تین ہزار سال پرانی اولی گرکی اور ہمارا طرز حکمرانی

جمعرات 1 اکتوبر 2020

Syed Sardar Ahmed Pirzada

سید سردار احمد پیرزادہ

پاکستان میں اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں میں کئی اختلاف سہی لیکن یہ اتفاق بڑھتا جارہا ہے کہ جمہوریت ہی ملک کا شاندار پہناوا ہے۔ دل میں اقتدار کی قیامت خیز تڑپ لئے کچھ ایسی جماعتیں بھی ہیں جن کے بارے میں یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ الیکشن کی جگہ اگر سلیکشن نہ ہوتی تو وہ اپنی حسرتوں پر آنسو بہاکر سوتی ہی رہتیں۔ تاہم سلیکٹروں کے احسان تلے دبی یہ جماعتیں بھی جمہوریت کے خلاف سرعام گناہ سے ڈرتی ہیں۔

اگر کوئی بڈھا بانکا جمہوریت کے برعکس غیرجمہوری عناصر کی آمد کی اشارتاً بات بھی کردے تو اُسے بھی جمہوری اینکروں کے پریشر کے باعث اپنے الفاظ کی دوبارہ تشریح کرکے پیچھے ہٹنا پڑتا ہے۔ اپنے آپ کو جمہوری دیوتا ثابت کرنے کے لئے ہماری اپوزیشن کی جماعتیں اتنی چوکنا ہیں کہ کوئی چوہا بھی خشک پتوں سے گزرے تو انہیں جمہوریت کے خلاف بہت بڑی سازش کی بو آنے لگتی ہے۔

(جاری ہے)

اِس کے بعد بیانات، ٹاک شوز اور کالموں کا ایسا ٹڈی دَل پھیل جاتا ہے جس میں سٹیبلشمنٹ کو جمہوریت کا احترام کرنے کی دھمکی آمیز نصیحتیں ہوتی ہیں۔ جمہوریت کے فلسفے پر کسی کو اختلاف نہیں ہوسکتا لیکن اس پر فکر ضرور ہے کہ کیا جمہوریت صرف دوسروں کو دکھانے کا آئینہ ہے یا اپنی شکل دیکھنے کا بھی ایک طریقہ ہے؟ ہمارے کئی سیاسی لوگوں اور کئی میڈیا پرسنز میں جمہوری فیشن کا یہ نیا سٹائل بہت پاپولر ہورہا ہے کہ دوسروں کو جمہوریت سے محبت کرنے کی نصیحتیں کی جائیں لیکن یہی سیاسی لوگ اور یہی میڈیا پرسنز خود حقیقی جمہوریت پر چلنا اپنے غرور کی توہین سمجھتے ہیں۔

ان میں خود تو تنقید یا اختلاف رائے برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں ہوتا لیکن یہ دوسروں کو تنقید اور اختلاف رائے برداشت کرنے کا سبق دن رات پڑھاتے رہتے ہیں۔ جمہوریت میں سیاست دان عوام سے براہِ راست رابطہ رکھتے ہیں لیکن ہمارے ہاں اکثر سیاسی لیڈر اپنی پارٹی کے مخصوص گروہ کے علاوہ اپنی پارٹی کے عام رہنماؤں سے بھی رابطہ نہیں رکھتے۔ جمہوریت کے نام پر اپنا دھندہ چلانے والوں کو دیکھ کر سوال ذہن میں آتا ہے کہ کیا جمہوریت کا مطلب عوام کو برابری کی سطح پر لانے کے لئے قوانین بنانا اور تجویز کرنا ہے یا صرف اپنے اقتدار کو تحفظ دینے کا نام جمہوریت ہے؟ تقریباً تین ہزار سال پہلے یونان کے پرانے ایتھنز میں حکمرانی کا ایک طریقہ رائج تھا جسے ”اولی گرکی“ کہا جاتا تھا۔

اس نظام حکومت کے تحت حکمرانی کی طاقت ایک مخصوص گروہ کے پاس ہوتی تھی۔ یہ لوگ دولت، خاندانی مرتبے، تعلیم، کاروباری تعلقات اور فوج پر کنٹرول رکھنے کے باعث عام لوگوں کے مقابلے میں امتیازی برتری رکھتے تھے۔ ایسی ریاستیں ہمیشہ مخصوص خاندانوں کے کنٹرول میں ہی رہتی تھیں جو عموماً اپنی حکمرانی ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل کرتے تھے۔ ساری ہسٹری میں اولی گرکی کی طرزِحکومت والے حکمران ہیبت ناک حکمرانوں کے حوالے سے یاد کئے جاتے ہیں۔

وہ اپنی حکمرانی کو زندہ رکھنے کے لئے عام لوگوں کو پسماندہ رکھتے اور انہیں زبردستی اپنا فرمانبردار بناتے۔ ارسطو نے پہلی مرتبہ اولی گرکی کی طرز حکومت کو طاقتوروں کی حکومت کہا۔ اولی گرکی کے حکمرانوں کی خوفناکی کو دنیا پر واضح کرنے کے لئے بہت سے ناول بھی تحریر کئے گئے جن میں جارج اوروِل کا 1984 کے عنوان سے ناول، جیک لندن کا ناول ”دی آئرن ہیل“، آرسن سکاٹ کارڈ کا ناول ”دی اینڈر کوئن ٹِٹ“ اور رابرٹ جورڈن کا ناول ”دی ویل آف ٹائم“ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

اس کے علاوہ اولی گرکی کی ہلاکتوں کو منظرکشی میں لانے کے لئے امریکن ناولسٹ سوزین کالنز کے تین ایڈونچر ناولز پر مبنی فلم سیریز ”دی ہنگر گیمز“ بھی بنائی گئی جس میں حکمرانوں کے ظلم کو دیکھ کر مہذب دنیا نے کانوں کو ہاتھ لگائے۔ جب ایک انسان کے ہاتھوں دوسرے انسان پر ظلم کو غلط سمجھا جانے لگا تو مہذب دنیا کی شروعات ہوئی۔ اُسی وقت یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ طرز حکمرانی میں بھی کسی انسان یا گروہ کو اپنے جیسے انسانوں پر زبردستی حکومت کرنے کا حق نہیں ہوگا۔

اگر ہم پاکستانی سیاست کے طور طریقوں اور پرانے ایتھنز کے حکمرانوں کے طرز حکومت یعنی اولی گرکی کا موازنہ کریں تو کچھ نہ کچھ مماثلت ضرور ہے۔ اُس وقت بھی حکمرانی کی طاقت ایک مخصوص گروہ کے پاس تھی، ہمارے ہاں آج بھی یہی ہے۔ اُس وقت بھی وہ لوگ طاقت، مرتبے اور اپنے نظم و نسق کے باعث عام لوگوں کے مقابلے میں امتیازی برتری رکھتے تھے، ہمارے ہاں آج بھی یہی ہے۔

اُس وقت بھی ریاستیں ہمیشہ مخصوص گروہ کے کنٹرول میں ہی رہتی تھیں جو عموماً اپنی حکمرانی ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل کرتے تھے، ہمارے ہاں بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔ اُس وقت بھی وہ اپنی حکمرانی کو زندہ رکھنے کے لئے عام لوگوں کو پسماندہ رکھتے اور انہیں زبردستی اپنا فرمانبردار بناتے تھے، ہمارے ہاں آج بھی یہی ہے۔ اولی گرکی سے ملتے جلتے ہونے کے باوجود بھی ہمارے حکمران جمہوری ہونے کا ڈھول بجاتے ہیں اور دوسروں کو جمہوری بننے کا درس دیتے ہیں۔ کیا ہم ہسٹری کا آئینہ دیکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے آج کے حکمران تین ہزار سال پرانے اولی گرکی کے حکمرانوں سے مختلف ہیں؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :