
جہیز رسم ہے یا جائز مگر کیسے؟
ہفتہ 13 فروری 2021

شیخ منعم پوری
ہمارے ہاں بہت سی روایات ایسی بھی ہیں جو صرف دکھاوے کے لیے ہی بنائی گئی ہیں، جو اگر نہ ہوتیں تو شاید زیادہ بہتر ہوتا لیکن چند لوگوں نے اپنی ٹھاٹ باٹ کو برقرار رکھنے کے لئے اِن کو پروان چڑھایا، جہیز بھی اِن روایات میں سے ایک ہے، ہمارے معاشرے میں یہ روایت اِس حد تک عام ہو چکی ہے کہ جس کو ختم کرنا ناممکن سا لگتا ہے کیونکہ آجکل کے دور میں یہ فیشن بن کر عام ہو چکا ہے اور شادی سے پہلے لڑکی والوں کی طرف سے پہلا قدم جہیز بنانا ہی ہوتا ہے، ایسی رسم کو پروان چڑھانے اور برقرار رکھنے میں امراء کا بہت اہم کردار ہے جو اپنی بیٹی کی خوشنودی سے بڑھ کر لوگوں کو دکھانےکیلئے پیسوں کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں اور یوں جہیز کی رسم انسانوں کی بستیوں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی ہے جو مسلسل پھیلتی جارہی ہے ،یقیناً اِس رسم نے غرباء ومساکین کی زندگی کو کافی متاثر بھی کر رکھا ہے لیکن وہیں امیر خاندانوں نے دکھاوے کو برقرار رکھنے کے لئے جہیز جیسی بیماری کو پروان چڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، جہیز کے حوالے سے کچھ حقائق ایسے بھی ہیں جن کو سمجھنا بھی ضروری ہے،
اگر لڑکی کے والدین اپنی بیٹی اور داماد کی خوشنودی کے لئے سازوسامان کا بندوبست کرتے ہیں، یہاں تک کہ اُن کو لڑکے والوں کی طرف سے روکا بھی جاتا ہے کہ وہ جہیز کا بندوبست نہ کریں لیکن لڑکی کے والدین جہیز دینے پر بضد ہوتے ہیں۔
(جاری ہے)
ہمارے لئے رسول صلی الله عليه و آلہ وسلم کی زندگی عملی نمونہ ہے، آپ صلی الله عليه وسلم نے اپنی کسی بیٹی کی شادی کرتے وقت اُن کو جہیز نہیں دیا، اِس لیے اسلام میں جہیز کو ناپسند کیا گیا ہے، لیکن ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیٹی کو چند اشرفیاں بطور ضرورت دیں لیکن یہ عمل بھی چپکے سے ہی ہونا چاہیے تاکہ کسی دوسرے کو پتہ نہ چل پائے اور یہ عمل دکھاوے کے زمرے میں نہ آئے، اگر ہمارے پیارے نبی اکرم صلی الله عليه وسلم اور اُن کا گھرانہ جہیز کی رسم کے حوالے سے اِس قدر محتاط تھے تو اُن کی زندگی ہمارے لئے عملی نمونہ ہونی چاہیئے ۔
اگر اسلامی اصولوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو یہاں جہیز کے عمل کو ناپسند اور حقِ مہر کو جائز کہا گیا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں یہ حقیقت بھی یکسر بدل چکی ہے جہاں لڑکی والوں سے لاکھوں کے جہیز کی ڈیمانڈ یا خواہش لگا کر لڑکے والوں کی طرف سے چند ہزار حقِ مہر دیے جاتے ہیں جو کہ اسلامی اصولوں کے منافی ہے .اصل بات یہی ہے کہ اگر لڑکی کے والدین اپی بساط کے مطابق جہیز کا بندوبست نہیں کر پاتے تو لڑکے والوں کو کسی صورت جہیز کی ڈیمانڈ نہیں کرنی چاہئے تاکہ لڑکی کے والدین اخراجات کے بوجھ سے محفوظ رہیں اور لڑکے کو ہسی خوشی اپنا گھر بسانا چاہیے نہ کہ جہیز کا لالچ دل میں لے کر بیٹھ جائے، اِس لیے اب یہ ہم پر ہی منحصر ہے کہ ہم نے جہیز کو لعنت ہی بنانا ہے یا اِس رسم کو ختم کرنا ہے کہ جب تک لڑکی والوں کی طرف سے لاکھوں میں جہیز نہیں دیا جائے گا، شادی نہیں ہوگی۔۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
شیخ منعم پوری کے کالمز
-
صدارتی یا پارلیمانی نظام؟
پیر 24 جنوری 2022
-
کیسا رہا 2021 ؟
بدھ 29 دسمبر 2021
-
"مسائل ہی مسائل"
جمعہ 19 نومبر 2021
-
"نئے پاکستان سے نئے کشمیر تک"
جمعرات 29 جولائی 2021
-
افغان جنگ کا فاتح کون، امریکہ یا طالبان؟
ہفتہ 10 جولائی 2021
-
"جمہوریت بمقابلہ آمریت،خوشحالی کا ضامن کون؟"
جمعہ 2 جولائی 2021
-
"حامد میر کا جرمِ عظیم اور صحافت کی زبان بندی"
بدھ 16 جون 2021
-
معاشرتی مسائل اور ہمارے روّیے"
منگل 15 جون 2021
شیخ منعم پوری کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.