آئی ایم ایف اور مکھی کھاکر سوکھے کی بیماری کا علاج

پیر 27 مئی 2019

Syed Sardar Ahmed Pirzada

سید سردار احمد پیرزادہ

پرانے ناواقف دیہاتوں کی بات ہے کہ جب وہاں کوئی بچہ بہت کمزور ہوتا جسے ”سوکا“ یعنی ”سوکھے کی بیماری“ کہا جاتا تو بعض اوقات اُس کا علاج دیسی طریقے کے مطابق کیا جاتا۔ علاج کے نسخے کے مطابق بچے کو ایک مکھی کھلا دی جاتی جس کے بعد بقول اُن لوگوں کے بچہ توانا ہونا شروع ہو جاتا۔ جدید سائنسی تحقیق کے مطابق مکھی غلیظ اور مہلک بیماریوں کے جراثیم اٹھائے پھرنے والی خطرناک شے ہے اور یہ کسی طرح بھی انسانی جسم کی صحت یابی کے عمل کا حصہ نہیں بن سکتی۔

پرانے ناواقف دیہاتوں کے باشندوں کے زمانے میں واپس جاکر انہیں مکھی کے خلاف اس جدید سائنس کے نتائج سے آگاہ کرنا تو ناممکن ہے، البتہ سوکھے کی بیماری دور کرنے کے لیے مریض کو غلیظ اور بیماریاں اٹھائے پھرنے والی خطرناک مکھی کھلانے کا عملی نمونہ اب بھی پاکستان میں دیکھا جاسکتا ہے۔

(جاری ہے)

فرق صرف یہ ہے کہ پہلے اس طریقہ علاج سے کمزور انسانوں کا علاج کیا جاتا تھا، اب اِس طریقہ علاج سے کمزور معیشت کو صحت یاب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

آئی ایم ایف ایسا ادارہ ہے جو ممبر ملکوں کی کمزور معیشت کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے فنڈ ریلیز کرتا ہے۔ یہ مہربانی کرتے وقت آئی ایم ایف سخت شرائط عائد کرتا ہے جس کا بوجھ اُن ملکوں کے غریب اورمتوسط لوگوں پر پڑتا ہے۔ اُن کی قوت خرید کم ہو جاتی ہے، بچتوں کی شرح گر جاتی ہے اور وہاں کے عام لوگ بمشکل روزمرہ ضروریات ہی پوری کرپاتے ہیں۔ تاہم آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرنے والی حکومتیں آئی ایم ایف کی اِن سختیوں کو برداشت کرنا اپنی کمزور معیشت کو صحت یاب کرنے کے لیے ضروری گردانتی ہیں لیکن یہ بات حیران کن ہے کہ شاید ہی کوئی کمزور معیشت آئی ایم ایف کے سہارے مستقل طور پر مضبوط ہوئی ہو۔

یہ تو ہوسکتا ہے کہ اِس فنڈ کے ذریعے مذکورہ معیشت کی رکتی سانسیں کچھ بہتر ہو جائیں جیسے مصنوعی سانس کا آلہ لگا دینے سے ہوتا ہے لیکن آئی ایم ایف کے کندھوں پر چڑھ کر کوئی معیشت بھی ترقی یافتہ شاید نہیں کہلائی۔ اس کی جیتی جاگتی مثال خود پاکستان کی 72برس کی معیشت ہے۔ ہم مکار انٹرنیشنل سودی اداروں پر صرف یہ کہہ کر پردہ نہیں ڈال سکتے کہ پاکستان کی معیشت کو تباہ کرنے والے یہاں کے سارے سابقہ حکمران تھے۔

کیا پاکستان کے سارے کے سارے سابقہ حکمران بے ایمان، چور، ڈاکو تھے؟ اور کیا سودی انٹرنیشنل ادارے نیک پروین ہیں؟ حال ہی میں پاکستان کی موجودہ پی ٹی آئی کی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدہ کیا اُس کے عام لوگوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے یہ بات معمہ نہیں ہے۔ البتہ اِن نئے معاشی معاہدوں کے ذریعے پی ٹی آئی کی حکومت کی پالیسیوں کے تحت گزشتہ نوماہ کے دوران ڈوب جانے والی معیشت کو کچھ مزید سانسیں لینا نصیب ہو جائیں گی جس کی تازہ ترین اطلاع ایک امریکی تھنک ٹینک نے دی ہے۔

رپورٹ کے مطابق امریکی ریسرچ ادارے فیچ سلوشنز نے پیش گوئی کی ہے کہ پاکستانی حکومت نے گزشتہ ہفتے دو مشکل فیصلے کئے جس سے پاکستان کی معیشت میں بہت جلد ہی بہتری کا امکان ہے۔ ان دو فیصلوں میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 7.5فیصد کمی اور سٹیٹ بینک کا شرح سود میں 1.5فیصد اضافہ کرکے اسے 12.25فیصد کرنا شامل ہے۔ فیچ سلوشنز کے مطابق شرح سود بڑھانے سے افراط زر میں آنے والے ماہ میں استحکام آئے گا، روپے کی قدر اور درآمد شدہ سامان کی قیمتیں بھی بہتر ہوں گی اور پاکستان کی معیشت میں استحکام آئے گا۔

امریکی ادارے کی اِس خوش خبری میں پاکستان کے عام لوگوں کے لیے کتنی بدخبری شامل ہے اُس کا ذکر کرنا امریکی ادارے کے لیے غیرضروری تھا۔ کئی بیماریوں کو پھیلانے والی خطرناک مکھی کھلا کر سوکھے کی بیماری دور کرنے والے تشویش ناک طریقے کے مساوی آئی ایم ایف سے قرضے لے کر بیمار معیشت کو بہتر کرنے میں جو نئی شدید بیماریاں لگ جاتی ہیں اُن میں سے ایک مقامی ماہرین معیشت کو ملکی معیشت کے فیصلوں سے دور کردینا ہوتا ہے جوکہ آزاد ملک کی خودمختاری پر ایک سوالیہ نشان چھوڑ دیتا ہے۔

جیسا کہ دیکھا گیا کہ آئی ایم ایف کے حالیہ معاہدے کے دوران پاکستان کے چوٹی کے ماہرین معیشت کو فیصلہ سازی سے دور کردیا گیا۔ اُن کی جگہ آئی ایم ایف کے خیرخواہوں اور باقاعدہ ملازمین کو پاکستانی اداروں میں اچانک فوری ملازمت دی گئی۔ یعنی آئی ایم ایف کے ملازمین نے ہی پاکستانی معیشت کی طرف سے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کیے۔ عام سوجھ بوجھ رکھنے والا آدمی جس طرح یہ بات آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ غلیظ اور بیماریاں پھیلانے والی خطرناک مکھی انسان کو کسی طرح بھی صحت یاب نہیں کرسکتی ویسے ہی یہ بات سمجھنا بھی مشکل نہیں کہ اِن انٹرنیشنل اداروں سے فنڈ لے کر معیشت کو کیونکر پہلوان بنایا جاسکتا ہے؟ البتہ یہ بات واضح نظر آنے لگتی ہے کہ اِن قرضہ جات کے ذریعے اُن ملکوں میں امریکی اثر اور دباؤ بڑھ جاتا ہے۔

یہ بات اُن ملکوں سے زیادہ امریکہ کے لیے خوشخبری ہو سکتی ہے۔ کیا مستقبل میں ایسی کسی تجویز پر غور کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے چوٹی کے معیشت دان جنہیں انٹرنیشنل سطح پر بھی تسلیم کیا جاتا ہے اور دوسرے ممالک اُن کی معاشی ذہانت سے فائدہ اٹھاتے ہیں اُن کی ایک مستقل معاشی ایڈوائزری کونسل آئینی ترمیم کے ذریعے بنائی جائے جو کسی بھی حکومت کے آنے اور جانے سے نہ تو متاثر ہو اور نہ ہی کسی حکومت کے سیاسی عوامی فیصلوں کے دباؤ میں آئے۔

یہ مستقل معاشی ایڈوائزری کونسل پاکستان کے لیے معاشی پالیسیاں بنائے اور اُن پر عمل درآمد کا سختی سے مستقل جائزہ لیتی رہے۔ ہمارے ہاں سیکورٹی ادارے ملکی دفاع کے حوالے سے کسی قسم کا سیاسی دباؤ قبول نہیں کرتے۔ اگر مجوزہ مستقل معاشی ایڈوائزری کونسل کی تیار کردہ پالیسیوں کو بھی ہمارے سیکورٹی ادارے مذکورہ آئینی ترمیم کے ذریعے دفاعی سطح کا تحفظ فراہم کریں تو ممکن ہے کہ مستقبل میں کبھی انٹرنیشنل سودی اداروں سے پاکستانی معیشت کی جان چھوٹ جائے اور ہم بھی اپنی کمزور معیشت کا علاج غلیظ اور بیماریاں پھیلانے والی خطرناک مکھی کھاکر کرنے کی بجائے جدید معاشی اصولوں کے ذریعے کرسکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :