''غیراخلاقی کلچر'' اور برساتی آفت

جمعہ 30 جولائی 2021

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

کوئی دو دہائیوں قبل سے لیکر اب تک پاکستانی عوام کیلئے تفریح کاواحد اور بہترین ذریعہ سٹیج ڈرامہ تھا، جس میں اردو و پنجابی جگت بازی سن اور دیکھ کر پاکستانی عوام اپنا دل بہلایا کرتی تھی، اس طنزو مزاح میں کوئی نا کوئی سبق سیکھ کر جاتی تھی، پھر آہستہ آہستہ فحاشی ، ذو معنی جملے ،لچرپن اور مجروں نے سٹیج پر اپنی تھوڑی تھوڑی جگہ بناتے بناتے مکمل طور پر سٹیج پر قبضہ کر لیا، گویا ''گھر آگ لینے آئی تھی اور گھر پر قبضہ کر لیا'' ۔

اس جگت بازی اورر لچر پن فقروں کا مہذب نام '' پاکستانی کلچر'' رکھا گیا ۔ اور یہی کلچر آج تک بڑھتے بڑھتے اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ پاکستانی جس ڈرامے کو دیکھنے پوری فیملی کے ساتھ جایا کرتے تھے ، ان فیملیز نے سٹیج ڈرامہ دیکھنا ہی چھوڑ دیا۔

(جاری ہے)

اب تو حال یہ ہے کہ سٹیج ڈرامہ دیکھنے جانے والے اگر چند شریف آدمی ڈرامہ ہال کا رخ کر بھی لیں تو کچھ جملے سن کر اور ناچنے والی نئی فنکاراؤں کی حرکات و سکنات دیکھ کر شرم سے اپنا سر جھکا لیتے ہیں۔

اسی مافیا کا بائیکاٹ کرنے کیلئے سٹیج کے پرانے اور سینئر فنکاروں نے سٹیج پر کام کرنا ہی چھوڑ دیا کیونکہ انہیں جب بھی باہر کی دنیا میں عوام کاسامناکرنا پڑتا تھا تو انہیں بھی احساس ندامت اٹھانا پڑتا، ان کے اس اقدام کا سٹیج کی دنیا پر رتی برابر بھی کوئی فرق نہیں پڑا۔ اس کے بعد پرائیویٹ ٹی وی چینلز کی بھرمار شروع ہوئی،اور یکے بعد دیگرے تمام چینلز نے مزاح سے بھر پور پروگرام شروع کئے، اور انہی پروگرامز میں سٹیج کے سینئر فنکاروں نے اپنے قدم جمائے۔

پہلے انہی فنکاروں کو دیکھنے کیلئے پاکستانی عوام ہزاروں روپے خرچ کرتی تھی لیکن اب یہی فنکار پاکستان کے گھر گھر میں کیبل کے ذریعے عوام کی دلچسپی اور مزاح کا باعث بن رہے ہیں، اور وہ بھی مفت۔آج کل سٹیج پر ڈرامہ دیکھنے کیلئے جانا صرف عیاشی کے زمرے میں آتا ہے، کوئی بھی مہذب باشعور شہری سٹیج ڈرامہ دیکھنے کو ترجیح نہیں دیتا۔ کیونکہ ان ڈراموں میں وہ فنکار ہی موجود نہیں ہوتے جو اپنی فنکارانہ صلاحیت دکھانے کے ساتھ ساتھ کوئی نہ کوئی سبق بھی چھوڑتے تھے جس سے ڈرامہ شائقین کی اصلاح ہوتی تھی۔

آج کل تو وہ ڈرامہ ڈرامہ ہی نہیں جس میں 6/7 گانوں پر مجروں کا اہتمام نہ کیا جائے۔ آئے دن سٹیج ڈراموں کے دوران اوباش لفنگوں کی لڑائیاں،فائرنگ، فحاشی و عریانی پر چھاپے اور لچرزبان استعمال کرنے پر پورے کا پورا ڈرامے کے ساتھ ساتھ سٹیج ہال پر اخبارات کی سرخیوں کی حد تک بین لگا دیا جاتا ہے۔ حکومت نے بھی اخبارات کی خبروں تک کافی سختی کی لیکن اس پر نا کبھی کوئی سزا سننے میں آئی اور نا ہی کسی قانونی کارروائی کے نتیجہ میں ایسے کسی افراد کے خلاف کوئی ایکشن لیا گیا، اسی لئے ابھی تک سٹیج پر اسی فحاشی ، لچرپن اور خودساختہ فنکاروں کے مافیا کی وجہ سے غیرمنظورشدہ سکرپٹ بلکہ سکرپٹ کے بغیر ہی ڈرامہ پیش کیا جا رہا ہے جس پر کسی کا کوئی چیک نہیں اور پرانے سینئر فنکار ہفتہ میں3/4 روز مختلف پرائیویٹ چینل پر اپنی جگتوں اور بھانڈپن سے بھرپور پروگراموں سے پورے پاکستان کی نئی نسل کو اخلاقی طور پر تباہ کرنے میں مصروف عمل ہے۔

ان چینلز سے ان فنکاروں کو بھاری معاوضہ مل جاتا ہے کہ ان کی گزربسر اچھی بلکہ بہت اچھی ہو جاتی ہے۔اس کے علاوہ آجکل ہر وہ فنکار جو فارغ ہے اور اسے کام ملنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، وہ انٹرنیٹ کی دنیا میں داخل ہو کر بیگو لائیو، ٹک ٹاک اور یوٹیوب پر اپنے اپنے ذاتی چینل بنا کر وہ کچھ اپنے سوشل میڈیا صارفین کیلئے انٹرٹیمنٹ کے نام پر اخلاقی اور غیراخلاقی سبھی سرگرمیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھتا دکھائی دے رہا ہے، جس کے باعث ہماری سوشل میڈیا کے صارفین کی وہ نوجوان نسل جو ان کے چینل دیکھتی اور اپنا زیادہ وقت انہی سے اپنی تفریحی سرگرمیاں پوری کرتی ہے، ان سے کسی بھی قسم کے سدھار یا سبق آموذی کی طرف جانے کی بجائے اخلاقی طور پر تباہی کے دھانے پر کھڑی ہو چکی ہے۔

افسوس کا مقام ہے کہ پہلے پہل شہر یا دیہات میں کوئی بھی ایکسیڈنٹ یا دو افراد میں لڑائی یا اسی قسم کی دوسری سرگرمیوں کے موقع پر ان کی مدد کیلئے یا تو فوراً طبعی امداد کی جاتی تھی، ہسپتال پہنچانے کیلئے ایمبولینس سروس کو فون کیا جاتا تھا، یا ان لڑتے ہوئے افراد میں بیچ بچاؤ کرایا جاتا تھا لیکن اب یہی تماشا دیکھنے والے لوگ اپنا اپنا فون نکال کر اس کی ویڈیو بنانے میں مصروف ہو جاتے ہیں، چاہے اس دوران حادثے کا شکار ہوئے زخمی لوگ اپنی جان سے چلے جائیں، اور لڑائی جھگڑے میں کمزورفریق طاقتور کے سامنے اپنی جان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے۔

اور اس کے بعد اسی ویڈیو کو سوشل میڈیا پر وائرل کرنے کی تگ و دو شروع کر دیتے ہیں تاکہ انہیں اپنی ویڈیو پر LIKE مل سکیں۔اور اگر ان کی ویڈیو وائرل ہو گئی اور ویڈیو دیکھنے والوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ ہو گئی تو ان کے اکاؤنٹ میں ڈھیر سارے پیسے جمع ہو جائیں گے اور وہ بھی ڈالرز میں۔۔۔
اسی موضوع کو جاری رکھتے ہوئے عوامی توجہ اس جانب بھی مبذول کرائی جاتی ہے کہ سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک خود ساختہ اسلامی مفکر قاری ناصر مدنی نے بھی ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے پاکستان کے مزاح اور گھٹیا قسم کے جملے کسنے والوں میں انٹری دی ہے۔

قاری مدنی کی ایک ٹیلیفونک گفتگو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے جس میں وہ اپنے کسی چاہنے والے کو یہی اسرار کررہے ہیں کہ اب ان کا اسلامی جلسے میں خطاب کرنے کا ریٹ 15000 روپے سے بڑھ کر 25000 ہو گیا ہے، اور پرانا ریٹ آپ کو زیادہ لگ رہا ہے تو وہ کسی اور مولانا سے رابطہ کریں۔ یعنی یہ مولانا صاحب کچھ ہی عرصہ قبل اپنی بھانڈ پن کے خطاب اور اسی طرح کے جلسوں سے کمائی ہوئی دولت سے سائیکل ، آلٹو گاڑی سے ترقی کر کے لینڈکروزر گاڑی تک پہنچ چکے ہیں۔

سوشل میڈیا پر لوگ ان کی گفتگو کو اسی طرح ہی سنتے اور دیکھتے ہیں جیسے کوئی سٹیج ڈرامہ دیکھا جاتا ہے۔ مولانا صاحب کے کئی ویڈیو اور آڈیو کلپ تمام سوشل میڈیا کی سائیڈز پر دیکھے اور سنے جا سکتے ہیں۔ان تمام کلپس میں مجال ہے کہ کہیں اللہ و رسول یا قرآن و حدیث پر بات کی ہو، اور اگر کہیں کوئی قرآن و حدیث کا حوالہ دینا بھی پڑ جائے تو اپنے حلق کے اندر سے جھٹکا دے کر اور ایک مخصوص راگ الاپتے ہوئے بیان کرتے نظر آتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ اپنے آپ کو اچھا گلوکار ثابت کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔

اور ان کے سامنے بیٹھی ہماری بھولی بھالی عوام اسلامی تعلیمات کا درس کم اور ان کی باتوں اور حرکات و سکنات کا مزہ زیادہ لینے جاتی ہے،اور اگر چند لفظی جملے میں مولانا صاحب کے بارے میں بیان کیا جائے تو مدنی صاحب عالم دین کم اور انٹرٹینر مولوی زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔
گزشتہ دور میں کراچی پاکستان کا وہ شہر تھا جہاں دور دور سے لوگ بتیاں دیکھنے آتے تھے اسی وجہ سے اس کو '' روشنیوں کے شہر'' کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔

دو سوا دو کروڑ آبادی کے اس شہر کو ایسی نظر لگی کہ اب اس کثیرآبادی والے شہر میں ہر طرف کوڑے کرکٹ اور بدبو کے ڈھیر ہیں، پینے کے صاف پانی کی کمی اور متعدد دوسرے مسائل اس شہر کا مقدر بن چکی ہے، ناجائز تجاوزات سے بھرپور قبضہ مافیا کا راج دکھائی دیتا ہے۔ اسی مافیا نے شہر کے مختلف علاقوں میں بچوں کے پارک اور علاقے کے قبرستانوں کو بھی نہیں چھوڑا، جہاں اس مافیا نے ناجائز تعمیرات کر رکھی ہیں۔

کئی ایک قبرستانوں کے مین گیٹ پر تو بورڈ آویزں نظر آتے ہیں کہ جگہ کی کمی کے باعث یہاں مردے دفنانے کی گنجائش باقی نہیں۔ لاقانونیت اور کرپشن کا جن پوری طرح سے بوتل سے باہر آیا ہوا ہے، دن دیہاڑے سرعام موبائل کی ڈکیتی روز کا معمول بن چکی ہیں، ایسی ہی وارداتوں کی وجہ سے عوام میں موجود غم وغصہ اور انتقام کا مادہ اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ اب کوئی سرعام ڈکیتی یا فون چھیننے کیلئے آنے والا ڈاکو پکڑا جائے،اور عوام کے ہاتھ لگ جائے تو عوام اسے اسی جگہ زندہ جلا کر جان سے ہی مار دیتی ہے۔

کسی بھی سرکاری و غیرسرکاری دفاتر میں کوئی شخص اپنا جائز کام بھی بغیر رشوت کے ادا کئے نہیں کروا سکتا۔ حالانکہ اگر دیکھا جائے صرف یہی ایک شہر پاکستانی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ حکومت سندھ کا 95 فیصد بجٹ ٹیکس صرف کراچی سے حاصل ہوتا ہے، اور اگر اس بجٹ کو استعمال کرنے کی بات کی جائے تو نتیجہ 0 فیصد ہے، اور قومی بجٹ یعنی پورے پاکستان کا 55 فیصد بجٹ کراچی والے ٹیکس کی صورت میں دیتے ہیں۔

پاکستان میں خدانخواستہ کبھی کوئی قدرتی آفات نازل ہوں تو کراچی کے عوام کی مدد چندہ کی صورت میں پورے پاکستان کے عوام سے زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن سندھی عوام جو کراچی کے علاوہ سندھ کے مختلف حصوں میں آباد ہیں کی حالت ایسی ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ وہ پتھر کے دور میں رہتے ہیں، ''چراغ تلے اندھیرے والی بات'' ۔ لاڑکانہ، سکھر، حیدرآباد اور تھر کے عوام تو ابھی تک پینے کے صاف پانی سے بھی محروم ہیں۔

بجلی گیس کی سہولت سے تو سندھ کے کئی علاقے آشنا ہی نہیں، کیونکہ وہاں آباد بیشتر ناخواندہ غریب عوام کا یہی ایمان ہے کہ '' زندہ ہے بھٹو زندہ ہے'' ۔ کیونکہ موجودہ اور سابق حکمرانوں سے تو کوئی امید نہیں کہ وہ ان غریب عوام کی حالت بدلنے میں سنجیدہ ہیں۔ ابھی گزشتہ عید الاضحٰی کے بعد وہاں ہونیوالی بارش نے پھر وہی کیا جو پچھلے سال ہوا تھا اور اگلے سال بھی ایسا ہی ہو گا، یعنی سمندر خود کراچی والوں سے ملنے کراچی کی سڑکوں اور گلیوں میں آ گیا تھا۔

جس کے بعد عید قربان کی تمام گندگی پورے کراچی میں پھیل گئی اور اس کے نتیجے میں اٹھنے والے تعفن سے اس علاقے میں رہنے والے لوگوں کی زندگی مفلوج ہو گئی۔ اب کیونکہ برسات شروع ہو چکی ہے اس بارش کے پانی کے نکاس کیلئے قائم برساتی نالوں میں جگہ جگہ پلاسٹک شاپرز کی وجہ سے سیوریج میں رکاوٹ اور اس کے باعث وہی برساتی اور سیوریج کے نالوں نے بھی ابلنا شروع کر دیا ہے۔

اور یہ سلسلہ برسات بھر میں رہے گا کیونکہ ہر دوسرے روز ہونیوالی بارش کے پانی کو کہیں تو اکٹھا ہونا ہے اور گزرنے کا راستہ بنانا ہے۔ یہ پانی اکٹھا ہونا اور اپنے گزرنے کا راستہ بنانے کا عمل صرف کراچی سندھ تک محدود نہیں رہا یہ تو پاکستان بھر کے تمام بڑے شہروں لاہور اور اس کے بعد اسلام آباد جیسے ماڈرن شہروں میں تباہی پھیلا رہا ہے۔ لیکن جن محکموں) واسا ( کا یہ کام ہے وہ خواب خرگوشاں میں مست ہیں، مجال ہے کہ وہ اس موسم کے شروع ہونے سے قبل ہی ایسے اقدامات اٹھائیں، جن پر عمل کرتے ہوئے وہ برساتی نالوں اور سیوریج کے اخراج کیلئے ضروری اقدامات کریں جن سے اس پانی کا جلد از جلد اخراج ہواور اردگرد میں بسنے والے پاکستانی شہریوں کو تکلیف نہ ہو۔

لیکن عین اس بارشی آفت کے آنے پر انہیں ہوش آتا ہے لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ جب تک متعلقہ محکموں کو ہوش آتا ہے تو بارش کا سونامی اپنا کام تمام کر کے جا چکا ہوتا ہے۔ اور اس کے متعلق تو سب جانتے ہیں کہ کھڑے پانی سے اٹھنے والی بدبو، تعفن اور اس پانی میں پیدا ہونیوالے بیکٹریا کے باعث اس علاقے میں پھیلنے والی بیماریوں میں معصوم اور مظلوم پاکستانی عوام خصوصاً بچوں کی صحت کا بیڑا غرق ہو جاتا ہے۔اس ساری تکالیف سے ناجاجانے ہماری پاکستانی عوام کو کب نجات ملے گی،اس کاعلم صرف اللہ تعالٰی کو ہی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :