صدارتی یا پارلیمانی نظام؟

پیر 24 جنوری 2022

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

پچھلے کچھ دنوں سے صدارتی نظام کی باز گشت پھر سے سنائی دے رہی ہے، یہ پہلی دفعہ ایسا نہیں ہو رہا کہ صدارتی نظام کے لئے آوازیں سنائی دی ہوں لیکن اب کی بار منظّم طریقے سے صدارتی نظام کے لئے مہم چلائی جا رہی ہے، سوشل میڈیا پر بہت سے فیک یا ویریفائیڈ اکاؤنٹس اپنے اپنے انداز میں اِس سوچ یا بیانیے کو پروان چڑھا رہے ہیں کہ پارلیمانی نظام ناکام ہو چکا ہے اور اُس کی جگہ صدارتی نظام رائج ہونا چاہیے اور یہی مسائل کا حل ہے، واٹس ایپ گروپوں کے ذریعے سرویز کروانے کا سلسلہ بھی جاری ہے اور ناجانے یہ سلسلہ کب تک چلے گا لیکن ایک بات ثابت ہو چکی ہے کہ سوشل میڈیا آنے کے بعد اِس قوم کی کسی بھی معاملے پر ذہن سازی کرنا اب مشکل عمل نہیں رہا، یہ موضوع تو بہت طویل ہے لیکن یہ سمجھنا بھی بہت ضروری ہے کہ اب کی بار ایسا کیوں ہوا ہے کہ پارلیمانی نظام کے برعکس صدارتی نظام نافذ کرنے کی باتیں زیرِ گردش ہیں، پاکستان میں ایک ایسا بڑا اور طاقتور طبقہ بھی موجود ہے جو شروع دن سے ہی مکمل طور پہ اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے لئے پارلیمانی جمہوریت کے خلاف رہا ہے، یہ طبقہ منظم طریقے سے پارلیمانی جمہوریت کے خلاف سازشیں بھی کرتا رہتا ہے، کبھی سیاستدانوں کو بدنام کرنے کے لئے گھناؤنی کارروائیاں شروع کر دی جاتی ہیں تو کبھی ملک میں مارشل لاء لگا کر پارلیمانی جمہوریت کا دھڑن تختہ کر دیا جاتا ہےتو کبھی کچھ مخصوص لوگوں کے ذریعے پارلیمانی جمہوریت کے حق میں بولنے والوں کی آوازوں کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن یہ لوگ اِن تمام رچائی ہوئی سازشوں میں کبھی کامیاب ہوئے تو کبھی ناکام ٹھہرے لیکن اِن کی کوشش ہمیشہ یہی رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح نظام میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھا جائے، پاکستان میں تقریباً چار سال قبل نئے پاکستان کے نام پر تبدیلی سرکار کو متعارف کروایا گیا جس کے روح رواں جناب عمران خان صاحب تھے، اِن کے ذریعے یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ یہ موجودہ نظام یعنی کہ پارلیمانی جمہوریت کے تحت پاکستان کی قسمت بدل دینگے، پاکستان میں سب ٹھیک ہو جائے گا اور نہ جانے کیا کیا دعوے اور وعدے گئے اب جب خان صاحب کی گورنمنٹ کا زیادہ تر وقت گزر چکا ہے، نئے پاکستان کے نام پر جو سیگمنٹ شروع کیا گیا تھا مکمل طور پہ فلاپ ہو چکا ہے تو عوام کو صدارتی نظام کا لولی پاپ دے کر ایک بار پھر ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کے لئے زور آزمائی جاری ہے، اِس سارے کھیل میں عمران خان صاحب کی خاموشی اِس بات کا جواب ضرور ہے کہ صدارتی نظام کا منجن بیچنے والے وہی لوگ ہیں جنھوں نے کچھ خاص مقاصد کی تکمیل کے لئے عمران خان کو اقتدار میں لانے کی راہ ہموار کی اور عمران خان کی بھی یہ خواہش ہے کہ صدارتی نظام لاگو ہونے کے بعد اُنکے صدر بننے کے امکانات موجود ہیں لیکن موجودہ کارکردگی کے بعد وہ پارلیمانی نظام کے تحت کبھی دوبارہ وزیراعظم نہیں بن سکتے، یہاں ایک بات کو سمجھنا بہت ضروری ہے کہ کوئی بھی نظام خراب نہیں ہوتا بلکہ اُسکو چلانے والے خراب یا نااہل ہو سکتے ہیں، عمران خان وزیراعظم اِسی پارلیمانی نظام کے تحت ہی بنے لیکن پھر وہ نہ اِس نظام کے تحت حکومت چلا پائے اور نہ ہی نظام میں موجود خامیوں کو دور کر سکے بلکہ اِن میں اضافہ ہوا، اب حکومت کی ناکامی کے بعد نظام کو ہی قصور وار ٹھہرا کر سازشیوں میں شامل ہو جانا یہ بات قطعاً قابلِ قبول نہیں ،پاکستان میں ماضی میں بھی صدارتی نظام مختلف طریقوں سے لاگو ہو چکے ہیں جب فردِ واحد کی حکومت یا من مانی ہوا کرتی تھی ،پاکستان اب تک چار مارشل لاؤں کو دیکھ چکا ہے، مارشل لاء کانظامِ حکومت بھی صدارتی ہی تھا۔

(جاری ہے)

جس میں تمام اختیارات فردواحدکے پاس ہی ہوتے تھے، صدر ِ پاکستان ہی تمام سیاسی و سماجی امور کو دیکھتا تھا، بعد میں  جناب اسحاق خان کے پاس بھی وہی پاورز تھیں جو صدارتی نظام میں ایک صدر کے پاس ہوتی ہیں، غلام اسحاق خان کے پاس اتنی پاور تھی کہ اُنہوں نے اپنے دور میں پارلیمنٹ کو ٹھیک سے چلنے نہ دیا اور نوے کی دہائی میں دو وزراء اعظم فارغ کیے، یہ صدارتی تجربات بھی ملک کے لیے بھیانک ثابت ہوئے، صدر ایوب خان کا صدارتی نظام بھی پاکستان دولخت ہونے کی بڑی وجہ بنا، پاکستان جیسے ملک میں جہاں سیاسی اور سماجی طور پہ کئی اقوام آباد ہیں وہاں ملک میں صدارتی نظام یعنی کہ فردِ واحد کے ہاتھ میں پاور تھما دینا ملک توڑنے کی کوشش کرنے کے مترادف ہے، اِس لیے پاکستان کے لئے پارلیمانی نظام سے اچھا کوئی اور نظام نہیں، اِسے بہتر کرنے کی البتہ گنجائش موجود ہے کیونکہ پاکستان میں جن لوگوں کی طرف سے پارلیمانی نظام کے خلاف سازشیں رچائی گئیں یا رچائی جا رہی ہیں اُن کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ذاتی خواہشات یا ترجیحات کے بدلے یہ زیادہ اہم ہے کہ ملک کے لئے کونسا نظام بہتر ہے اور اُس نظام کو مضبوط کرنے کے لئے اُس کے خدوخال پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے، یقیناً پاکستان کے پاس ایک آئین موجود ہے، آئین میں تمام اداروں کی حدود کا تعین کر دیا گیا ہے، اب ضرورت صرف اِس امر کی ہے کہ آئین پر من و عن عمل درآمد کیا جائے اور پارلیمانی نظام کو مضبوط بنایا جائے، اگر شخصیات یا ادارے آئین کے تابع ہو کر کام نہیں کرینگے تو چاہے کوئی نظام بھی آ جائے ملک ترقی نہیں کرے گا مسائل حل نہیں ہونگے۔

اِس لیے ایک نیا سوشہ چھوڑنے سے بہتر ہے کہ حکومت اور اپوزیشن مل کر پارلیمان کو مضبوط بنائیں کیونکہ دنیا میں کئی ممالک نے پارلیمانی جمہوریت کے ساتھ ترقی کی ہے، پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت قائداعظم اور فاطمہ جناح کا بھی خواب تھا لیکن اِس نظام کی حفاظت اور مضبوطی کے لئے تمام ملکی اکائیوں کو مل کر کام کرنا ہی ہوگا۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :