پاکستانی لوگ ریلوے لائن پر نصب سگنل کی مانند ہیں!

پیر 22 جولائی 2019

Syed Sardar Ahmed Pirzada

سید سردار احمد پیرزادہ

جب لوگ تخت والوں سے بیزار ہو جاتے ہیں تو اُن سے جان چھڑانے کے روایتی طریقے ہوتے ہیں۔ اِن میں حکمرانوں کی مدتِ ملازمت ختم ہونے سے پہلے ہی عدم اعتماد کی لاٹھی سے حکمرانوں کو بھگا دینا یا مدتِ ملازمت ختم ہو جانے کے بعد نئے انتخابات میں ووٹ کے ذریعے اُن پر لعنت بھیجنا شامل ہے۔ اسے مہذب لوگ جمہوری طریقہ کہتے ہیں جبکہ مزاجاََ غیرجمہوری حکمرانوں کو جمہوریت کی عزت سے کھیلنے سے روکنے کے لیے غیرجمہوری طریقہ بھی بروئے کار لایا جاتا ہے جس میں طاقت کے سوار اچانک نمودار ہوکر حکمرانوں کو مِحلوں سے نکال کر کوٹھڑیوں تک پہنچا دیتے ہیں۔

اِس طرح تبدیلی کے بعد لوگ اپنے مسائل میں کچھ ریلیف محسوس کرتے ہیں۔ 
پاکستان کے لوگوں نے بھی نئی دنیا میں حکمرانوں کی تبدیلی کے اِن دونوں طریقوں کے اکثر مزے لیے ہیں یعنی جمہوریت کا مزا اور مارشل لاء کا کرارا مزا۔

(جاری ہے)

اِس وقت ملک میں لوگوں کے لیے لوگوں کی حکومت قائم ہے جسے اِنہی لوگوں نے 2018ء میں بڑے چاؤ سے چُنا تھا۔ آئین بھی ہے اور سب سیاسی جماعتیں اِسی کے تحت جمہوریت کی ٹرین میں اپنی اپنی سیٹیں چاہتی ہیں۔

ایسا بھی ہے کہ جن گھروں میں اکثر چولہا نہیں جلتا وہاں مسلسل میڈیا چلتا ہے جس کی بناء پر معلومات کی فراہمی اور شعور کی بڑوہت میں دن دُگنی رات چُوگنی ترقی جاری ہے۔
 تازہ حالات میں باوقار، غیرجانبدار اور بیشتر لوگوں کا اعتماد رکھنے والی عدلیہ بھی ہے جسے لوگوں نے میڈیا کی چیخ و پکار، وکیلوں کی قیادت اور سیاست دانوں کے شملوں کے ساتھ مل کر سڑکوں پر جاکر حاصل کیا تھا۔

اس پوری بات کو کل ملاکر یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ اِس وقت پاکستان میں حسبِ توفیق جمہوریت بھی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انصاف پسند، خوددار، غیرجانبدار عدلیہ اور کچھ نہ کچھ آزاد مگر بہادر میڈیا بھی موجود ہے۔
 فوج اپنے کاموں میں مصروف ہے۔ عام لوگوں کے لیے اچھے معاشرے کی تفسیر بیان کرنے والے اِن حالات کو عوام کے لیے بہتر حالات بتاتے ہیں لیکن حقیقت میں پاکستانی بہتر سے مختلف حالات سے دوچار ہیں۔

ایسا کیوں ہے؟ اِس پر بے پناہ لکھا، بولا اور سنا جارہا ہے مگر اختیار والے ہیں کہ ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔ شاید اس لیے کہ مڈٹرم انتخابات ہونے کا اُنہیں ڈر نہیں ہے۔ شاید اس لیے کہ حکمرانوں کو یقین ہوچلا ہے کہ لوگ ووٹ دے کر اگلے پانچ برسوں کے لیے اپنے ہاتھ بندھوا چکے ہیں۔ دوسری طرف حکمرانی کی امیدوار اپوزیشن اپنی اپوزیشن والی پانچ سالہ مدت کو الیکشن کیمپین کی طرح گزار رہی ہے جبکہ الیکشن کیمپین کے لیے چند ہفتے دیے جاتے ہیں۔

تو پھر کیا ہونا چاہیے؟ 
اگر مڈٹرم انتخابات ہوں تو حسبِ روایت اپوزیشن والے آگے آجائیں گے۔ کیا وہ موجودہ حکمرانوں سے مختلف کام کر پائیں گے؟ اگر نہیں تو پھر مڈٹرم کا کیا فائدہ؟ اور اگر موجودہ حکومت پانچ سال مکمل کرے تو نئے انتخابات میں امید کی جاسکتی ہے کہ اپوزیشن جماعتیں ہی مل کر حکومت بنائیں گی۔ توکیا وہ لوگوں کی موجودہ صورتحال کو تبدیل کرپائیں گی؟ یا اُس وقت کی اپوزیشن آئندہ پانچ سال کے لیے ایک نئی الیکشن کیمپین میں جُت جائے گی؟ 
عدلیہ میرٹ پر ایسے بڑے بڑے مقدمے سن رہی ہے جو یقینا ملکوں کی تاریخ میں بڑے اہم ہوتے ہیں لیکن عام لوگ ابھی براہِ راست ریلیف سے دور ہیں اور وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں سوال کررہے ہیں کہ ابھی کتنا وقت لگے گا؟ سپریم کورٹ بار میں لبرل اور انسانی حقوق کی علمبردار قوتوں کا جیت جانا کیا اس بات کی یقین دہانی ہے کہ وہ آئین کی غیرانسانی اور غیرلبرل شقوں کو آئین سے نکلوا پائیں گی جن کے خلاف وہ آواز بلند کرتی رہی ہیں؟ اگر ایسا نہیں ہے تو سپریم کورٹ بار روم میں لبرل یا غیرلبرل میں کیا کوئی فرق رہے گا؟ مندرجہ بالا صورتحال میں لوگ کیا کریں؟ سڑکوں پر نکلیں تو کس کے لیے؟ نئے الیکشن میں ووٹ ڈالیں تو کن کے لیے؟ مارشل لاء کی دعائیں مانگیں تو کیوں؟ وہ حکومت بنانے کے اِن طریقوں میں گزشتہ چھ دہائیوں سے شٹل بنے ہوئے ہیں حالانکہ دنیا میں حکمرانی کے یہی دو، تین طریقے رائج ہیں۔

تو پھر سوچا جاسکتا ہے کہ باقی دنیا میں جن طریقوں کے ذریعے حکمرانی کرکے لوگوں کے معیارِ زندگی کو بلند کیا جارہا ہے وہی طریقے ہمارے ہاں لوگوں کو پستی میں کیوں لے جارہے ہیں؟ ہوسکتا ہے حکمرانی کے اِن طریقوں میں ابتداء سے ہی کسی گندگی کی ملاوٹ ہوگئی ہو جس سے ہمارے ہاں ہر نظامِ حکومت ناکام ہورہا ہے۔ جیسے ایک مرتبہ کسی کنویں میں گندہ جانور گرکر مرگیا۔

 لوگوں نے ایک سیانے سے کنویں سے بدبو آنے کی شکایت کی تو سیانے نے انہیں گُر بتایا کہ چالیس روز تک کنویں کاپانی نکال کر پھینکتے رہو۔ چالیس روز بعد جب گاؤں کے لوگوں نے کنویں کے پانی کا جائزہ لیا تو اُس میں بدبو تاحال موجود تھی۔ وہ پھر سیانے کے پاس گئے۔ اُس نے کہا کہ مزید چالیس روز تک پانی نکالتے رہو۔ مدت ختم ہونے کے بعد جب لوگوں نے کنویں کا پانی پینا چاہا تو وہی پرانی صورتحال تھی۔

اس مرتبہ جب وہ سیانے کے پاس گئے تو سیانے کو اچانک خیال آیا اور اُس نے پوچھا کہ کیا تم لوگوں نے کنویں میں سے گندہ جانور نکالا ہے؟ جس پر لوگوں نے جواب دیا، نہیں! ہم تو صرف پانی نکالتے رہے ہیں۔ اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے اب ہمیں حکومتیں بدلنے سے پہلے غور کرکے جمہوریت اور آئین میں سے ایسی چیزیں نکالنی پڑیں گی جو سب کوششوں کو ناکامی میں بدل دیتی ہیں کیونکہ ہمارے ہاں بھی انتخابات ہوتے ہیں، جمہوریت آتی ہے اور جاتی ہے، مارشل لاء آتا ہے اور اٹھتا ہے لیکن عام پاکستانی، ریلوے لائن کے ساتھ نصب ایک سگنل کی مانند ہے جو اپنے اشارے سے ہزاروں ریل گاڑیاں گزار چکا ہے مگر خود کھلے آسمان تلے سردی گرمی میں اُسی جگہ پر کھڑا ہے۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :