مولانا عبدالزاق اسکندر کے جانشینوں کو یاد دہانی

منگل 6 جولائی 2021

Syed Arif Mustafa

سید عارف مصطفیٰ

میں زندگی میں جن غیر معمولی تجربات سے گزرا ہوں ، ان میں سے ایک 3 برس قبل جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کا دورہ اور اسکے مہتمم مولانا عبدالرزاق اسکندر سے ملاقات تھی جو اب سے چند روز قبل اپنے محبان کو داغ مفارقت دے گئے ۔۔۔ 16 اپریل  2018 کو ہوئی اس ملاقات کی غایت یہ تھی کہ مجھے اس تین رکنی وفد میں شامل کیا گیا تھا کہ جسے جامعہ بنوری ٹاؤن والوں‌ نےمدعو کیا تھا کہ وہ ان کے امتحانی مراکز کا دورہ کرکے نظام امتحانات کا جائزہ لے اور بہتری و اصلاح کی تجاویز دے جہاں ان دنوں مرکزی وفاق المدارس کے تحت امتحانات جاری تھے - اس تین رکنی وفد میں میرے علاوہ سرکاری اداروں میٹرک اور انٹر بورڈ کے دونوں چیئرمین حضرات بھی شامل تھے -  اس سلسلے میں ہمارے وفد نے پہلے مرحلے میں بیت المکرم مسجد واقع گلشن اقبال میں قائم امتحانی مرکز کا دورہ کیا ، پھر ہم  کو جانا تو تھا سائٹ میں مدرسہ بنوریہ کے امتحانی مرکز میں ، مگر پہلے مرحلے نے ہی اس قدر وقت لے لیا تھا کہ اسے ڈراپ کرنا پڑا اور پھر دوسرے مرحلے میں ہم بنوریہ ٹاؤن نزد گرومندر کی مرکزی امتحان گاہ پہنچے اور اس سلسلے میں روزنامہ امت کے اس وقت کے رپورٹر عظمت علی رحمانی نے انتظامی سہولت کاری کے فرائض انجام دیئے تھے--
ان دونوں جگہ پہ قائم امتحانی مراکز میں ہمارے وفد نے وہاں جاری امتحانی عمل کا بغورجائزہ لیا تھا اور وہاں کا باوقار و پرسکون ماحول اور ادنیٰ سی بھی نقل سے پاک مثالی نظم و ضبط  دیکھ کر ششدر سے رہ گئے تھے ۔

(جاری ہے)

۔۔ یہ نہیں کہ یہ سب مصنوعی اور دکھاوے کا معاملہ تھا کیونکہ ہم نے جو کمرے دیکھ لئے تھے وہاں پہ پھر بعد میں میں وفد سے چپکے سے الگ ہوکر گھوم کے اچانک دوبارہ بھی انکے سر پہ جا دھمکا تھا - میں نے اور وفد میں شامل دونوں سرکاری بورڈز کے چیئرمین حضرات نے بھی امتحان پہ مامور اساتذہ و عملے سے بھی کئی متعلقہ سوالات کئے تھے اوران سے بعد کے مراحل میں امتحانی کاپیوں کی چیکنگ کے لئے تقسیم کے فول پروف طریقہء کار اور امتحانی کاپیوں پہ نمبر دینے کے نظام سے متعلق بھی بہت سخت پڑتال کی تھی اور اس ضمن میں انکے نظام کی تفصیلات لینے کے علاوہ انکی متعلقہ شیٹس اور اندراجات کے کاغذات بھی جانچے تھے- ہمیں بتایا گیا کہ وفاق المدارس کے یہ امتحانات پورے ملک کے طول و عرض میں ہوتے ہیں اور اس بار بھی  ان میں ڈھائی لاکھ سے زائد طلباء مختلف درجوں کے امتحان دے رہے ہیں- اور اگر آپ لوگ چاہیں تو ان دیگر علاقوں کے مراکز کا بھی دورہ کرسکتے ہیںاس سارے مرحلے پہ سرکاری دامادوں یعنی میٹرک بورڈ اور انٹربورڈ کے چیئرمین کی حالت دیدنی تھی جو کہ اس درجہ عمدہ انتظام پہ  ہرقدم پہ حیرانی و تعجب سے مسلسل دوچار ہورہے تھے اورمیں بدعنوانی کا گڑھ بنے سرکاری اداروں کے ان چیئرمینوں  پہ تیزابی جملے کسنے سے خود کو بمشکل روک پارہا تھا-  
     
دورے کا آخری مرحلہ جامعہ بنوری کے انتظامی بورڈ اور اسکے سربراہ و عالی صفات مولانا عبدالرزاق اسکندر صاحب سے ملاقات کا سیشن تھا جس میں جامعہ کے انتظامی دفتر میں ایک فرشی نشست پہ ہمارا وفد اور ادارے کے اکابرین آمنے سامنے بیٹھائے گئے تھے اور دونوں کے سامنے ایک ایک مائیک بھی رکھا گیا تھا- جامعہ کے انتظامی سربراہ مولانا عبدالرزاق اسکندر علالت اور پیرانہ سالی کے باوجود وہیل چیئر پہ آکے شریک محفل ہوگئے تھے ۔

۔  اس اجلاس میں وفد کے ہم تینوں ارکان نے پہلے تو حسب توفیق ادارے کے امتحانی نظام کی ستائش و توصیف کی  اور میں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ سرکاری بورڈز کو بھی انہی خطوط پہ اپنے امتحانی نظام کو استوار کرنا چاہیئے اور اس پہ مولانا اسکندر صاحب بہت مسرور ہورہے تھے پھر میں نے اپنے باضابطہ اظہار خیال کے دوران ان سے اور انتظانمی بورڈز سے یہ کہا کہ فی الوقت یہ ملک ہارڈ ریولوشن یا جارحانہ انقلاب کی تاب نہیں رکھتا لہٰذا سوفٹ ریولوشن یا نرم انقلاب ہی اس ملک کے ابتر معاملات بہتری کا واحد آپشن ہے
سوفٹ ریوولیشن دراصل چہروں کی تبدیلی کا نہیں بلکہ فکر و نظر کا انقلاب ہے اور یہ جبھی ممکن ہے کہ جب دیندار طبقہ آگے بڑھے اور خود کو محض حفاظ یا عالم بنانے تک محدود نہ رکھئے بلکہ بیوروکریسی کا حصہ بھی بنے اور جامعہ بنوری والے انہیں  ڈپٹی کمشنرز ، ایس پی و یگر اعلیٰ سرکاری مناصب کے لئے منتخب ہونے کے قابل بھی بنوائیں جس کے لئے یہاں گریجویشن تک کی مناسب دنیاوی تعلیم کا بھی اہتمام کرکے انہیں اعلیٰ سرکاری ملازمتوں کے لیئے ہونے والے سالانہ مقابلے کےسرکاری امتحانات میں بھی شریک کروائیں تاکہ دین سے باضابطہ آگہی رکھنے والے دیندار طبقے کو بھئی ملک کے اصل حکمرانوں میں شامل ہونے کا موقع مل سکے کہ جہاں پہ اس وقت صرف بیکن ھاؤس ، سٹی اسکول اور ایچیسن ، گورڈن کالج اور اسی طرح کے مغرب زدہ اعلیٰ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل لوگوں‌ کا مکمل غلبہ ہے -  میں نے اس موقع پہ یہ بھی کہا کہ جب تک فرقہ واریت سے مبرا ہوکر دیندار طبقہ بھرپور طریقے سے بیوروکریسی میں نہیں پہنچتا اور ملک کے انتظام کی ذمہ داری میں شد و مد سے شریک نہیں ہوتا ، ہمارا ملک منہ زور بدعنوانی اور شرمناک بدانتظامی کے جال میں یونہی جکڑا رہے گا-
یہاں یہ کہنا بھی عین ضروری ہے کہ اس مقصد کے لئے نصاب میں چند اہم دنیاوی علوم کو لازمی شامل کیا جائے اور اسکے لئے رضاکار اساتذہ اور جزوی معاوضے پہ بھی اساتذہ حاصل کیئے جائیں - نیز سی ایس ایس کی خصوصی کلاسیز کا انعقاد کرایا جائے اور اس میں مفت پڑھانے کے لئے میری خدمات حاضر ہیں اور میری طرح متعدد لوگ بھی آگے بڑھیں گے- اس پہ مولانا اسکندر نے وہیں بیٹھے ادارے کے اساتذہ سے کہا کہ عارف مصطفیٰ کی ان تجاویز پہ عمل کی راہ ہموار کریں ۔

۔۔ مجھے یہاں یہ کہتے ہوئے بہت شدید افسوس ہورہا ہے کہ اس کے بعد جامع بنوری کے انتظامی بورڈ نے اس معاملے کو اٹھا کے طاق نسیاں پہ رکھ دیا اور مولانا کی مسلسل جاری علالت و نقاہت نے انہیں اس جانب پیشرفت کا موقع ہی نہیں دیا - اس ضمن میں ادارے کے انتظامی بورڈ سے منسلک اکابرین سے میری دست بستہ گزارش یہ ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور مولانا اسکندر کی اس خواہش کی تکمیل کو یقینی بنائیں کہ اچھی قوموں کا یہی وطیرہ ہے کہ وہ اپنے اسلاف کی جائز تمناؤں کی تکمیل کے لئے ہروقت بیقرار اور آمادہء عمل رہتے ہیں اور میری دانست میں عالم اسلام کے اس عبقری کی روح کو تسکین دینے کے لیئے اس سے اچھی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ انکے عزم اور وعدے کی تکمیل کردی جائے -

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :