معاشرتی مسائل اور ہمارے روّیے"

منگل 15 جون 2021

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

کچھ دن پہلے ایک دُکان پر سودا سلف لینے کی غرض سے جانے کا اتفاق ہوا، وہاں میری نظر دو نوجوانوں پر پڑی جو بلند آواز میں تکرار کر رہے تھے، جب اِس بارے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ یہ نوجوان جن کا تعلق پاکستان کی دو مختلف سیاسی جماعتوں سے ہے اور یہ اپنی اپنی جماعت کو سچا ثابت کرنے کے لئے دلائل سے ہٹ کر بے معنی تکرار کر رہے ہیں، اُنکے اِس روّیے نے مجھے بھی یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ ہمارے نوجوانوں کی کس طرح گرومنگ کی گئی ہے کہ یہ بجائے حقائق دریافت کریں، اُنکا حل نکالیں یا کارکردگی صحیح معنوں میں جانچنے کی صلاحیت پیدا کریں، اِن سب سے بالاتر ہو کر اِن کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے کہ جو اُنکے لیڈران کی طرف سے کہا جاتا ہے وہ من و عن سچا اور حقائق پر مبنی ہوتا ہے،ایسے نوجوانوں میں جرأت بھی نہیں کہ وہ کوئی تخلیقی سوالات کر سکیں، ہمارے معاشرے کی پسماندگی اور غیر معیاری ہونے کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن اِس بات سے قطعاً منہ نہیں پھیرا جا سکتا کہ ہم آجکل اصل مسائل اور اِنکے حل تلاش کرنے سے مکمل ناواقف ہو چکے ہیں، جو پٹیاں ہمیں پڑھائی جاتی ہیں، ہم بغیر سوچے سمجھے اُن کے مطابق چل پڑتے ہیں اور اگر کوئی سمجھنے یا سوالات کرنے کی کوشش بھی کرے تو معاشرے میں اُس کے لئے زمین تنگ کر دی جاتی ہے، یہی ہماری تنگ نظری کی علامت ہے، ابھی حال ہی کی بات ہے، حامد میر کا واقعہ ہو یا ملالہ یوسفزئی کے بیانات، دونوں موضوعات پر ہمارے رویے انتہائی مایوس کن رہے، اگر کسی نے سوالات کرنے کی کوشش بھی کی تو بغیر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہم نے اُسکی کردار کشی شروع کر دی، اگر کسی نے کسی کو آئینی حدود میں رہتے ہوئے کام کرنے کی بات کی تو ہم نے اُسے غدار بنانے کے لئے سر توڑ کوششیں شروع کر دیں، یہاں کسی کا بیان غلط ہو سکتا ہے، ہمیں سمجھنے میں بھی غلطی ہو سکتی ہے لیکن  ہمارے جذباتی رویے مسائل میں بےپناہ اضافہ کر رہے ہیں، ہم سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا ہی بھول گئے یا کرنا ہی نہیں چاہتے،
ہم اخلاقی اقدار کو مکمل طور پہ بھول گئے، ایک وقت تھا جب اِسی معاشرے میں برداشت، رواداری اور احساس کا پہلو ہر جگہ موجود تھا، لوگ محبتوں اور چاہتوں کے گلدستوں میں سموئے ہوئے تھے، بزرگ نوجوانوں کے لئے مشعلِ راہ تھے اور نوجوان معاشرے کا بہتر مستقبل تھے لیکن آج کا معاشرہ اصل حقائق سے مکمل طور پہ ناواقف ہو چکا ہے، نہ کوئی تمیز باقی رہی اور نہ ہی برداشت اور نہ ہی اخلاق کا وہ پیمانہ رہا، اب اگر کوئی بدتمیزی یا بہتان تراشی کرے تو بجائے اُس کی مذمت کرنے کے، حقائق جانچنے کا پیمانہ صرف اپنی ذاتی خواہشات اور مفادات رہ گئے ہیں کہ جو کسی نے کہا ہے اُس میں میرا کیسے فائدہ یا نقصان ہو سکتا ہے۔

(جاری ہے)

سیاست کا حال تو بےحال ہو چکا ہے، اراکینِ اسمبلی ٹی وی ٹاک شوز میں لائیو گتھم گتھا ہو جاتے ہیں، چاہے عورت ہو یا مرد جس کا جتنا بس چلے وہ خود کو سچل سرمست اور دوسرے کو کم ظرف تصور کرے گا، کتنے نوجوان ایسے موجود ہیں جن کے پاس ڈگریوں کا ڈھیر ہے لیکن وہ زندگی گزارنے کے ڈھنگ سے محروم ہیں، جب وہ صحیح سمت کا تعین ہی نہ کر سکیں تو یقیناً اُن کو پڑھا لکھا تصور کرنا تعلیم کے ساتھ زیادتی ہو گی، ہر شعبہء زندگی میں ہمارے آئیڈیلز وہ لوگ ہیں جو ڈھول کی طرح  گرجتے تو زیادہ ہیں لیکن اندر سے مکمل طور پہ خالی ہیں پھر چاہے صحافت ہو یا سیاست، شعبۂ علمی ہو یا دانشور، ہم مولانا ظفر علی خان، قائداعظم، علامہ اقبال، فاطمہ جناح، حبیب جالب جیسے باکردار لوگوں کی زندگی اور اِنکے بتائے یا بنائے ہوئے راستوں کو مکمل طور پہ چھوڑ چکے ہیں، جو نوجوان نسل یا معاشرہ آج ہم تخلیق کر چکے ہیں، اِن میں سے کوئی آج زندہ ہوتا تو اِنکا ملکِ پاکستان میں رہنا ہی محال کر دیا جاتا، شومئی قسمت ہم سوچنے کی صلاحیت سے بلکل محروم ہو چکے یا کیے جا چکے ہیں، یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ایک معاشرہ جب ترقی کرتا ہے یا ترقی یافتہ بنتا ہے تو تمام لوگوں کے جذبات اور احساسات کی قدر کرنا ہم پر واجب ہے ،تخلیقی صلاحیت اور غلط، صحیح میں فرق کرنے سے ہی معاشرے میں جدت آتی ہے، ہم کون ہوتے ہیں کہ بغیر تحقیق کے جب مرضی چاہے کسی کا کیریئر یا زندگی داؤ پر لگا دیں،کسی کو غدار بنا دیں یا کفر کے فتوے جاری کر دیں، ہمیں اُصولوں کے اندر رہتے ہوئے مسائل کے بہترین حل کی طرف جانا چاہئے نہ کے اپنی خواہشات کو حقائق کے سامنے بن بنا لیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :