"ایک عہد جو وفا ہوا"

ہفتہ 12 دسمبر 2020

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

ایک سفر جو تمام ہوا، ایک عہد جو وفا ہوا۔
انسان کی سماجی زندگی میں کئی مراحل آتے ہیں جن کو طے کرنا پڑتا ہے, جن کو عبور کرنے کے لئے ناجانے کتنے جتن کرنے پڑتے ہیں تبھی جا کر اُسے اپنی منزل نصیب ہوتی ہے۔سکول سے نکل کر ہم کالج میں آتے ہیں اور کالج میں ہی ہم مستقبل کی زندگی کے بارے سوچنے لگتے ہیں، ہم میں سے بہت سے ڈاکٹر بننے کے خواب دیکھ رہے ہوتے ہیں تو کوئی انجینئر یا اِن سے ہٹ کر کسی دوسری طرف اپنی قسمت آزمائی کرتے ہیں ۔

میں بھی جھنگ کے عظیم تعلیمی ادارے چناب کالج جھنگ سے فارغ التحصیل ہو کر چل پڑا ۔ایک نئی زندگی اور نیا سفر میری راہ تک رہا تھا ۔سرگودھا یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف پولیٹیکل سائنس اور انٹرنیشنل ریلیشنز میں خواہشات کے عین مطابق داخلہ نصیب ہوا۔

(جاری ہے)

یہ ایک سنہری اور تجربات سے بھرپور سفر تھا جو آج اختتام پذیر ہو چکا ہے ۔اِس دوران کئی لمحات ایسے بھی آئے جو میرے لئے باعثِ مسرت تھے اور کئی لمحات ایسے بھی تھے جن کو پیچھے چھوڑ کر میں آگے بڑھتا رہا اور بلآخر اپنی منزل تک کامیابی کے ساتھ پہنچ چکا ہوں ۔

انسان کی طالبعلمی کے زمانے میں اُس کا سب سے زیادہ واسطہ ہم جماعت ساتھیوں سے پڑتا ہے ۔ کلاس میں اکٹھے بیٹھنا، اکٹھے ہو کر کلاسز لینا اور مل جل کر اٹھکیلیاں کرنا یہ سب معمول بن جاتا ہے، بہت سے ہم جماعت ساتھی آپ کے اچھے دوست بن جاتے ہیں جن کے ساتھ ہی یونیورسٹی کا زیادہ وقت گزرتا ہے اور یہی ساتھی آپ کے ہر لمحات میں آپ کے ساتھ ہوتے ہیں ۔

وہ یونیورسٹی کی کنٹین پر اکٹھے بیٹھ کر چائے کی چسکیاں لینا، کلاسز بنک کرنا، پیزا پارٹیوں میں شرکت کرنا یہ سب ماضی تو بن جاتا ہے لیکن ذہنوں میں ہمیشہ کے لئے نقش ہو جاتا ہے ۔ ہوسٹل لائف یونیورسٹی لائف کا حسن ہوتی ہے جب آپ گھر سے دور خود ہی گھر والا ماحول بنا کر زندگی گزارتے ہیں، وہ رات دیر تک ہوسٹل میں دوستوں کی محفلیں، مل کر کھانے جانا اور تمام معاملات کا خود سے ہی انتظام کرنا، بھلا یہ کیسے بھول سکتا ہے، میری یونیورسٹی لائف اور ہوسٹل لائف کئی خوشگوار لمحات کا مجموعہ ہے۔


چار سال کا یہ طویل سفر کئی یادوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔وہ یونیورسٹی کا پہلا دن آج بھی یاد ہے جب پہلی کلاس کا آغاز ہوا ،کس طرح ہم سب نے اساتذہ کے ساتھ اپنا پہلا تعارف کروایا یہ سب ایسے یاد ہے جیسے گزرے کل کی باتیں ہوں ۔اِسی طرح ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ کئی یادیں وابستہ ہیں جو آج بھی ذہنوں میں تروتازہ ہیں، ڈیپارٹمنٹ کے اساتذہ کرام کی محبت اور شفقت مرتے دم تک سایہ بن کر رہے گی جن کی دعاؤں کی بدولت آج میں نے یہ سفر مکمل کیا۔

یہ بات بھی میرے لئے باعثِ فخر رہے گی کہ میرے اساتذہ نے میری ہمت بڑھائی اور مجھے سوچنے سمجھنے کی نئی صلاحیت دی۔ہمارے ڈیپارٹمنٹ پولیٹیکل سائنس اور انٹرنیشنل ریلیشنز کے اساتذہ جن کی مرہونِ منت آج میں یہاں تک پہنچا اُن کو ہمیشہ دعاؤں میں یاد رکھنا میری زندگی کا ایک نیک مقصد ہوگا، وہ دوست جنھوں نے میرے ہر مشکل وقت کو آسان کیا اور خوشیوں میں سانجھے رہے، اِن سب کو بھلانا میرے لئے مشکل ہوگا۔

یونیورسٹی لائف کی ایک حقیقت جسے کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا وہ آپ کے جونیئرز ہوتے ہیں ۔اِن میں سے تو بہت آپ کے اچھے دوست بھی بن جاتے ہیں تو کوئی آپ کو استاد جیسا مقام ہی دیتے ہیں ۔ میرے ڈیپارٹمنٹ کے جونیئرز ساتھیوں کی دی گئی محبت اور عزت میرے لیے باعثِ فخر رہے گی۔اِن میں سے بہت سے میرے بہت قریبی دوست بن گیے جن کے ساتھ اُٹھنا، بیٹھنا معمول رہا ہے یقینا ایسے لمحات بہت یاد آتے ہیں ۔


اِن چار سالوں میں بہت سے لمحات ایسے بھی آئے جو ابھی تک میرے دل و دماغ میں تازہ ہیں جیسے کل کی بات ہو۔ ہوتے ہیں نہ ایسے لمحات جن کو یاد کر کے انسان خوش بھی ہوتا ہے اور افسرده بھی لیکن یہ تمام لمحات آپ کے لئے کسی نہ کسی صورت ایک سبق ہوتے ہیں جن سے آپ کو سیکھ کر آگے بڑھنا ہوتا ہے اور یہی کامیابی کا راستہ ہے۔ ہماری کلاس کے سی آر اور جی آر ،جنھوں نے کئی مواقعوں پر خوب ساتھ دیا۔

جس طرح انہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھایا یقیناً یہ داد کے مستحق ہیں کیونکہ یونیورسٹی لائف میں سی آر اور جی آر کا اپنا ایک رول ہوتا ہے اور اِن پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ۔ مجھے یہاں اُن ساتھیوں کا ذکر ضرور کرنا چاہئے جو میرے ساتھ یونیورسٹی میں رہے جن کے ساتھ ہر پل گزرا، جو کرکٹ کے گراؤنڈ سے لے کر سلیم کی کنٹین تک اور ہوسٹل سے لے کر ڈیپارٹمنٹ کی کلاس تک میرے ساتھ رہے، چاہے فیضان ہو یا احمد، اویس ہو یا قیصر، واصف ہو یا مہر، حسنات ہو یا فریال، اسد ہو یا شہان، رضوان ہو یا عون ،جنھوں نے میرے دل کی محفلوں کو سجایا اُن کو جگمگایا یا وہ جو میری یونیورسٹی کا اثاثہ ٹھہرے چاہے قاسم ہو یا حبیب یا ہر وہ ساتھی جن کو میں نے اپنے دل کے قریب پایا۔

آج ہم یونیورسٹی سے کچھ کھٹی میٹھی یادوں کو لے کر الوداع ہو چکے ہیں، چار سالوں کا یہ لمبا سفر اور پھر الوداعی لمحات یقیناً درد ناک ہوتے ہیں .کون چاہے گا کہ اِس جگہ سے جڑی یادوں کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکلے جہاں زندگی کے قیمتی چار سال گزرے ہوں لیکن شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ__
کہ رہی ہیں درد میں ڈوبی فضائیں الوداع
چارسو چھائی ہیں اشکوں کی گھٹائیں الوداع

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :