"جمہوریت بمقابلہ آمریت،خوشحالی کا ضامن کون؟"

جمعہ 2 جولائی 2021

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

پاکستان کو ہندوستان سے آزادی حاصل کیے تقریباً چوہتر سال ہو گئے، اِن چوہتر سالوں میں ہم آجتک اِس بات پر تقسیم ہیں کہ پاکستان میں کونسا نظام حکومت رائج ہونا چاہئے، بہت سے طبقات ایسے بھی ہیں جو پاکستان میں صدارتی یا آمرانہ نظام حکومت دیکھنا چاہتے ہیں لیکن اکثریت آج بھی جمہوریت کی پیروکار ہے اِنکے خیال میں یہ وہ نظامِ حکومت ہے جو پاکستان جیسے ملک میں سب سے زیادہ موضوع ہے، اگر اِسے مضبوط بنایا جائے، دوسرا بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اور مادرِ ملت فاطمہ جناح نے کئی مواقع پر دوٹوک الفاظ میں کہا کہ پاکستان میں پارلیمانی نظام حکومت ہی قائم ہو گا، ویسے تو قارئین کو یہ بتانا تو بہت مشکل ہے کہ جمہوریت بہتر ہے یا پھر آمریت یا صدارتی نظام، لیکن اپنے حصے کا دیا جلانا تو ضرور چاہیے کیونکہ آپکی پھیلائی گئی روشنی سے بہت زیادہ تو نہیں لیکن بہت سے ضرور مستفید ہونگے، پاکستان بننے سے لے کر آجتک پارلیمانی جمہوریت کے خلاف بہت سی سازشیں رچائی گئیں، یہ سازشیں کئی بار تو کامیاب بھی ہوئیں اور پاکستان میں براہ راست چار مارشل لاء لگے لیکن بعض اوقات اِن سازشوں کو جمہور اور جمہوری حکمرانوں نے بےنقاب کر دیا لیکن کئی بار ایسا بھی ہوا جب پارلیمانی لیڈرز ہی جمہوری نظام کو بدنام کرنے کا سبب بنے، یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے جس کا ذکر آگے چل کر ضرور ہو گا لیکن یہ موازنہ بھی ضرور ہونا چاہئے کہ پاکستان کی چوہتر سالہ تاریخ میں تقریباً بتیس سال براہ راست مارشل لاء لگے رہے اور چار آمروں نے پاکستان پر حکمرانی کی لیکن باقی کے سالوں میں بائیس وزیراعظم آئے یعنی کہ آجتک کسی بھی وزیراعظم نے اپنی آئینی مدت پوری نہ کی یا نا کرنے دی گئی اور اِنکے خلاف جو سازشیں رچائی گئیں یا اقتدار سے الگ کیا گیا یہ ایک لمبی داستان ہے، یعنی کہ یہ بڑی وجوہات تھیں،جس بنا پر ہم بہت پیچھے رہ گئے۔

(جاری ہے)

پاکستان میں ایک لمبا عرصہ آمریت رہنے کی وجہ سے بہت سے پیچیدہ مسائل نے بھی جنم لیا اور پاکستان کا بڑا حصہ ہم سے الگ ہو کر نیا ملک بن گیا ۔یہاں ایسی باتیں بھی عام کہی جاتی ہیں کہ پاکستان کو سیاستدانوں نے نقصان پہنچایا اِس بات میں کسی حد تک سچائی ضرور ہے لیکن سچائی کا پلڑا غیر جمہوری قوتوں کی طرف زیادہ بھاری ہے کہ پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان انہی قوتوں نے پہنچایا ہے، چاہے پاکستان کی تقسیم کا معاملہ ہو یا پھر آبی وسائل پر وار ہو، ذولفقار علی بھٹو کو پھانسی دلوانا ہو یا افغان جنگ کو پاکستان پر مسلط کرنا ہو، پاکستان میں دہشتگردی کی ابتدا ہو یا اسلحہ کلچر کو پروان چڑھانا ہو،امریکی ڈرون حملوں کا آغاز ہو یا ملکی ہوائی اڈے امریکہ کے حوالے کرنے ہوں ، یہ تمام جرائم آمرانہ دورِ حکومت میں ہی ہوئے لیکن جمہوری ادوار میں کوئی ایسا کام نہیں ہوا جس سے پاکستان یا پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچا ہو،پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کی ابتداء ایک جمہوری حکومت میں رکھی گئی اور یہ پروگرام پایہ تکمیل بھی ایک جمہوری حکومت میں ہی ہوا، چاہے نوے ہزار قیدیوں کی واپسی کا معاملہ ہو یا سی پیک کی ابتدا ہو، میزائل پروگرام کا آغاز ہو یا موٹرویز جیسا عظیم منصوبہ ہو، یہ تمام منصوبہ جات بھی جمہوری حکومتوں میں ہی شروع ہوئے یا پھر اختتام کو پہنچے، اِس لیے یہ کہنا ہرگز درست نہیں کہ پاکستان کو سیاستدانوں نے نقصان پہنچایا یا پارلیمانی نظام پاکستان کے لئے موضوع نہیں، موجودہ حالات میں پارلیمانی نظام ہی پاکستان کی سالمیت کی بقاء ہے کیونکہ پاکستان میں بہت سے علاقے ایسے بھی ہیں جو نسل پرستی اور صوبائیت پر پختہ یقین رکھتے ہیں، ایسے ماحول کے ہوتے ہوئے تمام اختیارات وفاق کے پاس ہونا یا پاکستان میں صدارتی یا آمرانہ نظام لے آنا پاکستان کی سالمیت کے لئے قطعاً موضوع نہیں ہے کیونکہ ماضی میں صدارتی نظام اور آمریت کے ادوار سے ہم گزر چکے، پاکستان نے اِن ادوار میں بےپناہ نقصان بھی اُٹھایا ہے، 1962 کا صدارتی نظام مشرقی پاکستان میں بےپناہ مسائل اور علیحدگی کا سبب بھی بنا، اب ایسا ہرگزنہیں کہ جمہوری ادوار پاکستان کے لئے بہت ہی موضوع رہے لیکن یہ بات ضرور ہے کہ پاکستان نے جمہوری ادوار میں ترقی تو کی ہی ہے، اِس کے علاوہ جمہوری حکومتوں کی طرف سے بہت سے ایسے اقدامات بھی اُٹھائے گئے جو پاکستان کے لئے کافی فائدہ مند ثابت ہوئے، جمہوری ادوار کی بہت سی کامیابیاں یا منصوبہ جات اوپر گنوا چکا ہوں جن کی بدولت پاکستان میں بہت بہتری بھی آئی لیکن پیپلزپارٹی کے دورِ حکومت یعنی 2010 میں اٹھارویں ترمیم کو پاس کرنا بہت بڑاکارنامہ تھا، جس کی بدولت بہت سے اختیارات صوبوں کو منتقل کیے گئے اور چھوٹے صوبوں کی محرومیوں پر کافی حد تک قابو بھی پایا گیا، علیحدگی پسند تحریکیں کافی حد تک کمزور ہوئیں، خاص طور پر بلوچستان میں آگ اور خون کی ہولی جو مشرف دور میں کھیلی گئی، اِس پر قابو پہلے پیپلزپارٹی نے کیا اور بہت حد تک نواز حکومت نے بھی مسائل کا حل نکالا اور آج بلوچستان پہلے سے کہیں بہتر ہے، جمہوری حکومتوں کی کامیابیوں اور آمریتوں کی ناکام پالیسیوں کو اگر ایک ایک کر کے گنوایا جائے تو شائد اِس کے لئے بہت سا وقت درکار ہو لیکن خلاصہ یہی ہے کہ پاکستان کی سالمیت کے لئے جمہوریت ہی ضروری ہے لیکن مضبوط جمہوریت اور جمہوری نظام کے لئے سیاستدانوں کو بھی اپنے قبلے درست کرنا ہی ہونگے، پارلیمنٹ کو مضبوط بنانے کے لئے کچھ ترامیم بھی کرنا ہونگی تاکہ غیر جمہوری قوتیں جمہوری نظام میں مداخلت کر کے مسائل کا سبب نہ بنیں، اِسکے لیے پارلیمانی لیڈران کے جمہوری رویے بھی بہت ضروری ہیں، یہاں تو پارلیمنٹ کے اندر ہی غیر پارلیمانی گفتگو سرِ عام ہونے لگی ہے اور مکوں اور تھپڑوں کا استعمال بھی کیا جانے لگا ہے تو ایسے ماحول کے ہوتے ہوئے غیر پارلیمانی قوتیں ضرور فائدہ اُٹھائیں گی اور جمہوریت کو بدنام کرنے کے لئے بھی بہت سی منصوبہ بندی کی جائے گی تاکہ جمہوری عمل کو کمزور بنایا جائے، اب فیصلہ جمہور اور جمہوری لیڈران کو ہی کرنا ہے کہ پاکستان کو مضبوط بنانے کے لئے قائداعظم کے اصولوں اور ارشادات کے مطابق مضبوط جمہوری نظام بنانا اور صحیح معنوں میں نافذ کرنا ہے یا اپنے غیر جمہوری رویوں کی بدولت غیر جمہوری قوتوں کے ہاتھ مضبوط کرنے ہیں لیکن ہر حال میں مضبوط جمہوریت ہی پاکستان کی سلامتی اور خوشحالی کی ضامن ہے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :