پاکستان اور حضرت صالح کی اونٹنی

اتوار 19 اپریل 2020

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

پاکستانی اردو ادب کی دنیا میں ممتاز مفتی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں،انہوں نے اپنی بھرپور اور لمبی زندگی میں اردو ادب کو بہت شاندار اور نایاب کتابیں تحریرکی شکل میں دی ہیں۔ اس میں جو سب سے زیادہ مشہور ہوئی وہ انہی کی اپنی زندگی کی آپ بیتی تھی ۔ پہلی کتاب '' علی پور کا ایلی '' جو انہوں نے قیام پاکستان سے قبل لکھنی شروع کی اور قیام پاکستان کے بعد اس کتاب کا اختتام ہوا۔

کافی عرصے تک اس کتاب میں انہوں نے اپنے آپ کواس کا کردار یعنی ایلی ماننے سے انکار کئے رکھا اور اس کتاب کے بعد جب انہوں نے اپنی دوسری کتاب '' الکھ نگری'' لکھی تو اس میں انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ '' علی پور کا ایلی'' میں جو بچے کا کردار تھا وہ تخیلاتی کردار نہیں بلکہ وہ بچہ خود میں ہی تھا۔

(جاری ہے)

اس کی وجہ ناجانے کیا تھی، کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا۔

لیکن جب اسی کتاب کو جاری رکھتے ہوئے جب انہوں نے '' الکھ نگری'' تحریر کی تو گویا لکھتے لکھتے اتنا کچھ لکھ گئے کہ آج بھی اگر کوئی اردو ادب کا شوقین اس ایک ہزار سے زائد صفحات پر مبنی کتاب کا مطالعہ کرنا شروع کرے تو اسے دھیان ہی نہیں رہتا کہ وقت کس برق رفتاری سے گزر گیا۔ اس کتاب میں مفتی صاحب کے ایک دوست ذوبی کا ذکر ہے، اس کا یہ نام ادبی طور پر اشفاق احمد صاحب نے رکھا جو انہی کا اصل میں دوست تھا، ویسے تو ان کا اصل نام عنایت اللہ تھا اور اشفاق احمد صاحب نے ہی مفتی صاحب کا تعارف بھی اس آرٹسٹ بت تراش سے کرایا تھا۔

جو پیشہ کے لحاظ سے ایک مصور اور نہایت اعلٰی پایہ کا بت تراش تھے، اس نے کافی عرصہ قبل اپنا سٹوڈیو باغ جناح پرواقع اوپن ایئر تھیٹر میں دو چھوٹے کمروں میں بنا رکھا تھا اور اس دور کے کئی ادیب اور فنکارشوق کے طور پر ذوبی کے پاس اپنے مجسمے اور پوٹریٹ بنوانے کیلئے آتے وہ ان فنکاروں اور ادیبوں کے مجسمے بناتے تھے، وہ اس کام کا معاوضہ بھی لیتے تھے اور اسی کام سے اپنی گزر بسر کرتے تھے۔

ممتاز مفتی ''الکھ نگری'' میں لکھتے ہیں کہ ایک روز ہم ذوبی کے ساتھ کراچی کے ساحل سمندر کی طرف نکل گئے اور وہیں ایسے ہی غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے ذوبی اپنی ایک خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے کہ '' یار میرا دل چاہتا ہے کہ مجسمہ سازی کا ایک شاہکار بناؤں کہ میرے بعد کم از کم پاکستان کے لوگ میرا نام یاد رکھیں، میں چاہتا ہوں کہ پاکستان کا کوئی سرمایہ دار مجھے سپورٹ کرے تو میں اس سمندر کے عین درمیان میں جہاں سے پاکستان کی سمندری حدود شروع ہوتی ہیں وہاں پر بہت بڑا نیویارک امریکہ میں قائم سٹیچو آف لبرٹی کی طرز کا دیوہیکل قامت قسم کا قائداعظم محمد علی جناح کا ایک مجسمہ بنا کر لگواؤں، جو اپنی جناح کیپ، شیروانی اور سفید شلوار میں ملبوس ہوں اور ان کی ایک ٹانگ اور دوسری ٹانگ کا درمیانی فاصلہ کئی کلو میٹر پر محیط ہو، اور اس سمندری حدود سے جو بھی بحری جہاز، مسافر بردار بحری جہاز یا مال بردار بحری جہاز پاکستان کی حدود میں داخل ہو وہ قائداعظم کے مجسمہ کی ٹانگوں کے نیچے سے گزرتا ہوا کراچی یا پاکستان کی سمندری حدود میں داخل ہو۔

یہ دنیا کا سب سے بڑا مجسمہ ہو''۔ اب وہ ذوبی صاحب تو پتہ نہیں اس دنیا میں ہیں بھی یا نہیں لیکن ان کا یہ تخیل بڑا اچھا ہے، میرا دل چاہا کہ ویسے بھی تو پاکستان کے کئی ایک کام ایسے ہیں جن پر بے شمار رقوم برباد کر دی گئیں اور اب بھی ہو رہی ہیں جن کا کوئی فائدہ دیکھنے میں نہیں آتا۔ اور ہمارے ملک کے مشہور ترین سرمایہ دار ملک ریاض صاحب اور ان جیسی کئی اور صاحب ثروت شخصیات پاکستان بھر میں موجود ہیں، اگر ان تمام دولت مند افراد تک میری بات پہنچے اور وہ اس عظیم منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا شوق رکھتے ہوں تو انہیں چاہئے کہ ایسے کام کیلئے پاکستان کے بہترین مجسمہ ساز کو منتخب کریں اور اسے اس منصوبہ کو مکمل کرنے کا ٹاسک دیں، جس سے ان کا نام ناصرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں تاقیامت اچھے لفظوں سے یاد رکھا جائے گا۔


اس لاک ڈاؤن اور عالمی وباء کے ماحول پر جس بھی اخبار کے ایڈیٹویل پیج کو کھنگال کر دیکھ لیں اسی کرونا بیماری کے متعلق بے شمار مضامین چھپ رہے ہیں اور اخبار کے قارئین بھی اب اس بیماری کے متعلق ایک ہی بات کو بار بار پڑھتے ہوئے تنگ آ چکے ہیں، خود میں نے اب تک پانچ مضامین لکھ لئے ہیں اور آج میں یہ سوچ رہا تھا کہ آج کا مضمون زرا ہٹ کر لکھا جائے تاکہ پڑھنے والوں کو کچھ تو ریلیف ملے۔

اوپر والے پیرا گراف کو آگے بڑھاتے ہوئے مجھے بابا جی اشفاق صاحب کی کچھ باتیں ذہن میں آ رہی ہیں کہ وہ ایک مرتبہ فرماتے ہیں کہ میرے ایک ملنے والے دوست کے بیٹے کو کسی شرارت یا ڈسپلن کی خلاف ورزی کے باعث سکول سے نکال دیا گیا، اور اس بچے کے والدین کی طرف سے معافی تلافی اور منت سماجت کے باوجود سکول پرنسپل اس بچے کو سکول میں واپس لینے کو تیار نہیں ہو رہا تھا، تو میرے دوست نے مجھ سے کہا کہ کیونکہ آپ کو سب لوگ جانتے ہیں آپ میرے بچے کی سفارش پرنسپل صاحب سے کریں کہ وہ اس بچے کی غلطی معاف کر دیں اور اسے سکول میں واپس داخلہ دے دیں۔

میں نے اس پر سکول جانے کی یقین دہانی کرائی اور اگلے دن سکول پرنسپل کے پاس چلا گیا۔ جیسے ہی پرنسپل صاحب کے دفتر میں داخل ہوا، پرنسپل صاحب کی مہربانی کہ انہوں نے مجھے پہچان لیا اور بڑی عزت افزائی کی۔ میں نے بعد ازحال احوال بات شروع کی کہ میرے دوست کے بیٹے کو آپ نے سکول سے نکال دیا ہے اور آجکل پڑھائی کے دنوں میں وہ گھر بیٹھا ہوا ہے، جس کے باعث اس کا پڑھائی کا حرج ہو رہا ہے آپ مہربائی اسے اس کی غلطی معاف کرتے ہوئے پڑھائی کیلئے کلاس میں بیٹھنے کی اجازت دے دیں۔

اس بات پر وہ تو سخت غصہ میں آ گئے اور پہلے اس بچے کی غلطیوں کے انبار لگا دیئے اور ہر بات پر ایک ہی جملہ بار بار دھراتے کہ '' یہ میرے اصولوں کے خلاف ہے، لہٰذا میں اسے معاف نہیں کروں گا''۔ بابا جی فرماتے ہیں کہ پہلے تو میں ان کی ہر بات کو بڑے تحمل سے سنتا رہا ہے کہ چلو اس وقت وہ سخت غصے میں ہیں، کوئی بات نہیں۔ لیکن جب میں وہاں سے اٹھنے والا تھا تو میں نے بھی اپنی چائے کی آخری چسکی لی اور آخری بات پرنسپل صاحب کے گوش گزار کی کہ جناب والا '' آپ ماشااللہ اس سکول کے پرنسپل ہیں، اتنے پڑھے لکھے آدمی ہیں، اور بار بار مجھے یہ کہہ رہے ہیں کہ میں بہت بااصول آدمی ہوں اور یہ میرے اصولوں کے خلاف ہے، وغیرہ وغیرہ تو آپ کو یہ معلوم ہے کہ اس دنیا کی سب سے بڑی بااصول ہستی کون سی گزری ہے؟ اس سوال پر وہ تھوڑا سے چونکے اور سوچنے لگے کہ اس دنیا کی سب سے بڑی بااصول ہستی کون ہو سکتی ہے۔

کچھ لمحوں بات جب اس سوال کی لاعلمی کی جھلک میں نے ان کی آنکھوں میں دیکھی تو میں نے ان سے کہا کہ اس کا جواب میں آپ کو بتا دیتا ہوں۔ جناب پرنسپل صاحب! اس دنیا کی سب سے زیادہ بااصول ہستی شیطان ہے، میرا جواب سن کر ناگواری کے اثرات ان کے چہرے پر عیاں تھے، میں نے دوبارہ ان سے کہا کہ جب اللہ تعالٰی نے انسان تخلیق کیا اور سارے فرشتوں کے ساتھ ساتھ شیطان کو بھی حکم دیا کہ اسے سجدہ کرے، سارے فرشتوں نے تو انسان کو سجدہ کیا اور اللہ تعالٰی کی اس تخلیق پرحمدوثنا کرکے تعریف کی لیکن شیطان نے ناصرف اللہ تعالٰٰی کی اس تخلیق کو سجدہ کرنے سے انکار کرنے کا اصولی موقف اختیار کیا بلکہ اللہ تعالٰی کا نافرمان ہوتے ہوئے جنت سے سیدھا زمین پر پھینک دیا گیا اور اس کے جواب میں شیطان نے اللہ تعالٰی کی نافرمانی کا عملی ثبوت دیتے ہوئے کہا کہ اے اللہ میں تاقیامت تیری اس مخلوق کو تیری اطاعت کرنے سے ہر ممکن طور پر بہکاتا رہوں گا، وہ اسی کی سزا رہتی دنیا تک جھیلتا رہے گا۔

اب پرنسپل صاحب آپ بتایئے کہ اب دنیا میں شیطان سے بڑا بھی کوئی اصول پسند واقعہ ہوا ہے جو اپنے اللہ کیلئے بھی اپنے اصولوں کی قربانی دے نہیں پا رہا۔ یہ بات کرنے کے بعد میں اٹھ کھڑا ہوا اور واپس گھر آ گیا ۔ اگلے دن میرے وہ دوست میرے لئے مٹھائی کا ڈبہ لیکر آگئے اور کہا میرے بچے کو دوبارہ اسی سکول میں داخل کر لیا گیا ہے۔ میں اب سوچتا ہوں کہ پرنسپل صاحب بھلے مانس آدمی تھے جو انہوں نے میری بات کو سنا اور اس پر غور کیا۔

میں اس واقعہ کے نتیجہ میں اس بات پر پہنچا ہوں کہ اصول بنانا تو اچھی بات ہے لیکن اصولوں کے تابع ہونا غلط بات ہے۔
اسی طرح کی بہت ساری ملتی جلتی باتوں اور واقعات کا گویا بابا جی اشفاق احمد صاحب سمندر تھے، جن کو سن اور پڑھ کر اسے سمجھنے کیلئے بہت زیادہ پڑھا لکھا ہونا ضروری نہیں ۔ ان کے اقوال اور واقعات زیادہ سے زیادہ تعلیم یافتہ لوگوں سے لیکر کم سے کم پڑھے لکھے لوگ بڑی آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔

بابا جی اپنی ایک کتاب میں حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ موجودہ عہد کے نہایت معتبر ملک اردن میں قبل مسیح دور میں ایک ثمود نامی قوم آباد تھی جو اس دور کی بہت ترقی یافتہ اور امیر قوم تھی، انہوں نے اپنے علاقوں میں موجود پتھریلے اور چٹیل پہاڑوں کو ہتھوڑوں اورآہنی اوزاروں کی مدد سے کاٹ کاٹ کر بہترین محل تعمیر کئے، اس تعمیر میں انہوں نے بڑے بڑے بت بھی تراشے جن کی وہ قوم پوجا کیا کرتے اور بے شمار دولت کی ریل پیل نے ان کواس قدر تکبر میں مبتلا کر دیا کہ وہ قوم بگڑتے بگڑتے بے راہ ہو گئی۔

ا س پر اللہ تعالٰی نے حضرت صالح علیہ السلام کو پیغمبر مقرر کرتے ہوئے ان کو اس قوم کواصلاح کیلئے بھیجا۔ جب حضرت صالح علیہ السلام ان غرور و تکبر میں ناک ناک ڈوبی قوم کے پاس گئے اور اللہ کا پیغام پہنچانا چاہا تو پہلے تو وہ مکمل طور پر انکاری ہو گئے اور جواز یہ پیش کیا کہ تم پتہ نہیں کہاں سے آ گئے ہو ، نا تم ہماری طرح امیر و کبیر ہو اور نا تمہارا لباس ہمارے علاقے کی شان و شوکت کے مطابق امیرانہ ہے، تم تو ایک عام آدمی دکھتے ہو۔

ہم کیسے مان لیں کہ تمہیں اللہ نے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے، ہماری ایک شرط ہے کہ کوئی معجزہ کرکے دکھاؤ تو پھرہم سوچ سکتے ہیں کہ شائد تمہیں اللہ نے ہی بھیجا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تمہیں کیا معجزہ دیکھنا ہے، آپ لوگ خود ہی فیصلہ کر کے بتاؤ، لیکن اتنا خیال رکھنا کہ اگراللہ کے فضل سے میں نے وہ معجزہ کرکے دکھا دیا تو تم کو ہر صورت اللہ تعالٰی پر ایمان لانا پڑے گا، اور اگر تم نے معجزہ دیکھنے کے بعد بھی اللہ پر ایمان لانے سے انکار کر دیا تو اللہ تعالٰی تم پر اپنا عذاب لائے گا، جس سے تم نیست و نابود ہو جاؤ گے۔

انہوں نے اس پر اقرار کرتے ہوئے حضرت صالح علیہ السلام سے کہا کہ آپ سامنے پہاڑ سے ایسا کرشمہ کر کے دکھائیں کہ وہاں سے ایک اعلٰی نسل کی اونٹنی پیدا ہو اور ہمارے قبیلے میں اترے اور یہاں ہمارے گاؤں میں رہے،انہوں نے سوچا کہ سامنے پتھریلے پہاڑ پر نا تو کوئی ہریالی ہے اور نا آبادی یہ اونٹنی کہاں سے آئیگی۔ چنانچہ حضرت صالح علیہ السلام نے اللہ تعالٰی سے دعا فرمائی کہ یا اللہ اس قوم کو راہ راست پر لانے کیلئے معجزہ دکھانے کی ضرورت ہے۔

میرے اللہ سامنے پہاڑ سے ایک اعلٰی نسل کی اونٹنی بھیج دے تاکہ یہ تجھ پر ایمان لے آئیں۔ اللہ کا کرنا ایسا ہی ہوا اور ایک اعلٰی نسل کی اونٹنی برآمد ہو گئی اور اس نے ثمود قوم کے قبیلے میں اپنا قیام کیا۔ حضرت صالح علیہ السلام نے قبیلہ کے سردار سے کہا کہ یہ اونٹنی آج سے اس قبیلے میں اللہ تعالٰی کی جانب سے بھیجی جانیوالی مہمان کے طور پر رہے گی لہٰذا اسے کسی قسم کی تکلیف نا ہو۔

قبیلے میں موجود جو پانی کا کنواں ہے اس کنویں سے جس روز اونٹنی پانی پئے گی تو اس پورے دن قبیلے کا کوئی دوسرا بندہ یا عورت حتیٰ کہ جانور بھی پانی نہیں پی سکے گا۔ قبیلے کے سردار نے حامی بھر لی اور ایسے ہی ہوا کہ جس روز اونٹنی پانی پیتی تو کوئی دوسرا جاندار پانی نہیں پی سکتا تھا، لیکن کچھ ہفتوں میں ہی اسی قبیلے کے ایک شخص پر شیطان نے اپنا وار کیا اور اسے اکسایا کہ پانی پینا چاہئے، اس اکسانے کے خیال نے اسے مجبور کیا کہ قبیلے کے دوسرے شخص کو بھی اپنے ساتھ ملائے اور اس شیطانی سازش میں شامل ہوتے ہوتے پورے قبیلے کے کئی دوسرے لوگ شامل ہو گئے اور اللہ تعالٰی کی بھیجی ہوئی مہمان اونٹنی کی بے ادبی کرتے ہوئے اللہ تعالٰی کے حکم سے انکاری ہو گئے۔

ان بے ہدایت لوگوں نے اس اونٹنی کی ٹانگیں ہی کاٹ ڈالیں تاکہ یہ اگلے روز پانی کے کنویں پر ہی نا جا سکے۔اس بے ادبی پر حضرت صالح علی السلام نے بستی والوں سے فرمایا کہ آپ نے اللہ کی مہمان اونٹنی کا احترام نہیں کیا اس پر اب اللہ تمہارے قبیلے پر تین روز کے اندر اندر عذاب نازل فرمائے گا، اور وہاں سے چلے گئے، اگلے روز اس بستی کے سارے لوگوں کے ہونٹ نیلے ہوئے اور اس سے اگلے ہی دن ان کے چہرے سرخ ہو گئے اور آخر میں سارا جسم کالا ہو گیا اور باری باری ساری قوم منہ کے بل جاگری اور اس عذاب الہٰی سے کوئی بھی نا بچ سکا کیونکہ اس قوم نے اللہ تعالٰی کی طرف سے بھیجی جانیوالی مہمان کا عزت و احترام نہیں کیا۔

اب اس قوم کے محل اور بت اردن میں موجود تو ہیں لیکن ثمود قوم کا نام لیوا کوئی نہیں ۔ اسی تحریر کو جاری رکھتے ہوئے بابا جی اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ یہ پاکستان بھی اللہ تعالٰی کی طرف سے حضرت صالح کی اونٹنی کی طرح ہمیں معجزہ و تحفہ کے طور پر دیا گیا ہے جس کی قدر کرنا ہر پاکستانی کا فرض ہے۔ ہم پاکستانی اس وقت بہت بے خیال ہو گئے ہیں اور پاکستان کو نقصان پہنچانے والے اسے نوچ نوچ کر کھاتے رہے ہیں۔

یہ پاکستان جغرافیائی حقیقت نہیں بلکہ ایک معجزہ کے طور پر اللہ تعالٰی نے جیسے قوم ثمود پر اونٹنی کی شکل میں پیدا کیا تھا اور وہ قوم اسے عزت و احترام سے قاصر رہی جس کے بدلے میں اللہ تعالٰی نے اسے عذاب سے دوچار کیا۔ اگر ہم لوگ پاکستان کو حضرت صالح کی اونٹنی سمجھنا چھوڑ دیں گے تو خدا نخواستہ نا تم رہو گے، نا تمہاری یادیں۔ سچ تو یہ ہے کہ قیام پاکستان سے لیکر اب تک پاکستانیوں نے قوم ثمود کی طرح اس معجزہ کے ساتھ وہی رویہ روا رکھا ہوا ہے جو اس قوم نے اونٹنی کے ساتھ کیا تھا۔

ساوتھ ایسٹ ایشیا اور دوسرے دنیا بھر کے ممالک یہ سمجھنا چھوڑ دیں کہ پاکستان صرف ایک چھوٹا سا، معمولی سا جغرافیائی ملک ہے، یہ تو حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی طرح اللہ تعالٰی کا عطا کردہ تحفہ ہے۔اس کا ادب و احترام ہم سب پر واجب ہے۔ جس جس نے بھی اس ملک کو نوچا ہے اسے وہ لوٹا ہوا سارا مال واپس دینے کا وقت آ چکا ہے۔ اب تک پاکستانیوں سے جو جو کوتاہیاں ہوئی ہیں اس کی اللہ کے حضور معافی مانگتے رہو۔

یاد رکھئے ۔۔! جو بھی سیاست دان یا بے ادب و ناہنجار قسم کا بندہ پاکستان کے خلاف غلط باتیں کرتا ہوا دیکھیں یا قائد اعظم جیسی شخصیت میں کیڑے نکالتا ہوا دیکھیں تواس کی بہت جلد پکڑ ہونیولی ہے، اس کی شخصیت کو غور سے دیکھئے گا تو وہ بندہ لازمی لینے والوں میں سے ہو گا، دینے والوں میں سے نہیں ہو گا۔ میرے محب وطن پاکستانیوں شاد رہو آباد رہو ۔ اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کی توفیق دے۔ (آمین)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :