوش اسلوبی کے ساتھ انہوں نے ہمیشہ پروگرام کی میزبانی کی ،یقین سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے بڑی ہمت اور دلیری کے ساتھ سیاسی ناقدین کو بھی ایک دوسرے کی تعریفیں کرنے پر مجبور کیا، ان کے پروگراموں میں سیاسی جماعتوں کے اراکین کی طرف سے مختلف موضوعات پر مل جُل کر چلنے پر اتفاق بھی ہوا حالانکہ پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا میں بہت سے صحافی ریٹنگ حاصل کرنے کے لئے منصوبہ بندی کے تحت سیاستدانوں کو برے طریقے سے لڑواتے ہیں لیکن حامد میر صاحب نے ہمیشہ صحافی ہونے کا حق ادا کیا، اپنے پروگرامز میں ہی کئی اہم مسائل کو اُجاگر کیا جو عموماً آجکل الیکٹرانک میڈیا سے غائب رہتے ہیں، چاہے وہ بلوچستان کے لاپتہ افراد کا سنجیدہ معاملہ ہو یا پاکستان میں آزادی صحافت پر وار،کشمیر میں بھارتی مظالم بےنقاب کرنے ہوں یا فلسطین میں اسرائیلی جارحیت پر آواز اُٹھانی ہو ، سب سے زیادہ آواز حامد میر کی طرف سے ہی اُٹھائی گئی، یہی وہ وجوہات تھیں جس بنا پر پاکستان کی عوام کی اکثریت آج تک حامد میر صاحب کو ہی سنتی آئی ہے اور یہ باتیں ناقدین پر بجلی بن کر گرتی رہیں اِس لیے اُنھوں نے غیر ضروری موضوعات پر بات کر کے حامد میر صاحب کی کردار کشی کی، اِنکو غدار ثابت کرنے کے لئے ہر ممکن کوششیں کیں، انڈین ایجیٹ تک کہا گیا، لفافے جیسے القابات دیے گئے، یہاں تک کہ 2014 میں اِنکی جان لینے کے لئے گھناؤنا کھیل کھیلا گیا اور اِنکو لگنے والی گولیاں آجبھی جسم میں موجود ہیں لیکن میرِ صحافت اپنے مشن اور نظریے سے ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹے، اب کی بار حامد میر صاحب نے ایسا کیا جرمِ عظیم کر دیا جو اِنکو اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے اور چند لوگوں کا گروہ اِنکی کردار کشی کے لئے میدان میں اُتار دیا گیا، حامد میر صاحب نے وہی باتیں کیں جو پاکستان میں آئین کی بالادستی پر یقین رکھنے والا سالوں سے کر رہا ہے، ہاں یہ مانا کہ میر صاحب کے الفاظ کچھ سخت ضرور تھے لیکن اِنکی باتوں سے مکمل اتفاق ہے، اگر میر صاحب کی باتیں غلط تھیں یا کچھ اداروں کو بدنام کرنے کا پروپیگنڈہ کیا گیا تو اداروں اور حکومت کے پاس مکمل اختیار تھا کہ معاملے کی چھان بین کے بعد ملزمان کو گرفتار کیا جاتا، معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے بعد اسد طور صاحب کو انصاف دیا جاتا یا اِن کے پروپیگنڈے کو بےنقاب کیا جاتا لیکن حکومت اور مقتدر شخصیات کی طرف سے مکمل خاموشی برتی گئی، تو اِن باتوں سے یہی نتیجہ ہی نکلتا ہے کہ حامد میر صاحب کی باتیں سو فیصد درست تھیں، ایک تو صحافی برادری کے ساتھ ظلم انتہا کو پہنچ چکا ہے، کئی صحافیوں کو لاپتہ کیا گیا، اُن کو دھمکیاں دینے کا سلسلہ بھی جاری ہے تو ایسے حالات میں اگرصحافی اپنے تحفظ کے لئے آواز بلند کریں، اصل کرداروں کو بےنقاب کریں یا نامعلوم افراد کو معلوم بنائیں تو صحافی غدار بھی بن جاتے ہیں اور کچھ پیڈ لوگوں کی طرف سے کردار کشی بھی شروع کر دی جاتی ہے، حامد میر صاحب نے جو باتیں کہیں اُن کو اگر سنجیدہ نہ لیا گیا یا مسئلہ حل کرنا کی بجائے حامد میر یا باقی صحافیوں کو غدار کہنے کا سلسلہ بدستور جاری رہا تو پھر پاکستان میں کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا، حامد میر صاحب نے معاملے کو سلجھانے یا خواہ مخواہ میں اپنی دُکان چمکانے والوں کی تسکین کے لئے معافی اور وضاحت بھی پیش کر دی اب حکومت اور اداروں کو چاہیے کہ صحافیوں کے تحفظ کے لئے ٹھوس اقدامات کے جائیں، ملزمان کو وعدوں اور دعووں کے مطابق پکڑ کر سزا دینے کو یقینی بنایا جائے اور صحافت پر عائد پابندیوں کو بھی ہٹایاجائے تاکہ سچ اور کھری بات پاکستان کی عوام تک باآسانی پہنچ سکے اور مسائل کا بہترین حل نکل سکے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔