تباسی عید کا کہرام

بدھ 19 مئی 2021

Syed Arif Mustafa

سید عارف مصطفیٰ

عید کا تیسرا دن کئی طرح کی پہچان رکھتا ہے جس میں سب سے قابل ذکر یہ ہے کہ یہ تباسی کہلاتا ہے کیونکہ درحقیقت یہ عید کے سوئم کا دن ہے۔۔۔  یقین نہ آئے تو بچوں  کے سوگوار چہروں کو دیکھ لیجیئے ۔۔۔  اس روز ماحول میں اک عجب رنج اور سکون سا گھلا ملا معلوم ہوتا ہے ،  ۔۔۔ رنج کا معاملہ بچوں کو درپیش ہوتا ہے کہ جنکی مزید عیدی ملنے کی آشائیں ٹمٹما گئی ہوتی ہیں اور سکون کا پہلو بڑو‌ں کے لیئے ہوتا ہے کہ جنہیں عیدی کے مزید تاوان بھرنے سے خلاصی مل جاتی ہے ۔

۔ تابش عید کے تیسرے دن کو یوم حساب قرار دیتے ہیں کہ اس روز بچے ملنے والی عیدی کا کل حساب لگاچکتے ہیں کہ جسکی روشنی میں وہ عیدی کے مطابق رشتوں کے مقام کا تعین کرکے یہ فیصلہ کرلیتے ہیں کہ آئندہ انہیں کس کی کتنی عزت اور کس قدر آؤ بھگت کرنی ہے-
 چونکہ تباسی آتے آتے ، بچے اپنی عیدی کے بڑے حصے کو دو روز ہی میں ٹھکانے لگا چکے ہوتے ہیں چنانچہ اپنا  غم بہلانے کو وہ اپنے حاشیہء خیال میں ایسے رشتے داروں کو لا رہے ہوتے ہیں کہ جنکے نا آنے سے یا وہاں خود انکے نہ پہنچنے سے انہیں عیدی کی مد میں نقد نقصان ہوا ہے-  اور جہاں اب بھی اگر ممکن ہو تو وہ ابا کے ساتھ ترنت جا دھمکیں ۔

(جاری ہے)

۔۔۔ اس روز بچے اپنے گھر کے بڑوں کی طرف مطلق دھیان نہیں دیتے کیونکہ انہیں ان سے اس روز مزید عیدی ملنے کی بھلائی کی توقعات ہی اٹھ گئی سی ہوتی ہیں -۔۔۔ البتہ وہ  نئے مہمانوں کی آمد پہ لپک کے دروازہ کھولنا بھی نہیں بھولتے ، ہر بچے کا ایسا پرجوش خیرمقدم یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ابھی عیدی گانٹھنے کے امکانات سے مکمل طور پہ مایوس نہیں ہوا ۔۔

۔ بچوں‌ کے دل سے پوچھیں توعید ہر مہینہ کم ازکم ایک دن ضرور آنی چاہیئے ۔۔۔
بڑوں کے لیئے عید کا تیسرا دن یوم احتساب ہے کیونکہ اس روز وہ عیدی دینے کے نقصانات کا حساب کتاب کرتے ہیں کیونکہ عید کے پہلے دو دن  وہ ایام واردات ہیں کہ جب سارا سارا دن انکی جیبوں پہ عیدی کے نام پہ ' ڈاکہ بالرضا' کی مشق ستم جاری رہتی ہے اور انہیں ایک نہیں کئی کئی بار،  اورایسے ایسے خبیثوں کو بھی بتیسی نکال کے عیدی دینی پڑتی ہے کہ عام دنوں میں جنکی بتیسی نکال دینے کے لیئے انکا دل بیقرار رہتا ہے
 تباسی عید کے دن کی خاص الخاص بات یہ ہے کہ یہ دراصل ایسے محتاط رشتہ داروں اور ڈیڑھ ہوشیار احباب کی باہم ملاقات کا ہوتا ہے کہ جنہیں عیدی دینے کے نام سے ہی  پت اچھل جاتی ہے اور اس روز وہ عیدی دینے کے نقصان سے صاف بچ پاتے ہیں  ۔

۔۔ سمجھا جائے تو تباسی عید کا دن کسی حد تک یوم سزا بھی ہے کیونکہ اس روز کے آنے تک کئی مہان ندیدے لوگ اپنے کیئے کی سزا بھگتنا شروع کرچکے ہوتے ہیں اور جن جن لوگوں کے دسترخوان پہ انہوں نے تباہی و 'انّی' مچائی ہوتی ہے انکی مستجاب بددعاؤں کے طفیل ، تباسی کے روز بوقت مصافحہ انکا ایک ہاتھ معدے پہ پڑے رکھنے کے لیئے ریزرو رہتا ہے اور وہ دوران گفتگو ہردو تین باتوں  کے بیچ کم ازکم ایک بار ضرور کراہتے سنے جاتے ہیں ، اس روز وہ سارا ہی دن ڈاکٹروں کے کلینک کے اندر یا عموماً گھر کے " بیت الخلاء"  کے آس پاس ہی رکھے پڑے ملتے ہیں اور دوران گفتگو بھی انکی توجہ فوری حاجت روائی کے امکانات کی جانب ہی مرکوز رہتی ہے -
مشورتاً عرض ہے کہ اگر آپ کو تباسی کے دن کسی کے گھر جانا ہو تو آنا فاناً سام میزائل بن کے ہرگز نہ پہنچیں  بلکہ کسی کے ہاں چھ سات گھنٹے پہلے  بتا کے پہنچیں کہ یہی عین دانشمندی کا تقاضہ  ہے اور اس سے آپکے تعلقات  محفوظ و مستحکم رہ سکتے ہیں ،،، کیونکہ ایسا نہ کرنے سے آپ ان خواتین کی بددعاؤں کا نشانہ بن سکتے ہیں کہ جو کہ ابھی دوروز قبل تک تو مہ لقاء ،  پری اور اپسرا سی  دکھتی تھیں لیکن آج گھر میں 'ِِبِیچا ، لنُگاڑن اور لُقندری سی بنی پائی جاتی ہیں ، دیکھیئے میں نے چڑیل نہیں کہا ،، کیونکہ یہ کہنے نہیں سمجھنے کی بات ہے اور درحقیقت عید کے تیسرے دن کا یہ پہلو نہایت دلدوز ہے کہ یہ دن بیوٹی پارلروں میں رت جگے بھگتانے والی خواتین کے میک اپ کی ایکسپائری ڈیٹ کا بھی ہوتا ہے لہٰذا اس روزانکی میک اپ کی تہوں میں پڑتی  دراڑوں کے کئی انچ پیچھے سے اصلی چہرے جھانکتے نظر آنے لگتے ہیں  ۔

۔۔   ویسے بھی تباسی کو یہ خدشہ بھی رہتا ہے کہ آپ اس روز کسی کے گھر اچانک جا دھمکنے سےآپ صاحب خانہ کو بھی سگار کے بجائے بیڑی پیتے ہوئے ، امپورٹیڈ چاکلیٹ کے بجائے دیسی ریوڑی گٹکتے ہوئے دیکھ پا سکتے ہیں اور ایسے مہیب نظارے کی دید سےفٹافٹ ایک ایسی اندرونی بدمزگی جنم لے سکتی ہے کہ جس کے مضر اثرات آپکے رشتے اور تعلق کو برباد بھی کرسکتے ہیں کیونکہ کون باوقار شخص یہ پسند کرے گا کہ اسے  بغیر وگ یا بغیر بتیسی کے جھانک لیا جائے یا بغیر کرتا بنیان کے، وحشت میں بڑی سی برہنہ  توند کھجاتے ہوئے محض  قناتی کچھے میں دھر پکڑ لیا جائے ۔

۔۔
آخر میں آپ یہ کارگر مشورہ بھی بھی سن لیجیئے کہ گر آپ  تباسی کے دن کسی 'غیر مجبور' میزبان کے گھرمہمان بن کر جائیں تو اس سے تازہ ' شیرخورمے اور چٹپٹے چھولوں و چہکا مارتے دہی بڑوں کی توقع نہ رکھیں اسے رکھنا عبث ہے ،، گر کی بات یہ ہے کہ  اگر ماحضرسے جانی پہچانی 'باس' آئے تو نظرانداز کر یں اور اس بوسیدگی کو  قسمت کا لکھا اور اپنی ہی سستی کا خمیازہ سمجھیں ، بس احتیاطی تدبیر کے طور پہ اپنی طبیعت کی خرابی کے بہانے کو منہ پہ لٹکائے رکھیں ، میزبان مزاج شناس ہوا تو خوشدلی سے  یہ 'دیرینہ و تاریخی' ڈشیں نئے بے خبر  مہمانوں کے لیئے اٹھا رکھے گا-  ویسے زیادہ امکان یہی ہے کہ تباسی کے دن کا غیرمجبور میزبان  آپکو یا تو چائے پلانے و نمکو پروسنے ہی کو ہی کافی سمجھے گا لیکن اگر کہیں سے خاصآ مجبور بھی ہوا تب بھی وہ  تباسی کے روز تازہ بتازہ شیرخورمہ تو حاضر کرنے سے رہا، بس ڈائریکٹ صرف کھانا ہی کھلادے گا جو کہ آپ صبر کرکے کھالیں اور یہ شکوہ زبان پہ ہرگز نہ لائیں کہ مجھے "ٹینڈے بالکل پسند نہیں ہیں۔

۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :