عافیہ صدیقی کی رہائی کا تاج عمران خان کا منتظر

جمعرات 21 فروری 2019

Syed Sardar Ahmed Pirzada

سید سردار احمد پیرزادہ

جب سے انسانی تاریخ لکھی جارہی ہے اُس وقت سے ایک ملک کے باشندوں کا دوسرے ملکوں میں جاکر مقدمات میں پھنس جانے کا ذکر ملتا ہے۔ بعض اوقات ایسے کچھ افراد کے سرقلم ہو جاتے ہیں، کچھ جیلوں میں گل سڑ جاتے ہیں، کچھ جیل توڑکر بھاگنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور کچھ خوش قسمت مقدر کے سکندر کہلاتے ہیں جنہیں باقاعدہ رہائی مل جاتی ہے۔ اپنی نوعیت کے اِس انسانی المیے کے حوالے سے اِن قیدیوں کی سزا اور جزا کا معاملہ عموماً تین باتوں پر منحصر ہوتا ہے۔

پہلی یہ کہ قیدی کا تعلق جس ملک سے ہے وہ دنیا بھر میں کتنا اثرورسوخ رکھتا ہے یا کتنا طاقتور ہے۔ دوسری بات یہ کہ دوسرے ملک میں قید ہو جانے والے قیدی کے اپنے ملک کی حکومت اور دفترخارجہ اپنے شہری کی رہائی کے لئے کس حد تک دلچسپی لیتے ہیں اور عملی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

تیسری بات یہ کہ قیدی سے تعلق رکھنے والے ملک اور قیدی کو قید کئے جانے والے ملک دونوں کے آپس میں تعلقات کیسے ہیں۔

 
ایسے قیدیوں کے حوالے سے پاکستان کے لئے بڑی مثالوں میں سے ایک عافیہ صدیقی کی ہے۔ مندرجہ بالا تینوں نکات کے تحت پہلا یہ کہ پاکستان امریکہ کے مقابلے میں ایک کم موثر اور کم طاقتور ملک ہے۔ دوسرا یہ کہ اب تک کسی پاکستانی حکمران کی طرف سے عافیہ صدیقی کی واپسی کے لئے موثر منصوبہ بندی ظاہر نہیں ہوئی اور تیسرا یہ کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں ابھی عافیہ صدیقی کو اہمیت نہیں دی گئی۔

دوسری بڑی دردناک مثال لاہور کے شہری ذوالفقار علی کی ہے۔ وہ اپنی جوانی میں بہتر روزگار کے لئے انڈونیشیا گئے۔ کچھ عرصے بعد 2004ء میں انہیں انڈونیشیا میں اس الزام کے تحت گرفتار کیا گیا کہ اُن کے روم میٹ جس کا کوئی واسطہ بھارت سے بھی تھا کے پاس سے تین سو گرام ہیروئن برآمد ہوئی ہے۔ ذوالفقار علی کو اِس کیس میں مجرم قرار دے کر سزائے موت سنائی گئی مگر 2010ء میں انڈونیشیا کے صدر نے اِس پر ایک خصوصی کمیشن بنایا جس کے مطابق ذوالفقار علی کو مکمل بیگناہ قرار دیا گیا لیکن آٹھ برس تک اُس کی رہائی نہ ہوئی۔

 یہ جولائی 2016ء کا مہینہ تھا جب انڈونیشیا کے جیل حکام نے ذوالفقار علی کو فائرنگ سکواڈ کے سامنے لانے کا حکم دے دیا۔ تبھی اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے ہاٹ لائن پر انڈونیشیا کے صدر سے ذوالفقار علی کے لئے بات کی اور انہیں انڈونیشیا کے کمیشن کا حوالہ دیا۔ پاکستانی وزیراعظم کے فون نے ذوالفقار علی کو فائرنگ سکواڈ سے عین موقع پر بچا لیا مگر اُسے نجات پھر بھی نہ ملی کیونکہ بے گناہ ہونے کے باوجود ذوالفقار علی کی رہائی ایک قانونی معاملہ تھا۔

انڈونیشیا کے صدر جنوری 2018ء میں جب پاکستان آئے تو انسانی حقوق کی تنظیموں اور میڈیا نے اُس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو مہمان صدر کے ساتھ بیگناہ ذوالفقار علی کی رہائی کی بات کرنے کو کہا لیکن یہ بات بات ہی رہی اور وعدہ وعدہ ہی رہا کیونکہ شدید کینسر میں مبتلا انڈونیشیا کی جیل میں گلنے سڑنے والا بیگناہ ذوالفقار علی رہا ہوکر پاکستان آنے کی بجائے مئی 2018ء میں جیل کی بند سلاخوں کے اندر سے ہی گزرکر اللہ کے پاس چلا گیا۔

اُس کی اِس رہائی کے لئے نہ تو جیلر کو دروازہ کھولنا پڑا، نہ انڈونیشین قانون کو ایک بیگناہ کے لئے راستہ بنانا پڑا اور نہ ہی پاکستانی حکمرانوں کو اپنے بیگناہ شہری کو واپس لانے کے لئے کوئی محنت کرنی پڑی۔ 
ذوالفقار علی کیس کے حوالے سے دوسرے ملکوں میں قید اپنے شہریوں کی رہائی کے اوپر بتائے گئے تین اہم نکات کا جائزہ لیں تو پہلے نکتے کے تحت پاکستان انڈونیشیا سے کم موثر یا کم طاقتور نہیں ہے۔

دوسرا یہ کہ پاکستان اور انڈونیشیا کے تعلقات خراب بھی نہیں ہیں۔ بس ایک نکتہ ایسا تھا جو ذوالفقار علی کو رہا نہ کروا سکا۔ وہ پاکستانی حکمرانوں کی دلچسپی، موثر اور بھرپور عملی منصوبہ بندی کا نہ ہونا تھا۔ اگر اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف ذوالفقار علی کو فائرنگ سکواڈ کے سامنے لے جانے سے رکوا سکتے تھے تو وہ پاکستانی ایمبیسی کے ذریعے بھرپور قانونی چارہ جوئی کرکے اُسے زندہ واپس لانے کا اہتمام بھی کرسکتے تھے۔

اگر اُس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی دورے پر آئے انڈونیشیا کے صدر سے موثر درخواست کرتے تو ذوالفقار علی اپنی زندگی میں اپنے معصوم بچوں، بیوی اور ماں کو دیکھ لیتا۔ گویا پاکستانی حکمرانوں اور دفترخارجہ کی یہ لِپ سروس ذوالفقار علی کی انڈونیشیا کی جیل میں موت کا باعث بنی۔ ذوالفقار علی کے خون کا داغ جہاں انڈونیشیا کے ناقص تفتیشی عمل پر ہے وہیں اُس کی گرفتاری سے موت تک کے چودہ برس کے عرصے کے تین پاکستانی صدور اور سات وزرائے اعظم کے دامن پر بھی ہے۔

ایسے بے بس قیدیوں کی تیسری اہم مثال سعودی عرب میں قید پاکستانیوں کی ہے۔
 سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے حالیہ دورے کے موقع پر جب اہم ترین معاشی معاملات طے پارہے تھے تبھی پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے سعودی عرب کی جیلوں میں قید غریب پاکستانیوں کی رہائی کی درخواست کی۔ عموماً ایسی اہم ترین ملاقاتوں میں وزرائے اعظم اتنی معمولی باتوں کو درمیان میں نہیں لاتے۔

معمولی باتیں اس لئے لکھا کہ حکمرانوں کے نزدیک غریب مزدوروں کی خاص اہمیت نہیں ہوتی حالانکہ ایک غریب مزدور بھی اپنے گھر میں سب سے اہم ہوتا ہے۔ عمران خان کا اِس خصوصی موقع پر غریب مزدوروں کی بات کرنا ایک غیرمعمولی واقعہ تھا۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے بھی اِس پر خاص توجہ دی اور فوری طور پر 2107پاکستانیوں کو سعودی جیل خانہ جات سے رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

یہ 2107افراد نہیں بلکہ 2107خاندان ہیں جو اپنے پیاروں کے ساتھ اِس زندگی میں ملاقات کرنے سے مایوس ہو چکے تھے۔
 اِس مثال کو لے کر اوپر بتائے گئے تینوں نکات کا تجزیہ کریں توپتہ چلتا ہے کہ جو نکتہ 2107 پاکستانیوں کی رہائی کا باعث بنا وہ پاکستانی وزیراعظم عمران خان کی انسانی ہمدردی اور ذاتی دلچسپی تھا۔ یہاں ایک تجویز لکھنا ضروری ہے کہ اِس طرح کے معاملات سے مستقل اور موثر طور پر نمٹنے کے لئے حکومتی سطح پر علیحدہ سے ایک خصوصی قانونی کونسل قائم کی جائے جو دنیا بھر کے ملکوں میں قید پاکستانیوں کے لئے قانونی چارہ جوئی کرے اور اِن قیدیوں کا معاملہ انفرادی کی بجائے حکومتوں کی سطح پر نمٹایا جائے۔

عمران خان کے ایسے مزاج کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ ہوسکتا ہے عافیہ صدیقی کی رہائی کا تاج بھی وزیراعظم عمران خان کے سرپر ہی سجے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :