خلیل صاحب فاختے والے!

جمعہ 24 جنوری 2020

Syed Alam Shah

سید عالم شاہ

آفس میں لنچ  آر میں اکثر ہم کلیگ  دنیا بھر کے موضوعات پر تبادلہ خیال کیا  کرتے ہیں   ۔اس دن بھی ہم کسی موضوع پر اپنی اپنی ماہرانہ رائے دے ہی رہے تھے کہ ہمارا ایک ساتھی  اچانک نمودار ہو کر بڑی سنجیدگی  سے ایک ڈرامے کے بارے میں ہم سے  سوال کرنے لگا کہ یار کیا تم لوگ بھی فلاں ڈرامہ دیکھتے ہو؟ اس نے جس ڈرامہ کا نام لیا تھا اس  ڈرامے کو میں  نے چلتے پھرتے ونڈو شاپنگ کی  طرح صرف  ونڈو  واچنگ ہی کیا تھا ۔

ویسے بھی میں زیادہ ڈرامے دیکھنے کا قائل نہیں، کیونکہ میرے مطابق زیادہ ڈرامے دیکھنے والا ڈرامے بازیاں کرنے لگ جاتا ہے!
خیر،  اس ساتھی نے جس سنجیدگی سے اس ڈرامے کی کہانی سے مطلق ہمیں بتانا شروع کیا تو میرے دل میں بھی اسے دیکھنے کا شوق پیدا ہونے لگا  ۔

(جاری ہے)

کیوں کہ اس ڈرامے میں ہیرو کو بے وفا دکھانے کی بجائے ہیروئن کو ہی بے وفا دکھایا گیا ہے۔

لہٰذا  مرد ہونے کے ناتے  اس ہیرو سے  اظہار ِ ہمدردی کے لئے میں نے بھی اس ڈرامہ کو دیکھنے کا  دل میں ٹھان لیا۔  
جب میں نے  اپنے فرینڈ کے کہنے پرہفتہ کی شب  آٹھ بجے اپنے تمام کاموں کو معطل کرکے ڈرامہ دیکھنا شروع کیا تو مجھے پہلی بار یہ علم ہواکہ میری بیوی کا سب سے چھوٹا بیٹا  وہاج ، ڈرامے کے وقت  کس قدر ڈرامے بازیاں  کرتا ہے۔ رموٹ کا تو وہ خاصہ دشمن ہےہی  جب ہم آواز تیز کرنے کے لئے رموٹ اٹھاتے وہ ہم سے فوراً چھین کر چینل ہی تبدیل کردیتا ، اسے کبھی  بھوک ستانے لگتی تو کبھی وہ چیزیں اٹھا اٹھا کر پھینکنے لگ جاتا   ، کبھی تو وہ ہمارے چہرے دیکھ دیکھ کر حیران ہوتا کہ ہم کیوں اتنی خاموشی سے مہوش کی بے وفائی کے تماشائی بن رہے ہیں!۔

اسی کش مکش میں ہم نے گرتے پڑتے ڈرامہ مکمل کیا ۔
ڈرامہ تو جیسے تیسے ہم نے مکمل کر ہی لیا، لیکن ڈرامہ دیکھنے کے بعد مجھے بھی میرے دیگر کلیگ کی طرح ہیرو پر ترس آنا شروع ہوگیا۔ میری یہ ہمیشہ سے بری عادت رہی ہے کہ میں جس چیز میں انٹرسٹ لیتا ہوں اس پر ریسرچ شروع کردیتا ہوں ۔ لہٰذا عین اسی بری  عادت کے مطابق اس ڈرامے پر بھی میں نے  ریسرچ شروع کردی کہ اس ڈرامے کو تحریر کرنے والا کن خیالات کا مالک ہے،  اس کا ڈائریکٹر ، پروڈیوسرسمیت اسکی پوری کاسٹ کے بارے میں معلومات حاصل کرنا شرو ع کردی۔

اسی دوران مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ  ڈرامے کی کہانی کے مصنف کو سوشل اور الکٹرانک میڈیا پر مسلسل  کس قدر تنقید کا سامنا  ہے۔  کوئی انہیں زن مخالف کہہ رہا ہے تو کوئی انہیں عورتوں کا ازلی  دشمن، کسی نے کچھ کہا ، تو کسی نے کچھ ۔
لیکن مجھے سب سے زیادہ گدگدی طاہرہ عبداللہ صاحبہ کی بات پر آئی  جو ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی ریپریزنٹیٹیو ہیں اور جو پاکستان میں  عورتوں کے حقوق کی بحالی کی علم بردار بھی ہیں ۔

انہوں نے ایک ٹی وی شو کے دوران خلیل الرحمان قمر پر اس قدر شدید لفظی گولہ باری کی کہ مصنف موصوف کے تو چودہ طبق روشن ہوگئے!۔۔۔اور مجھے  ڈرامے کے ہیرو سے زیادہ ان پر ترس آنے لگا۔ ایسا شاید  بہت ہی کم ہوتا ہے کہ کسی ڈرامے کے ولن کی بجائے اسکے رائیٹر کو لوگ برا بھلا کہ رہے ہوں۔!
میرے خیال میں لوگوں نے شاید اس بات کو نوٹ نہیں کیا ہے کہ ڈرامہ میرے پاس تم ہو کے مصنف خلیل صاحب نے  کہانی میں صرف ایک عورت (مہوش)  کو بے وفا دکھایا ہے جبکہ اسکے ساتھ ساتھ دو  مردوں ( شہوار احمد   اور  متین صاحب ) کو بھی تو بے وفا مردوں کے طور پر پیش کیا  ہے۔

کیا  یہ مردوں کے ساتھ زیادتی نہیں ہے اور بقول سہیل وڑائچ کے ، کیا یہ کھلا تضاد نہیں!!!۔۔۔۔
 میرا یہ زاتی خیال ہے (جسے میں بہت ہی ڈر ڈر کر پیش کررہا ہوں کہ کہیں طاہرہ عبداللہ صاحبہ خلیل صاحب کی طرح میرا بھی کچومر نہ نکال دیں!) کہ  جس طرح ہمارے معاشرے میں عورت مردوں کا نشانہ بن رہی ہے اسی طرح ۔۔۔بلکہ کسی اور طرح سےبھی ،  مرد بھی عورتوں  کی زیادتی کا نشانہ بن رہا ہے(خلیل صاحب کی طرح!)
اسکے ساتھ ساتھ  طاہرہ عبداللہ صاحبہ سے گزارش ہے کہ وہ ڈرامے  کے مصنف کو معاف فرما دیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ خلیل الرحمان قمر صاحب  ڈراموں  کے کہانی تحریر کرنے سے ہی توبہ نہ کرلیں اور ہم  یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں کہ
یہ وہ  دَور نہیں،   جب خلیل صاحب  فاختے اڑایا کرتے تھے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :