الطاف حسین سنو ۔۔۔ ! میں تمہیں تاریخ کا چہرہ مسخ کرنے تو نہیں دوں گا

منگل 18 اگست 2015

Syed Arif Mustafa

سید عارف مصطفیٰ

لیجیئے الطاف حسین کے 2 اگست کو کیئے جانے والے تازہ ترین خطاب پہ فرض کفایہ ادا کرنے کا موقع آگیا ،،، میں انکے اس خطاب کو بیہودہ نہیں کہوں گا کہ کیونکہ یہ تو اس سے کہیں آگے کی کوئی چیز تھی ۔۔۔ اب عرصہ دراز سے یوں ہے کہ وہ کبھی نارمل خطاب کر بیٹھیں تو انکی طبیعت ابنارمل سمھجی جانے لگتی ہے ۔۔۔ تقریر کے نام پہ انکے اس غیر معمولی فاسد مواد کی نکاسی پہ میرا یہ مضمون دراصل فرض کفایہ ہے ان تمام لوگوں کی جانب سے کہ جنہیں ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجر یا انکی اولادیں کہا جاتا ہے ،،، اور چونکہ میں ایک ایسے ہی گھرانے کا فرزند ہوں لہٰذا یہ کام مجھ جیسے ہی کسی کو کرنا تھا ورنہ کوئی 'مقامی' کرتا تو اسکی ہر دلیل میں تعصب تلاش کرلیا جاتا ۔

۔۔ یہ جواب دینا اس لیئے بھی ضروری ہے کہ الطاف حسین نے اپنی تازہ ہرزہ سرائی میں ہمارے تاریخی دشمن بھارت کو یہ طعنہ دیا ہے کہ وہ ڈرپوک ہے ورنہ پاکستان میں مہاجروں کا خون نہ بہنے دیتا کہ یہ اسی کی سرزمین کے بیٹے ہیں ۔

(جاری ہے)

۔۔۔ یہ کہتے ہوئے وہ یہ بھول گئے کہ ہندوستان سے ہجرت کرنے والوں نے نظریاتی بندھنوں کو زمینی رشتوں پہ فوقیت دینے ہی کی وجہ سے اپنے گھربار اور آباؤ اجداد کی قبریں وہاں چھوڑ کر پاکستان چلے آنے کو ترجیح دی تھی اور یوں بھارت ماتا کو ٹھوکر ماردینے کے عمل ہی نے انہیں وہ مقام بخشا ہے کہ وہ پاکستان کے سب سے بڑے نظریاتی شہری سمجھے جاتے ہیں اور اسی سبب بھٹکے ہوئے علاقائی قوم پرست سب سے پہلے انہی پہ اپنی باڑھ مارتے ہیں
میرا یہ مضمون سراسر تاریخی پہلوؤں سے متعلق ہے اور آغاز ہی میں موصوف کو یہ یاد دلانا بہت ضروری ہے کہ 14 اگست 1947 کو پاکستان بننے سے پہلے موجودہ پاکستانی علاقے بھی ہزاروں سال سے بھارت کا ہی حصہ تھے لہٰذا اس اعتبار سے توپورے پاکستان کے باشندے بھی اسی ہندوستان کی سرزمین کے بیٹے ہی ہوئے تو پھر 1948 1965 اور 1971 میں اسی بھارت ماتا سرکار نے اپنے ان پرانے بیٹوں پہ آگ اور بارود کی بارشیں کیوں برسائی تھیں ،،، اور اسکے انہی بیٹوں نے جن میں 'مہاجر' بیٹے بھی شامل تھے یکجان ہوکر اس بھارت ماتا کی اسکی اس ننگی جارحیت کا منہ توڑ جواب کیوں دیا تھا ،،، اس سوال کا جواب 22 دسمبر 1939 کے اس دن کو یاد کیئے بغیر نہیں سمجھا جاسکتا کہ جسے برصغیر کی تاریخ میں یوم نجات کے نام سے جانا جاتا ہے کہ جو قائداعظم محمد علی جناح کی اپیل پر سارے ہندوستان کے مسلمانوں نے منایا تھا کیونکہ اس روز کانگریس اور ہندو مہاسبھا کے اس 2 سالہ اقتدار کا خاتمہ ہوا تھا کہ جو 1937 کے صوبائی انتخابات میں سات صوبوں میں برسراقتدار آئی تھی اور جسنے مرکز میں برطانوی راج کی موجودگی کے باوجود صرف 2 ہی برسوں میں ان صوبوں میں اپنی دھرتی کے ان دوسرے بیٹوں یعنی مسلمانوں کا جینا بری طرح سے حرام کردیا تھا ،،، 2 برس کے اس مختصر دور میں بھی کسقدر مسلمان اغواء اور ہلاک کیئے گئے ، کتنی ہی مسلم خواتین کی عصمت دری کی گئی لیکن قاتلوں کو مکمل سرکاری پشت پناہی میسررہی ، سرکاری ملازمتوں کے دروازے مسلمانوں پہ علی الاعلان بند کیئے گئے اور مسلم کش فسادات کے ذریعے خوشحال مسلمان علاقوں کو کس بری طرح اجاڑ کر رکھدیا گیا تھا ،،، ہندو توا کے فلسفے کے زیر اثر یہ سب بربریت و شقاوت اس حد تک بڑھی حتیٰ کہ مرکزی حکومت نے ایک تحقیقاتی کمیشن ' شریف کمیشن' تشکیل دیا اور خود مسلم لیگ نے اپنے طور پہ ایک تحقیقاتی کمیٹی 'پیرپور کمیٹی' بنائی تھی کہ جسکی رپورٹ نے سب حقائق سامنے لا کر کانگریسی اقتدار کا محل زمیں بوس کرڈالا تھا اور جو کہ صحیح معنوں میں مطالبہء پاکستان کی حقیقی بنیاد بنکے ابھری تھی کیونکہ کانگریس کے اس دو سالہ دور حکمرانی نے مسلمانان ہند کی آنکھیں کھول دی تھیں کہ ابھی جبکہ مرکز میں انگریز کی حکومت ہے تب ھندو توا کا جنون یہ رنگ لا رہا ہے ، پھر بعد میں جب انگریز چلے گئے تو تب کیا ہوگا،،،
یہاں یہ بھی عرض کرنا ضروری ہے کہ کانگریس کے اس دو سالہ اقتدار کے دور میں یہ ظلم و تعدی صرف مسلمانوں کے ساتھ ہی روا نہیں رکھا گیا کیونکہ ڈیڑھ سو سالہ برطانوی دوراقتدار میں تو ہزاروں مسلم کش فسادات میں مسلمانوں کو برباد کرنے کی ہرممکن کوششیں کی گئیں لیکن 1937 سے 1939 کے اس کانگریسی دور حکمرانی میں اسکا نشانہ ستم دیگر اقلیتیں بھی بنیں یہانتک کہ ہندوؤں کے نجلے طبقات یعنی اچھوتوں و ہریجنوں کے ساتھ بھی نہایت برا سلوک کیا گیا اور اسی سبب ھندوستان کے اس وقت کے سیاسی مسئلے نے ایک حیران کن کروٹ لی تھی کہ ہندؤں کے یہ پسماندہ طبقات ملکی سیاسی عمل میں کانگریس کے بجائے مسلم لیگ کے ساتھ کھڑے ہوتے نظر آنے لگ گئے تھے کہ جس سے بھارت ماتا کے برہمن ٹھیکیداروں کی نیندیں اڑ گئیں تھیں کیونکہ اچھوتوں کے ساتھ اس رفاقت کے کسی سیاسی اتحاد میں بدل جانے سے مسلمان سیاسی قیادت کو تقریباً 65 فیصد سے زائد آبادی کی حمایت میسر آجاتی اور انہیں پورا خدشہ تھا کہ محمد علی جناح ایک ایسی تقسیم کا مطالبہ کرسکتے تھے کہ جس میں برہمن اقتدار کو صرف 35 فیصد ہی بھارت ماتا ہاتھ لگنی تھی،،، اسی وجہ سے گھبرا کر ہندو سیاسی گرو اچھوتوں کو منانے پرچانے پہ اتر آئے یہانتک کہ انکے لیڈر ڈاکٹر امبیدکر کو ورغلا کر 1942 میں وہ مشہور پونا پیکٹ کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ جس سے انہیں مسلم لیگ کے ساتھ اشتراک عمل سے دور کردیا گیا اور جسے آج یہ پسماندہ طبقات ایک بہت بڑی و تاریخی غلطی قرار دیتے ہیں ، اسی طرح اسی بھارت ماتا کے ایک اور خدمتگار بیٹے ماسٹر تارا سنگھ جو کہ سکھوں کے لیڈر تھے بھی ابتدا میں مسلم لیگ سے سمجھوتہ کرنے کے قریب آگئے تھے لیکن بعد مں انہیں بھی نہرو و گاندھی نے اپنے دام فریب میں پھانس لیا تھا اور تقسیم ہند کے کئی برس بعد برہمن قیادت کا اصل روپ دیکھ چکنے پہ وہ بھی برملا اپنی غلطی تسلیم کرنے لگے تھے
الطاف حسین بھارت کو مدد کیلیئے پکار کر درحقیقت تاریخ کی طرف سے پیٹھ پھیر رہے ہیں اور اپنے آباؤ اجداد کی اس تاریخی جدوجہد کو نابود کررہے ہیں کہ جس کے تحت انہوں نے ان جن سنگھی و مہاسبھائی جنونیوں سے پیچھا چھڑانے کیلیئے قیام پاکستان کا بیڑہ اٹھایا تھا کہ جو ہزار سال ساتھ رہنے کے باوجود صرف گھروں ہی کی سطح پہ نہیں بلکہ پورے ہندوستان کے ہر ریلوے اسٹیشن کو ہندو پانی اور مسلم پانی کے نلکوں میں تقسیم کرچکے تھے اور یوں ہر چند میل کے فاصلے پہ بنے ہوئے ہر ریلوے اسٹیشن پہ ایک بھارت اور ایک پاکستان کبھی سے قائم ہوچکا تھا،،، اس جنونی سوچ کے علمبردار مدن موہن مالویہ نامی ممتاز وکیل و سیاست دان کا یہ واقعہ بہت چشم کشاء ہے کہ ایک دن جب وہ قائد اعظم کے گھر کسی پیشہ ورانہ ملاقات کی غرض سے پہنچا اور کھانے کا وقت ہونے کی وجہ سے اسے بصد اصرارکھانے کی دعوت دی گئی تو وہ فلسفہء چھوت چھات کے تحت نہ صرف انکے برتنوں میں کھانا کھانے پر آمادہ نہیں تھا بلکہ اسکےمطالبے پر الگ میز اور نئے برتن فراہم کرنے اور کھانے کے بجائے پھل پیش کیئے جانے کے باوجود وہ نابکار اس وقت تک میز پہ آنے کو تیا ر نہیں تھا کہ جبتک فرش پر سے وہ قالین بھی نہیں اٹھالیا گیا کہ جس پہ اسکی اور قائداعظم کی میزیں الگ الگ لگی ہوئیں تھیں کہ اس مغرب کے اعلیٰ تعلیمیافتہ مگر نہایت تنگ نظرو متعصب فرد کی دانست میں اس مشترکہ قالین کی وجہ سے بھی ایک مسلم کا چھوت اس برہمن کو ٹرانسفر ہوسکتا تھا،،، اسی شخص نے برصغیر کے مسلمانوں کو بھٹکے ہوئے ہندو قرار دیکر واپس ہندو مت میں لانے کیلیئے شدھی اور سنگھٹن جیسی متشدد تنظیمیں قائم کی تھیں کہ جسکے جواب آں غزل کے طور پہ مسلمانوں کو 'تبلیغ' اور 'تنظیم' جیسی جماعتیں سامنے لانی پڑیں تھیں ،،،
انگریزوں کے پونے دوسو سالہ دور حکمرانی میں ہی ہندو مسلم فسادات کا ریکارڈ رکھنے کی زحمت کی گئی تھی اور انکے اس عہد میں ہندوستان بھرمیں ایسے تقریباً سات ہزار رونما ہوئے یہ ریکارڈ بھی محض اسلیئے رکھے گئے تھے تاکہ عوام کو انکی روشنی میں یہ باور کرایا جاسکے کہ یہاں سلطنت برطانیہ کا تسلط برقرار رکھنا کس قدر ضروری ہے ورنہ یہ دونوں قومیں ایک دوسرے کو کہیں سموچا ہی نہ نگل جائیں ،،، بدقسمتی سے انگریزوں کو اسکے لیئے خود سے کچھ بھی نہیں کرنا پڑا کیونکہ ھندوؤں کی ہزار برس سے ٹھنڈیائی ہوئی مردانگی اس ایک گرما گرم ڈھارس سے بھی ابلی ابلی پڑتی تھی کہ اب 'مسلمان بھارت ورش کے حاکم نہیں رہے' لیکن انکی یہ ذہنیت قائداعظم نے بھانپ لی اور 13 سال کانگریس اور مسلم لیگ کے مشترکہ ممبر رہنے کے باوجود اور سروجنی نائیڈو سے 'ہندو مسلم اتحاد کا سفیر' جیسا اثرانگیز لقب مل جانے کے باوجود انہوں نے 1921 میں احمدآباد کے کانگریس کے عام اجلاس میں کھل کر کانگریس کی ہندو نوازی اور متعصب سوچ کو بے نقاب کردیا اور تحریک خلافت کے مسئلے پہ کانگریس کے تعاون کو مکاری قرار دیکر مسلمانان ہند کو انکے جال میں پھنسنے سے برملا روکا،،، اور مولانا شوکت علی کی جانب سے لاٹھی سے حملہ آور ہونے کی کوشش کی بھی پرواہ نہیں کی ،،،
او تاریخ سے دلچسپی رکھنے والو ،،، ذرا یاد تو کرو کہ قائداعظم نے ہندو توا کی اسی ذہنیت کو کن الفاظ میں بے نقاب کیا تھا،،، کہ جو ہمارے ویلن ہیں وہ انکے ہیرو ہیں جو انکے ہیرو ہیں وہ ہمارے ویلن ہیں ۔

۔۔ میری والدہ مرحومہ کہتی تھیں کہ انکے لیئے تو پاکستان 1947 سے کہیں پہلے ہی انکے بچپن میں ہی بن گیا تھا کہ جب واری واری جانے والے پرانے ہندو پڑوسیوں کے بچوں کے ساتھ انکے گھرکھیلتے ہوئے انہوں نے انکے گھڑے سے پانی خود نکال کر پی لیا تھا اور اسی پڑوسی چاچا جی نے انکی پیٹھ مڑتے ہی وہ گھڑا اس لیئے پھوڑ ڈالا تھا کہ 'مسلے کی لونڈیا نے گھڑے کی پوترتا نشٹ کردی تھی' تو اس پس منظر کے بعد میں اپنی اس خوبصورت آزادی کی قدر کیوں نا کروں ،،، جب میرا سری نگر گیا ہوا پاکستانی کشمیری دوست مجھے یہ بتائے کہ اسکے میزبانوں کو بقرعید پہ ذبح کرنے کیلیئے ارینج کی گئی گائے کو رات میں چوری چھپے کاٹنے کیلیئے سارا دن فلیٹ کے واش روم میں بند رکھنا پڑا تو پھر میں الطاف حسین کی جانب سے بھارت سے مدد مانگنے کو یوں کیوں نہ سمجھوں کہ جیسے کوئی حسینی لشکر کیلیئے یزیدی لشکر سے مدد مانگ رہا ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :