زگ زیک ٹیکنالوجی سے اینٹوں کے بھٹوں کی فضائی آلودگی کا انسداد

پیر 11 جنوری 2021

Syed Arif Mustafa

سید عارف مصطفیٰ

ایک عرصے سے مملکت پاکستان کو ایک ایسے دشمن کا سامنا ہے کہ جو ان دیکھا بھی نہیں ہے ، باہر سے درانداز بھی نہیں ہوا ہے یعنی قطعی مقامی ہے مگر جسکی وقفے وقفے سے ہونے والی ضرر رسانی کی زد میں تقریباً آدھے سے زیادہ وطن عزیز ہے- اور اسکے نقصانات کا اثر کسی ایک شعبے تک محدود بھی نہیں ہے ۔۔۔  بات یہاں آنے تک ہر قاری یقینناً یہ سمجھ ہی گیا ہوگا کہ ہم یہاں دھند یا اسموگ کا تذکرہ کررہے ہیں
 درحقیقت اسموگ انسانی جانوں اور معیشت دونوں ہی کے لیئے ایک بہت بڑا خطرہ ہے ۔

۔۔ جب بھی کبھی کوئی علاقہ اسکی لپیٹ میں آتا ہے وہاں تنفس اور پھیپھڑوں کے امراض میں نمایاں اضافہ ہوجاتا ہے اسکے علاوہ بینائی دھندلی ہوجانے اور حد نظر کم ہوجانے کے باعث مختلف حادثات جنم لیتے ہیں خصوصی طور پہ ٹریفک حادثات کا تناسب غیر معمولی طور پہ بہت بڑھ جاتا ہے
اس تحریر میں اسموگ یا دھند کو بہت بڑا دشمن قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ جب بھی اسکی نمو ہوتی ہے اس کی لپیٹ میں آکے شاہراہیں اور رستے بیحد پر خطر ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے ذرائع نقل و حمل صحیح طور پہ متحرک نہیں رہ پاتے جسکے باعث لیبر فورس کو اپنے کام پہ پہنچنے اور خام مال اور تیار مال کو اپنی منزل تک لےجانے میں شدید دقت کا سامنا رہتا ہے اور یوں صنعتی و زرعی امور اور تعمیراتی شعبے کی سرگرمی بری طرح متاثر ہوجاتی ہیں ۔

(جاری ہے)

۔ یہاں تعمیراتی شعبے کا حوالہ زیادہ اہمیت کا حامل اس لیئے ہے کیونکہ کنسٹرکشن کے کام کا عمومی انحصار سیمنٹ اور سریئے پہ ہے اور ان دونوں اجزاء کے کارخانے صرف چند بڑے اضلاع ہی میں واقع ہیں اور دیگر درکار اشیاء جیسے ٹائلز اور سینیٹیری کا سامان بھی دور دراز جگہوں سے ہی پہنچتا ہے  جہاں سے انکی آمد اور دستیابی کا راست تعلق ذرائع نقل و حمل کی فراہمی و سڑکوں اور رستوں کے قابل سفر ہونے سے ہے
لیکن اب یوں لگ رہا ہے کہ اس دھند یا اسموگ کے ہاتھوں پہنچنے والے نقصانات میں بہت کمی واقع ہونے جارہی ہے کیونکہ ایک بڑی خوشخبری یہ ملی ہے کہ صوبہ پنجاب کی حکومت نے اس بابت اصلاح احوال کے لئے ایک بڑا فیصلہ کن قدم اٹھالیا ہے کیونکہ ماحولیات سے متعلق ماہرین کی تحقیقی رائے سامنے آچکی ہے جس کے مطابق اسموگ بننے میں اینٹوں کے بھٹوں سے نکلنے والے بے تحاشا دھوئیں کا بھی اہم کردار ہے اس لئے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ  اینٹوں کے بھٹوں کے کام میں بہتری لا کراسموگ کی پیدائش میں خاطر خواہ کمی لائی جائے-  کیونکہ اینٹوں کا استعمال کا راست تعلق کنسٹرکشن کے شعبے سے ہےاور اس شعبے سے افرادی قؤت کا بڑا حصہ منسلک ہے اس لیئے ان بھٹوں کے معاملات کی بہتری اور بھی ضروری ہے اور اسی لیئے اب حکومتی سطح پہ ایک بڑا کام یہ ہوا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی بروئے کار لا کے 37 فیصد اینٹوں کے بھٹوں کو جدید زگ زیگ ٹیکنالوجی پہ منتقل کردیا گیا ہے - یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ زگ زگ ٹکنالوجی کے تحت بھٹوں میں اینٹوں کی جگہ زگ زگ انداز میں رکھی گئی ہے جس سے کوئلے کی کھپت کمی آتی ہے اور ہر حصے میں رکھی اینٹوں کو یکساں طور پہ گرمی فراہم کی جاسکتی ہے۔

روایتی فکسڈ چمنیوالے بھٹوں میں اینٹوں کو ایک ہی رخ پہ سیدھے انداز میں جوڑا جاتا ہے جس میں بہت زیادہ ایندھن یا کوئلہ جلانا پڑتا ہے مگر اس کے باوجود بہتر کوالٹی میسر نہیں آپاتی اور A- گریڈ کی اینٹوں کی بہت کم پیداوارحاصل ہوتی ہے
زگ زگ ٹکنالوجی کی مد میں اک اہم عنصر یہ بھی ہے ک اس سے چلنے والے بھٹوں میں اندر ایک  پنکھا بھی ہوتا ہے جو کہ ائیرکنٹرول سسٹم مہیا کرتا ہے اور کوئلہ جلانے کے عمل کو اور موثر بنا دیتا ہے اور یوں اس  ماحول دوست ٹیکنالوجی نے پرانے اینٹوں کے بھٹے سے نکلنے والے گاڑھے کالے دھوئیں کو بھی کم آلودگی والے سفید رنگ کے دھواں میں تبدیل کرنے میں مدد فراہم کی ہے۔

زگ زیک ٹیکنالوجی اپنانے کے باعث اور اس اہم حکومتی اقدام  کی وجہ سے ملک میں ماحول کی آلودگی کی صورتحال میں بھی کافی بہتری آئے گی خصوصاً صوبہ پنجاب میں کہ جوآبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے اور ملک کی نصف سے زائد آبادی کا حامل ہے اور وسیع و عریض علاقے کے لحاظ سے دوسرا سب سے بڑا صوبہ ہے اور جسے ہر موسم سرما کے آغاز ہی سے سموگ کی وجہ سے شدید ہنگامی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ملکی سطح پہ دھند سے  ہونے والی فضائی آلودگی جس انسانی الیئے کو جنم دے رہی ہے اسے اس ضمن میں ایک بین الاقوامی طبی جریدے دی لانسیٹ  کی جاب سے کی گئی ایک خصوصی تحقیق سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے جس کے مطابق  فضائی آلودگی پاکستان میں بچوں سمیت ہر سال کم وبیش 135،000 اموات کا سبب بن رہی ہے اور اس ہوا کی آلودگی نے بنیادی طور پر پھیپھڑوں اور متعلقہ اعضاء کی حساسیت میں بھی بہت اضافہ کیا ہے اور سانس کی بمایاں بڑھتی جارہی ہیں ۔

۔۔ واضح رہے کہ اگر دل کی بیماری کے مریضوں میں سانس کی بیماری طوالت پکڑلے تو یہ امر بھی انکی موت کا باعث بنتا ہے
صوبہء پنجاب میں فضائی آلودگی کی صورتحال کی گھمبیرتا سمجھنے کے لیئے یہ بتانا ہی کافی ہے کہ اس کے 36 اضلاع میں تقریبا 8،554 اینٹوں کے روایتی طور پہ تعمیر کردہ بھٹوں کا گھنا دھواں شب و روز ہوائی آلودگی کی صورتحال  بد سے بدتر بنا رہا ہے کیونکہ یہ کوئلے ، پلاسٹک ، ٹائر اور ایسے ہی دیگر خام مال کو بطور ایندھن استعمال کرتے ہیں‌- لیکن یہ نہایت خوش آئند بات ہے کہ پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (PDMA) کے ایک عہدیدار کے مطابق کہ اب 37 فیصد یعنی 3،203 اینٹوں کے بھٹوں کو کامیابی کے ساتھ زگ زگ طریقہ کار میں تبدیل کردیا گیا ہے جس میں مؤثر ماحول دوسست متبادل ایندھن استعمال کرکے بہتر معیار کی اینٹوں کی تیاری کو یقنی بنایا جاتا ہے  یہ سب وزارت موسمیاتی تبدیلی (ایم او سی سی) ، نیشنل انرجی ایفیشنسی اینڈ کنزرویشن اتھارٹی (این ای ای سی اے) نے بین الاقوامی سنٹر برائے انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈویلپمنٹ (آئی سی آئی ایم او ڈی) کے تعاون سے ہی ممکن ہوا ہے - ابتک پنجاب کے 10 اضلاع نے اپنے 50 فیصد سے زائد اینٹوں کے بھٹوں کو ماحول دوست ٹیکنالوجی میں تبدیل کردیا ہے اور باقی اضلاع میں یہ کام کسی نہ کسی درجے میں جاری ہے
یہاں ڈائریکٹر جنرل پاکستان ماحولیاتی تحفظ ایجنسی (ڈی جی پاک - ای پی اے) فرزانہ الطاف شاہ کے اس  ٹویٹ کا حوالہ بے محل نہیں کہ "اینٹوں کے بھٹوں میں تیزی سے مثبت تبدیلی سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ معیشت کے اس بڑے اور غیر تسلیم شدہ شعبے نے زگ زیک ٹیکنالوجی کے بل پہ فضائی آلودگی پر قابو پانے اور صاف ستھرا پاکستان کی طرف اقدامات کے لئے نہایت قابل قدر اور بہترین کارکردگی کا اظہار کیا ہے۔

خدا کرے کہ وطن عزیز میں اسموگ اور فضائی آلودگی پانے کی اس مہم کی جلد سے جلد تکمیل ہو تاکہ ملکی معیشت اور عوامی حفظان صحت کو لاحق اس صورتحال کا مکمل خاتمہ ہوسکے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :