کشمیرکشمیر!

منگل 21 جنوری 2020

Syed Alam Shah

سید عالم شاہ

میں ایک کالم نگار  کا  کالم پڑھ رہا تھا جس میں انہوں نے  اومان کے بادشاہ سلطان قابوس کی   شخصیت  اور انکی سیاسی بصیرت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ کس طرح سلطان نے اپنے ملک کا اقتدار سنبھال کر اسکی کی معیشت کو درست سمت میں لگایا۔ سلطان کی خارجہ پالیسی کی ایک خوبی یہ بھی  انہوں نے تحریر کی تھی کہ وہ  کوئلے کی دلالی میں ہاتھ کالا کرنےکے قائل نہیں  تھے،    یعنی وہ خطے میں موجود کسی دوسرے ملک کی جنگ کو اپنی جنگ سمجھ کر کبھی اسکا حصہ نہیں بنتے تھے ۔


مجھے یہ سب پڑھ کر  بے ساختہ  ہمارے ڈیئر وزیرِاعظم یاد آگئے،  جن کی بہت سی پالیسیوں سے آپ کی طرح مجھے بھی  یقیناً اختلاف ہے لیکن انکی ایک پالیسی ایسی بھی  ہے جس سے آپ بھی شاید اختلاف نہ کر سکیں گے۔

(جاری ہے)

اور اس پالیسی کا  وہ  وزیر اعظم بننے سے پہلے سے ہی  پرچار کرتے رہے ہیں۔ اور وہ  یہ ہےکہ  ہمیں  اپنے ہی ناراض  لوگوں سے(سوائے کرپٹ لوگوں کے) لڑنا  نہیں چاہئے بلکہ مذاکرات سے کام لینا چاہئے اور دوسروں کی جنگ میں پڑ کر ہمیں اپنے ملک کے امن کو دائو پر نہیں لگانا چاہئے۔

جس کا  عملی مظاہرہ بھی حکومت میں آنے کے بعد انہوں نےکیا ہے ۔انہوں نے شروع سے ہی یہ پالیسی اپنا کر  نا صرف  اندرون ِملک  مذاکرات کے دروازے کھولے بلکہ رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمارے بہتر سالہ بزرگ دشمن،    بھارت  سے بھی  مذاکرات  کے لئے ہاتھ بڑھائے ۔ اگر اندرونِ ملک  بغاوت اور ناراضگی کو کم کرنے کی کوششوں کا جائزہ لیا جائے تو  اس حکومت نے بلوچستان کے ناراض بلوچ ہوں یا فاٹا کے غیور عوام   یا چاہے شہروں میں موجود سیاسی جماعتیں جن کا ما ضی میں شدت پسندی کی طرف خاصہ رجھان رہا ہے ،انہیں ایک بار  سنبھلنے اور سیاسی دھارے میں لانے کی کوشش ضرور کی ہے۔


اب رہا سوال پرائی جنگ کا ، تو حالیہ دنوں میں ایران امریکہ کشیدگی ہو  یا  ماضی قریب میں ایران  سعودیہ سیاسی اختلافات ہوں  یا امریکہ افغان معاملہ ۔ان تمام معاملات میں ہماری موجودہ حکومت نے کسی ایک فریق کا ساتھ دینے کی بجائے ثالث کا کردار نبھایا  (اس میں ہم کامیاب ہو بھی پائے ہیں یا نہیں یہ الگ بات ہے!)
مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں وزیر اعظم کی کاوشیں اپنی جگہ، لیکن ان تمام باتوں کے باوجود نا جانے کیوں میرے دل کے نہاں خانے سے ایک بہت ہی مدہم مگر مسلسل آواز  اٹھتی ہے اور وہ مسلسل یہ کہتی ہے کہ کشمیر کے سلسلے میں آپ نے جتنی  بھی کوششیں کی ہیں  وہ ادھوری ہیں ۔

اس کے ساتھ ساتھ دل بار بار یہ کہتا ہے کہ بھارت ہماری امن کی کوششوں کو محض بزدلی سمجھ رہا ہے۔جب میں روز پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا میں کشمیر  میں انسانیت پر ظلم دیکھتا ہوں تو   مجھ جیسا  سنگ دل  شخص بھی اشک بار ہو جاتا ہے اور مجھے اپنی کمزور حکومت پر  شرم آنے لگتی ہے اور ان نہتے کشمیریوں کے لئے  دل سے  دعائیں نکلتی ہیں کہ اے پروردگار اگر انہیں  عزت کے ساتھ زندہ رہنے کا حق نہیں تو عزت والی موت تو عطا فرما۔

۔۔۔
 مسئلہ کشمیر دن گزرنے کے ساتھ ساتھ بھارت کے لیے ایک ضد کی حیثیت اختیار کرتا جا رہا ہے  ۔اس  خطے میں بھارت وہی کچھ کر رہا ہے جو اسرائیل نے کبھی فلسطین میں کیا تھا۔ہم نے اقوامِ متحدہ کا بھی دروازہ بارہا کھٹکٹایا   لیکن اندر سے جو بھی شخص نکلتا ہے وہ ہمیں روایتی دلاسوں کے سوا کچھ نہیں دیتا ہے۔ہم نے   پرنٹ ،الکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا میں دنیا بھر کو بھارت کا مکروہ چہرہ دکھایا لیکن  نتیجہ بے اثر رہا ۔


میں نہیں کہتا ہے پاکستان کو اپنے ٹینک اور توپوں کا رخ بھارت کی طرف کرکے انہیں دھمکی دینی چاہئے کہ اگر تم مقبوضہ کشمیر سے نہ نکلے تو  تمہیں دنیا سے ہی نکال دیا جائے گا۔۔۔  نہیں نہیں ایسا نہیں ہے۔ابھی ہمیں پاکستان میں اصلاحات کی ضرورت ہے جنگ کی نہیں اورکشمیر کو بچانے کے لئے اٹھائیس کروڑ عوام کی زندگیوں کو دائو پر لگانا عقل مندی نہیں  ۔

لیکن ہم اپنے کشمیری مائوں بہنوں  کو اس طرح بے آبرو  ہوتے دیکھ بھی تو نہیں سکتے ہیں نا۔
میرے خیال میں دشمن کو زیر کرنے کا سب سے کارگر طریقہ یہ کہ کہ اسکی معیشت پر کاری ضرب لگائی جائے۔ حکومت نے اس سلسلے میں  بھارت سے تجارت پر پابندی تو لگائی ہے ، لیکن   اس سے بڑھ کر بھی کچھ کر نے کی ضرورت ہے ہمیں چاہئے کہ ہم جو بھی  استعمال کی اشیا   بھارت سے درامد یا برامد کرتے ہیں ، چاہے وہ  خام مال  ہو  یا مکمل تیار شدہ مال،  ان  پر مکمل پابندی عائد کریں اور ان اشیا کو کسی دوسرے دوست ممالک سے خریدیں اور فروخت کریں اور یہ پابندی اس وقت تک لگی رہنے دیں جب تک بھارت کشمیر میں اپنی جارحیت بند نہ کردے۔

  اسکے ساتھ ساتھ وہ ممالک جو بھارت سے اشیا   درامد و برامد کرتے ہیں ان سے  تعلقا ت میں بہتری لاکر ان پر سیاسی اور اخلاقی  دبائو بڑھا کر ان ممالک کو بھارت سے ٹریڈ کے معاملےمیں محتاط رہنےپر زور دیں۔ظاہر ہے ان اقدام کے لئے  زبردست خارجہ پالیسی اور ایسے ایکسپرٹس کی ضرورت ہوگی  جو ہماری  ٹریڈ اور دیگر پالیسیوں پر نظر ثانی کریں اور انہیں از سرِ نو   ترتیب دیں اور یہ کام بیدار زہن  والے شاہین ہی انجام دےسکتے ہیں جنہیں پلٹ کر جھپٹنا آتا ہو۔۔۔  نہ کہ ٹِک ٹاک  حکومت۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :