اُداسی بال کھولے سو رہی ہے

منگل 14 اپریل 2020

Syed Muntazir

سیّد منتظِر

کافی دنوں سے ناصر کاظمی # کی غزل کا ایک مصرعہ ذہن کے گوشوں میں کہی گھوم رہا تھا لیکن عقل کے گھوڑے دوڑانے کے بعد بھی جب پورا شعر یاد نہ آیا تو آخرکاروقت نکال کرگوگل پر یہی مصرعہ لکھا توپوری غزل سامنے آگئی۔بہرحال میں غزل کے اِس ایک شعر پہ ہی اکتفا کروں گا کیونکہ یہ ہی شعر آجکل ہمارے ملک کی جیتی جاگتی تصویر ہے
ہمارے گھر کی دیواروں پر ناصر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
جدھر دیکھو اُداسی و مایوسی کے بادل دکھائی دیتے ہیں۔

ہر سوُ غم و رنج کا رقص دکھائی دیتا ہے اور سب سے ذیادہ اِس مایوسی کا شکار ، اِس ملک کے مستقبل کے معمار نو جوان دکھائی دیتے ہیں (گو کہ مایوسی کفر ہے )اور کیوں نہ ہوجو مایوسی کے اِس موسم میں کپتان سے یہ امید کر بیٹھے تھے کہ کپتان کی حکومت آتے ہی مایوسی کے بادل چھٹ جائیں گے اورہر سوُ موسمِ بہاراں نظر آئے گااور یہ امیدیں یونہی نہیں تھیں۔

(جاری ہے)

کپتان اینڈ کمپنی نے نعرے ہی اتنے بڑے لگائے تھے کہ ہماری حکومت آتے ہی محض خوشحالی نہ نہ، خو شحالی کا سیلاب نہ نہ، خو شحالی کا طوفان آئے گا۔ایک کروڑ نوکریاں ملے گی،پچاس لاکھ گھر ملے گے،اور یہی نہیں بیرون ِملک سے بھی لوگ یہاں پر نوکریاں کرنے آئے گے ،اعلان سنتے ہی بیرون ِملک میں مقیم کچھ جذباتی لوگ اپنے ویزے پھاڑ کر واپس وطن لوٹے اور کچھ یوں گویا ہوئے کہ بھئی
 'ترکِ وطن کے بعد ہی قدرے وطن ہوئی '
لیکن پھر عوام کے ووٹوں سے آئی(وہ الگ بات ہے کہ یہاں 72سالوں میں کم ہی الیکٹڈ(elected) گورنمنٹ آئی ذیادہ تر تو سلیکٹڈ (selected)گورنمنٹ ہی آئی ہیں)پی ٹی آئی نے ایسا یوٹرن مارا کہ نوکری تو ایک نہ ملی ۔

۔۔جب سوال ہوا کہ کہاں ہیں وہ ایک کروڑنوکریاں؟تو ایک وزیر (جو شاعر ہوتے تو ذیادہ بہتر ہوتا کیونکہ اُنکا بیان حقیقت کم تخیل ذیادہ ہوتا ہے)بولے کونسی نوکریاں بھائی صاحب؟"نوکریاں دینا حکومت کا کام نہیں۔ہم نے تو ایسا کوئی وعدہ ہی نہیں کیااور
'وہ وعدہ ہی کیاصنم جو وفا ہوجائے'
الٹاہم تو چارسو (400) ادارے بند کر رہے ہیں۔

نوکریاں حکومت نہیں پرائیوٹ سیکٹر دیتا ہے ۔حکومت ماحول فراہم کرتا ہے جہاں نوکریاں ہو یہ نہیں کہ ہر شخص سرکاری نوکری ڈھونڈے"۔پھر یوں ہوا کہ ایک دن لنگر خانے کھل گئے۔کسی نے کہا کہ بھئی بات تو نوکریوں کی ہوئی تھی تو پھر یہ لنگر خانے کیوں؟تو جواب آیا:عوام بہت بے صبری ہے جب تک نوکری نہیں مل رہی تو لنگر خانوں میں جائیں اور بات بجا بھی ہے۔

بھئی انسان نوکری کیوں کرتا ہے پیٹ پالنے کے لیئے توجب سوال پیٹ کی آگ بجھانے کا ہی ہے تو پھر نوکری کا رونا کیوں؟ وہ تو بعد میں پتا چلا کہ لنگر خانوں کی جگہ صرف حکومت نے مہیا کہ ہے ۔ باقی کھانے وغیرہ کا سارا بندوبست تو سیلا نی ویلفئیر والے ہی کررہے ہیں جو کہ عوام کے عطیات سے چلتا ہے۔
اور اگرحکومت کا کامحض لنگر خانے ہی کھولنا ہے تو پھر اگلے سال سیلانی، جے ڈی سی، ایدھی،چھیپا وغیرہ اور تمام مزارات کی انتظامیہ کو الیکشن میں کھڑا ہونا چاہیئے۔

کیونکہ ہمارے ملک میں اِن سے بہتر لنگر کی تقسیم کوئی نہیں کرتا۔
خدا شاہدہے کہ پی ٹی آئی گورنمنٹ نے اتنے یوٹرن مارے ہیں کہ جس نے یوٹرن بنایا ہوگا وہ بھی سوچتا ہوگا کہ اتنا تو میں نے بھی نہیں سوچا تھا۔ پتا نہیں ابھی اور کتنے یوٹرن دیکھنے باقی ہیں۔
پہلے پہل یہ ہوتا تھا کہ کوئی رونے کے لیئے کندھا مانگتا تھا تو کندھا دینے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہہ دیا کرتے تھے کہ 'پیوستہ رہ شجر سے امیدِبہار رکھ ' لیکن بھلا اب کس شجر سے امید رکھیں کہ جنگل کے رکھوالو نے جنگل کے جنگل ہی کاٹ دیئے اور شجر کواُس کے صحیح معنو ں میں دیکھے توجس شجر سے ہم امید لگا بیٹھے ہیں وہ شجر تواپنا پھل دینے سے پہلے خود کسی سے امیدلگاتا ہے تو وہ دوسروں کو کیا خاک فیضیاب کریں گا۔


 حکومت سے دست بستہ گزارش ہے کہ خدارا نوجوانوں کو نوکریاں دیں اِن کو مفت خور نہ بنائیں تاکہ وہ خود اپنے پیروں پہ کھڑے ہوسکے اور ملک کے مستقبل کو سنواریں۔
جاتے جاتے نوجوانوں سے کہ یاروں مجھے معاف کرو تمہیں دلاسہ دینے کے لیئے میرے پاس اور تو کچھ نہیں بس ناصر کاظمی #کا ایک شعر ہے کہ:
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :