پاکستان میں اڑھائی ہزار سال پہلے بھی جمہوریت تھی

جمعرات 20 جون 2019

Syed Sardar Ahmed Pirzada

سید سردار احمد پیرزادہ

 اگر ہم گزرے ہوئے وقت کے پیچھے بھاگنا شروع کریں اور بھاگتے بھاگتے تھک کر نڈھال ہو جائیں تو پانچویں صدی قبل مسیح کا زمانہ سامنے آتا ہے۔ بڑے سے درخت کے نیچے آلتی پالتی مارے صدیوں پرانا انسان ”گوتم بدھ“ بیٹھا ہے۔ اچانک دور سے دھول اڑاتے گھوڑے پر ایک سوار نمودار ہوتا ہے۔ قریب آنے پر وہ نیچے اتر کر تعظیماً بدھا کے آگے جھکتا ہے اور اپنا تعارف کرواتا ہے کہ وہ وسکرا برہمن ہے اور بادشاہ مغاداجات استرو کا سفیر ہے۔

وہ اپنے بادشاہ کی خواہش ظاہر کرتا ہے کہ اُس کا بادشاہ دوسری سلطنت وجین کو فتح کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا اس سلسلے میں بدھا اپنی پیشین گوئی کریں کہ آیا اسے اس حملے میں کامیابی ہوگی؟ بدھا کچھ لمحے خاموشی اختیار کرتے ہیں اور اس کو جواب دینے کی بجائے پاس بیٹھے اپنے چہیتے چیلے انندہ سے پوچھتے ہیں ”کیا تمہیں معلوم ہے کہ وجین کے لوگ باقاعدگی کے ساتھ پبلک اسمبلی کا اجلاس بلاتے ہیں؟“ شاگرد جواب دیتا ہے ”جی ہاں آقا میں نے سنا ہے کہ وہ ایسا کرتے ہیں“۔

(جاری ہے)

بدھا نے کہا ”تو پھر سنو انندہ، جب تک وجین باقاعدگی کے ساتھ پبلک اسمبلی کا اجلاس بلاتے رہیں گے تو یہ امید رکھی جاسکتی ہے کہ وہ زوال کا شکار نہیں ہوں گے بلکہ ترقی کرتے رہیں گے اور یہ کہ جب تک وجین ایک دوسرے سے باہمی اتفاق سے ملتے ہیں، باہمی اتفاق سے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور باہمی اتفاق سے اپنے مسائل حل کرتے ہیں، اُس وقت تک جب تک امراء کی خواہش پر پہلے سے نافذالعمل قانون کو نہیں بدلتے، کوئی ایسا قانون منسوخ نہیں کرتے جو عوام کی مرضی کے مطابق ہو، اپنے بڑوں کے بنائے ہوئے قدیم اداروں کے اصولوں پر عمل کرتے ہیں“۔

بدھا آنکھیں بند کیے بولے جارہے تھے۔ ”اُس وقت تک جب تک کہ وہ بزرگوں کی عزت و تکریم کرتے رہیں گے اور ان کی مدد اور خیال رکھنے کو اپنا اعزاز جانیں گے، ان کی کہی گئی باتوں کو دھیان سے سننا اور ان پر عمل کرنا اپنا فرض سمجھیں گے، اس وقت تک جب تک ان کے قبیلے کی کوئی لڑکی ان کے پاس زبردستی روکی یا اغواء نہیں کی جاتی، اس وقت تک جب تک وہ اپنے علاقوں کی عبادت گاہوں کا احترام کرتے ہیں، اس وقت تک جب تک کہ وہ اپنے ہاں موجود دانشوروں کو مناسب مقام اور تحفظ دیں گے، بہترین وسائل مہیا کریں گے تاکہ باہر سے بھی دانشور سلطنت میں آئیں اور پہلے سے موجود دانشوروں کے ساتھ مل کر آرام سے رہیں تو یہ امید رکھی جاسکتی ہے کہ وجین کے لوگ زوال پذیر نہیں ہوں گے اور وہ ترقی کرتے رہیں گے“۔

بدھا نے آنکھیں کھولیں اور بادشاہ کے سفیر سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ”میں ایک دفعہ وسالی میں سراندادہ کے مندر میں ٹھہرا ہوا تھا۔ تب میں نے وجین کے لوگوں کو بہتری اور خوشحالی کے یہ اصول بتائے۔ جب تک وہ ان اصولوں کو پلے سے باندھے رہیں گے تو جان لوکہ انہیں فتح نہیں کیا جاسکتا“۔ یہ کہانی ارشادات بدھا کے مجموعہ ”مہا پری نِبانہ ستا“ میں موجود ہے۔

ماضی کی ان دورافتادہ گھاٹیوں سے ذرا باہر نکلیں اور واپس حال کی جانب چلیں تو تقریباً دوسو برس کا سفر طے کرنے کے بعد تیسری صدی قبل مسیح کا دروازہ کھلتا ہے۔ یہاں واحد سپرپاور یونان ہے اور سکندرِ اعظم ہندوستان میں موجود ہے۔ اس کے تاریخ دان لکھتے ہیں کہ اس خطے میں دو مشہور ریاستیں سبارکائی اور سمباسٹائی ہیں جن کی اپنی فوج ہے اور یہ باقاعدہ جمہوری ریاستیں ہیں جہاں بڑے بڑے ملکی فیصلے عوامی نمائندے کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ چندر گپت موریا کے دربار میں یونانی سفیر، معروف سیاح اور جغرافیہ دان میگس تھینیز اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ ہندوستان کے شمال مغربی حصے میں بے شمار ریاستیں موجود ہیں جن میں کاروبار سلطنت جمہوری انداز سے چلایا جاتا ہے۔ تاریخ کی اس کتاب کو فی الحال بند کرتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ پرانا انسان جو فطرت کے بہت نزدیک تھا، جمہوریت کو کتنا اپنائے ہوئے تھا۔

ذرا سوچئے کہ بدھا کی پسندیدہ جمہوری ریاستوں کا علاقہ اور سکندرِ اعظم کا مفتوحہ خطہ مؤرخین کے مطابق ہندوستان کا شمال مغربی حصہ تھا جو آج کا پاکستان ہے۔ ذرا سوچئے کہ اس خطے کے لوگ اس وقت بھی جمہوریت پر عمل کررہے تھے جب آج کی جمہوریت کے ٹارزن امریکہ اور برطانیہ کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ ذرا سوچئے کہ معاملہ کیسے گڑبڑ ہوا؟ تاریخ بتاتی ہے کہ محلاتی سازشوں اور بادشاہوں کے ہاتھوں یہاں جمہوریت آمریت میں بدلی۔

ذرا سوچئے کہ ایک شاعر نے ہندوستان کے شمال مغربی حصے کو جمہوری بنانے کا خواب اسی لیے دیکھا ہوگا کہ یہاں کا سینکڑوں برس پرانا معاشرہ بھی مزاجاً جمہوری تھا۔ ذرا سوچئے کہ ہندوستان کے شمال مغربی حصے کے اردگرد 1947ء میں سبز لکیر کھینچنے والا دبلا پتلا لیکن طاقتور وکیل جمہوریت پر کتنا یقین رکھتا تھا۔ ذرا سوچئے کہ اس دوران باہر سے تو کوئی بادشاہ نہیں آیا۔

پھر کیا ہوا؟ ذرا سوچئے کہ گزشتہ 72 برسوں میں یہاں کیا کیا نہیں ہوا؟ یہاں کے اکثر بچے پیدا ہوتے ہی حالات کے دوزخ میں جھونک دےئے جاتے ہیں اور بچپن و جوانی کی لذتیں جانے بغیر بابے ہوکر مر جاتے ہیں۔ یہاں کی بے شمار نٹ کھٹ لڑکیاں سجناں کی سجنی بنے بغیر ہی معاشی ذمہ داریاں نبھاتے نبھاتے بوڑھی عورتوں میں بدل جاتی ہیں۔ یہاں تو کوئی بادشاہ باہر سے نہیں آیا۔ پھر ایسا کیوں ہوا؟ ذرا سوچئے کہ اگر بدھا کی جمہوری ریاستیں اور سکندرِ اعظم کے مفتوحہ علاقے یہی ہیں جن کا موجودہ نام پاکستان ہے تو کیا یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ پاکستان میں اڑھائی ہزار سال پہلے بھی جمہوریت تھی؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :