کیا پاکستان میں ٹی وی کا عام ہونا بھی ایک امریکی ایجنڈہ ہے؟

بدھ 18 مارچ 2020

Syed Sardar Ahmed Pirzada

سید سردار احمد پیرزادہ

ہمارے گھروں میں ٹیلی ویژن ایک اہم فرد کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ اس کے بغیر گھر اور گھر والے مکمل نہیں ہوتے۔ مَردوں نے خبریں جاننی ہوں، عورتوں نے ڈرامے دیکھنے ہوں، مذہبی تسکین کے لیے علماء کی باتیں سننی ہوں، کھیل کے میدان میں کھلاڑیوں سے زیادہ چیئرلیڈرز کو حسرت سے تکنا ہویا کمرشلز میں چاند چہروں کی وہ ادائیں مفت دیکھنی ہوں جو من چلے کبھی پیسے خرچ کے وی سی آر پر دیکھا کرتے تھے، ان سب کاموں کے لیے ٹی وی ہرگھر میں واحد سہارا ہے۔

گھریلو لڑائی جھگڑے یا خوشی غمی کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ٹیلی ویژن ایک باشعور ”گرو“ شہری بھی ہے کیونکہ اسی کے ذریعے ہمارے شہریوں نے این جی اوز کے بتائے ہوئے سٹینڈرڈ کے مطابق شعور حاصل کرنا شروع کیا۔ 
ٹیلی ویژن بہت جمہوریت پسند بھی ہے۔

(جاری ہے)

یہ ہرایک کو اظہارِ رائے کی پوری آزادی دیتا ہے۔ کبھی کچھ لوگوں کی بدکلامی سناتا ہے تو کبھی یہ اختیارات حاصل کرنے کے لیے دانت تیز کرنے والوں کی مسواک دکھاتا ہے۔

یہ ہیرو بھی بناتا ہے اور زیرو بھی۔ یہ انتشار بھی پھیلاتا ہے اور فساد سے منع بھی کرتا ہے۔ یہ اپنابھی ہے اور پرایا بھی۔ یہ تشویش ناک بھی ہے اور دلچسپ بھی۔ پاکستان میں ٹیلی ویژن کی آمد اور اِس کے ارتقاء کی کہانی پڑھیں تو وہ بھی بڑی دلچسپ اور شائد معنی خیز ہے۔
 یہ 1960ء کی دہائی کا زمانہ تھا۔ ملک میں پہلے مارشل لاء ڈکٹیٹر فیلڈمارشل ایوب خان کا دور تھا۔

بین الاقوامی سطح پر سرد جنگ عروج پر تھی۔ امریکہ اور سوویت یونین ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے۔ سوویت یونین کو گھیرنے کے لیے امریکی دنیا بھر میں مورچے بنا رہے تھے۔ پاکستان ان کے لیے سٹریٹجکلی ایک اہم ملک تھا۔ یہاں کی فوجی حکومت امریکہ کی جھولی چُک تھی۔ سوویت یونین کو گھیرنے کے لیے پاکستان نے امریکہ کو سہولتیں فراہم کردی تھیں۔
 اسی دوران 1964ء میں پاکستان میں ٹیلی ویژن کی آمد ہوئی۔

ایوب خان کی ڈکٹیٹرشپ کا دور ختم ہوا تو جمہوریت کا دور شروع ہوا۔ 1970ء کی دہائی میں پاکستانی لوگوں کی ٹیلی ویژن دیکھنے تک رسائی محدود رہی۔ ایک بستی یا ایک محلے میں ایک دو ٹیلی ویژن ہوا کرتے تھے۔ جب جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء دور کا آغاز ہوا تو امریکہ سوویت یونین کے لیے فیصلہ کن منصوبہ بندی کرچکا تھا۔ 
یہ 1980ء کے دور کی بات ہے جب جہادِ افغانستان کے نام پر پاکستان کو استعمال کیا گیا۔

اسی عرصے میں پاکستانی لوگوں کی ٹیلی ویژن تک رسائی بہت آسان ہوگئی اور ہرگھر میں ٹیلی ویژن کی آواز گونجنے لگی۔ جہادِافغانستان کے حق میں ایک بھرپور پروپیگنڈا مہم پاکستانی ٹیلی ویژن سے چلائی گئی جس میں خبروں اور مذاکروں سے لے کر ڈراموں اور تفریح کے پروگراموں تک کو پروپیگنڈے کا حصہ بنایا گیا۔ مثلاً پی ٹی وی سے ایک لانگ پلے ”پناہ“ کے نام سے قسط وار ٹیلی کاسٹ کیا گیا جس کے تھیم میں جہادِ افغانستان کو اجاگر کیا گیا تھا۔

اس ڈرامے میں اتنی شدت تھی کہ اسے افغانستان کی حکومت نے اپنے معاملات میں مداخلت کہا اور وزارتِ خارجہ کے ذریعے بین الاقوامی سطح پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔
 مختصر یہ کہ 1980ء کی دہائی میں سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں امریکی سرپرستی میں جنگ لڑی جارہی تھی اور 1980ء کی دہائی میں ہی پاکستان میں ٹیلی ویژن بہت مقبول اور عام ہورہا تھا۔

جب جہادِ افغانستان کی کوششوں سے سوویت یونین ٹوٹ گیا اور سب اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے گئے تو اس وقت تک پاکستان میں بھی جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء اپنی موت مرچکا تھا۔ 
1990ء کی دہائی میں پاکستان میں فوجی حکمرانی کا دور نہیں تھا۔ اگرچہ جمہوری حکومتوں کے خلاف سازشیں ہوتی رہیں، سیاسی حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی رہیں لیکن مارشل لاء نہیں لگا۔

اس دوران پاکستان میں ٹیلی ویژن کے پھیلاؤ کی صورتحال 1980ء کی دہائی سے خاص آگے نہیں بڑھی۔ جب اکیسویں صدی کا آغاز ہوا توایک طرف پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کا مارشل لاء موجود تھا، دوسری طرف امریکہ نے دنیا کو ”وار آن ٹیرر“ کی نئی فلاسفی سے روشناس کرایا۔ جہادِ افغانستان کے دوران امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے کام کرنے والے مجاہدین اب دہشت گرد کے طور پر پہچانے جانے لگے۔

ان دہشت گردوں کی موجودگی افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں بتائی گئی جن کے تعاقب میں امریکہ اپنے ساتھیوں سمیت ا ن علاقوں تک پہنچ گیا۔ عین اسی وقت پاکستان میں ٹیلی ویژن کو نئی توانائی ملی۔ الیکٹرانک میڈیا کی بھرمار ہوئی۔ درجنوں چینل شروع ہوئے۔ کیبل کا رواج ہوا۔ ٹی وی پر چند گھنٹے کی نشریات کی بجائے چوبیس گھنٹے کی نشریات شروع ہوگئیں۔

ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں وار آن ٹیرر کو بہت نمایاں جگہ ملنے لگی۔
 پاکستان میں اس مرتبہ ٹیلی ویژن کے پھیلاؤ میں اتنا اضافہ ہوا کہ یہ گھروں، دفتروں اور دکانوں کے ساتھ ساتھ مزدوروں کے ہوٹلوں، جھونپڑوں اور سڑکوں کے چوراہوں تک جاپہنچا۔ اس پورے جائزے کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ دنیا میں ٹیلی ویژن کی ترقی اور پھیلاؤ کے اثرات بلاشبہ پاکستان پر بھی مرتب ہونا ناگزیر تھے لیکن پاکستان میں ٹیلی ویژن کی آمد، عام ہونے اور چینلوں کی بھرمار سے دو حقیقتیں جڑی ہوئی ہیں۔

جن میں سے پہلی یہ کہ ٹیلی ویژن کی آمد جنرل ایوب خان، عام لوگوں کی ٹیلی ویژن تک رسائی جنرل ضیاء الحق اور چینلوں کی بھرمار جنرل پرویز مشرف کے ادوار میں ہوئی۔
 دوسری یہ کہ مارشل لاء کے یہ تینوں ادوار امریکہ کے لیے بہت مفید ثابت ہوئے اور پاکستانی ٹیلی ویژن نے سرد جنگ میں امریکی موقف، جہادِ افغانستان اور وار آن ٹیرر کو آگے بڑھانے میں بہت مدد کی۔ پاکستان میں امریکی مفادات، مارشل لاء اور ٹیلی ویژن کا ساتھ ساتھ ہونا محض اتفاق ہوسکتا ہے لیکن بین الاقوامی سازشوں کے اس دور میں پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا پاکستان میں ٹیلی ویژن کا عام ہونا بھی ایک امریکی ایجنڈہ ہے؟ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :