
حقیقت کو پھانسی نہیں دی جا سکتی
پیر 6 اپریل 2020

سید سردار احمد پیرزادہ
(جاری ہے)
کالے کالے سائے آگے بڑھے اور لوگوں کو زبان اور شعور دینے والے شخص کے چہرے پر کالا کپڑا ڈال دیا اور اسے اپنے سروں سے بھی اوپر لے جاکر تختوں پر کھڑا کردیا۔
اس سے پہلے بھی وہ کئی مرتبہ اونچا کھڑا ہوکر لوگوں کو مخاطب کرچکا تھا لیکن اس مرتبہ یہ اونچائی عوامی سٹیج نہ تھا۔ تب جس طرح بدنیت ساتھی اپنے ہی دوست کے نیچے سے سیڑھی کھینچ لیتے ہیں ویسے ہی اس کے نیچے سے بھی تختہ کھینچ لیا گیا۔ وہ جھولنے لگا، بڑے سے گھڑیال کے پنڈولم کی طرح۔ وقت کا گھڑیال چلنا شروع ہوا، سوئی ٹک ٹک کرکے آگے بڑھنے لگی۔ کالے سایوں نے اپنا کام مکمل کیا لیکن عجیب فتح تھی کہ وہ خوفزدہ تھے، سہمے ہوئے تھے، ایک دوسرے سے آنکھیں چرا رہے تھے، اپنی کامیابی پر ایک دوسرے کو مبارکباد تک بھی نہ دے سکے۔ اب صبح ہو رہی تھی، کچھ کچھ نظر آنے لگا تھا۔ تمام تر بندوبست کے باوجود یہ خبر نکل گئی اور ایک غیرملکی نشریاتی ادارے نے بتایا کہ پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ اس خبر کی طاقت بندوق کی طاقت سے زیادہ تھی اور گولی کی رفتار سے زیادہ تیز۔ لہٰذا روشنی کی رفتار سے سفر کرتی ہوئی پوری دنیا میں پھیل گئی۔ پھر ایک اور فکر لاحق ہوئی۔ بھٹو کو ملک کے گلی کوچوں سے بھی ختم کرنے کی کوشش شروع کی گئی۔ اُسے مذہب سے بھی دور بتایا گیا لیکن اب سوچیں تو پتا چلتا ہے کہ اُس دور کے پاکستان نے سب سے پہلے اسلامی بم پر کام شروع کیا، اسلامی بینکاری کا تصور اور تو اور اسلامی بلاک کا خواب دوسرے بلاکوں کو دہشت زدہ کرگیا۔ شاید اسی لیے امریکی وزیر خارجہ کسنجر نے باقاعدہ دھمکی کے ذریعے بھٹو کو مستقبل سے آگاہ کردیا تھا۔ اُس وقت کا پاکستان دنیا میں اسلامی ممالک کے لیے باعث عزت اور دوسرے ملکوں کے لیے ایک ترنوالہ نہ تھا اور آج کا روشن خیال اعتدال پسند پاکستان عالمی برادری میں کیا مقام رکھتا ہے اس کے لیے کسی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک اور حربے کے طور پر پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو راہِ راست پر لانے کے لیے دنیا میں رائج تمام تر تدابیر استعمال کی گئیں لیکن اُس وقت کے کارکنان تشدد کی آگ سے لے کر اپنے اوپر پیٹرول چھڑک کر آگ لگانے کی حد سے بھی گزرتے رہے۔ انہوں نے سیانے بننے کی بجائے جیالے بننا پسند کیا اور جو لوگ سیانے بنے ان کا اب کوئی وجود نہیں جبکہ جیالوں کا راستہ تین مرتبہ وزیراعظم ہاؤس اور دو مرتبہ ایوان صدر تک جاپہنچا۔ بھٹو سے دشمنی اچھے طریقے سے نبھائی گئی۔ یہاں تک کہ ان کے خاندان کو بھی نہ چھوڑا گیا۔ سازشیں، قتل اور پھوٹ ڈلوا کر بھی کام نکالنے کی کوشش کی گئی۔ مشرقی اقدار میں بیٹیاں سب کی برابر ہوتی ہیں لیکن اس دشمنی میں بھٹو کی بیٹی اور سیاسی وارث کو بھی نہ بخشا گیا اور اُس کو بھی مارکر ہی دم لیا۔ بھٹو کی لاش کو مٹی میں دبا کر بظاہر مطمئن ہو جانے والے اُس کے نام کو کبھی نہ دفنا سکے۔ اس کام کے لیے انہوں نے جتنا روپیہ، پیسہ، دشمنیاں اور دماغ اکٹھے کیے اور استعمال کیے اگر وہ اتنا روپیہ، پیسہ، اچھی نیتیں اور دماغ پاکستان میں غربت ختم کرنے کے لیے استعمال کرتے تو شاید یہاں اب کوئی غریب ہی نہ ہوتا اور بھٹو کا نام بھی خودبخود ختم ہوگیا ہوتا۔ بھٹو دراصل ایک ذات نہیں بلکہ ایک نظریئے کا نام بن گیا تھا جس نے بھوکے، گونگے اور سرجھکائے لوگوں کو زبان اور شعور دیا کہ وہ اپنی پہچان اور عزت کروا سکیں۔ اسی نظریئے کا ایک اور شخص اُدھر بہت دور ایک دوسرے براعظم امریکہ میں ناتواں اور بے زبان انسانوں کو زندگی کی امید دینے والا مارٹن لوتھر کنگ تھا۔ اُس رنگ کے کالے اور دل کے سفید جن نما انسان نے سیاہ فام امریکیوں کو یاد دلایا کہ وہ بھی گورے امریکیوں کی طرح باصلاحیت اور باعزت ہیں۔ مارٹن لوتھر کنگ نے اپنی برادری کے لیے سِول رائٹس کی بھرپور تحریک چلائی اور اس سلسلے میں تقریباً 60ہزار میل کا سفر طے کیا۔ ایک دفعہ اس نے بہار کے موسم میں تاریک قید خانے کی سلاخوں کے پیچھے سے اپنے جانثاروں کو تاریخی مراسلہ لکھا جو ”برمنگھم جیل سے خط“ کے نام سے مشہور ہوا جس میں اس نے کہا کہ ہمیں ایک اذیت ناک تجربے سے معلوم ہوا ہے کہ جابر آزادی کبھی بھی رضاکارانہ طور پر نہیں دیتا بلکہ مظلوم کو اس کا لازماً مطالبہ کرنا پڑتا ہے۔ وہ اکثر کہتا تھا کہ غربت کا تعلق نسل سے نہیں ہے بلکہ ہرنسل کا غریب آدمی دراصل مظلوم انسان ہے۔ پھر ایک دن ہوٹل کی بالکونی سے خاکروبوں کے جلسہ عام سے خطاب کے دوران زور کا دھماکہ ہوا اور مارٹن لوتھر کنگ تاریخ بن گیا۔ اُس کی قبر کے کتبے پر درج ہے ”آخرکار آزادی مل گئی۔ جی ہاں آزادی مل گئی۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میں بالآخر آزاد ہوگیا“۔ واقعات کی بدقسمتی دیکھئے کہ امریکہ کے دبے ہوئے انسانوں کو اٹھانے والا مارٹن لوتھر کنگ اور پاکستان میں نیم مردہ جسموں کو توانائی بخشنے والا ذوالفقار علی بھٹو ایک ہی مہینے یعنی جنوری میں پیدا ہوئے، علم نجوم میں دونوں کا برج ایک ہی یعنی جدّی تھا اور ایک ہی دن 4اپریل کو دونوں اپنوں سے جدا ہوگئے اور دونوں ہی غیرفطری موت مارے گئے۔ اب 41سال بعد پاکستان کا سیاسی منظرنامہ یہ بات واضح کرتا ہے کہ 4اپریل 1979ء کو ایک شخص ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی نہیں دی گئی تھی بلکہ چند لوگوں نے اپنے آپ کو دھوکا دیا تھا کیونکہ بھٹو ایک حقیقت تھا جو اَب بھی موجود ہے۔ لہٰذا حقیقت کو پھانسی نہیں دی جاسکتی۔ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سید سردار احمد پیرزادہ کے کالمز
-
آزاد خارجہ پالیسی کی خواہش
ہفتہ 19 فروری 2022
-
نیشنل سکلز یونیورسٹی میں یوم تعلیم پر سیمینار
منگل 8 فروری 2022
-
اُن کے گریبان اور عوام کے ہاتھ
بدھ 2 فروری 2022
-
وفاقی محتسب کے ادارے کو 39ویں سالگرہ مبارک
جمعہ 28 جنوری 2022
-
جماعت اسلامی کا کراچی میں دھرنا۔ کیوں؟
پیر 24 جنوری 2022
-
شارک مچھلی کے حملے اور سانحہ مری کے بعد فرق
ہفتہ 15 جنوری 2022
-
نئے سال کے لیے یہ دعا کیسی ہے؟
بدھ 12 جنوری 2022
-
قاضی حسین احمد آئے، دیکھا اور لوگوں کے دل فتح کیے
ہفتہ 8 جنوری 2022
سید سردار احمد پیرزادہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.