نہ جانے سفید جھنڈا کہاں کھو گیا ہے؟

پیر 21 دسمبر 2020

Syed Sardar Ahmed Pirzada

سید سردار احمد پیرزادہ

احمد جواد پاکستان تحریک انصاف کے سنٹرل سیکرٹری انفارمیشن ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے سینئررہنماؤں سعید غنی اور خرم دستگیر خان کے ساتھ حامد میر صاحب کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں شرکت کی۔ پروگرام کا موضوع ”سوشل میڈیا پر بڑھتی ہوئی سیاسی نفرت کا ذمہ دار کون؟“ تھا۔ پروگرام کے آغاز میں یہ خیال آیا کہ گفتگو میں شریک پی ٹی آئی کے نمائندہ احمد جواد اپنے مدمقابل ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے نمائندوں کو اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے اور جیسا کہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ٹرولز کے بارے میں تاثر ہے کہ وہ مخالف کی ایسی تیسی کرنے میں کوئی کثر اٹھا نہیں رکھتے ویسا ہی کیپیٹل ٹاک میں دیکھنے کو ملے گا لیکن پروگرام کے آغاز سے لے کر آخر تک احمد جواد کی حیران کن اور قابل ستائش گفتگو سننے کو ملی۔

(جاری ہے)

تحریک انصاف کے سنٹرل سیکرٹری انفارمیشن احمد جواد نے مخالفین کے ہر حملے کا جواب مہذب، شائستہ اور مدلل انداز سے دیا جبکہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے نمائندے پروگرام کے دوران کئی مرتبہ احمد جواد پر سخت اور طنزیہ جملوں سے وار کرتے رہے۔ احمد جواد نے سوشل میڈیا کے حوالے سے پی ٹی آئی کی پالیسی بتاتے ہوئے کہا کہ ان کی پارٹی سوشل میڈیا کو قواعدوضوابط کے تابع لانا چاہتی ہے۔

اس کے جواب میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے نمائندے دلیل کی بجائے شک کا سہارا لیتے رہے۔ ان کے خیال میں پی ٹی آئی سوشل میڈیا کو قواعدو ضوابط کے تحت لاکر اپنے مخصوص مقاصد حاصل کرنے کے لیے اظہارِ رائے پر پابندی لگانا چاہتی ہے۔ دیکھا جائے تو سوشل میڈیا سمیت میڈیا کی سب برانچوں کو قواعدو ضوابط کے تحت لانا مہذب اور صحتمند سوسائٹی کے لیے ضروری ہوتاہے۔

ماضی کے تجربات کے نتیجے میں اپوزیشن کی یہ بات بھی درست ہے کہ حکومت وقت اِس قسم کی پالیسیوں کے ذریعے ناقدین اور اپوزیشن کی رائے پر پابندی لگا دیتی ہے۔ حکومت وقت کی سوشل میڈیا کو قواعدو ضوابط کے تحت لانے کی دلیل پر اپوزیشن کے شک و شبہے کا حل یہی ہے کہ اپوزیشن حکومت وقت کے ساتھ بیٹھ کر سوشل میڈیا کے قواعدو ضوابط کی قانون سازی کے حوالے سے ڈرافٹ تیار کرے۔

تاکہ حکومت اور اپوزیشن میں باہمی اعتماد کا آغاز ہو اور سوشل میڈیا کے ذریعے سیاسی مخالفین کے خلاف پھیلنے والی بدترین نفرت کو روکا جاسکے جس کے خطرناک اثرات گھروں کے اندر تک پہنچ چکے ہیں۔ اس موضوع کے بعد اپوزیشن جماعتوں کی پی ڈی ایم تحریک کا جائزہ لیں تو ایک معاملہ سمجھ نہیں آرہا۔ پی ڈی ایم کے مطابق اُن کی تحریک نظام کو تبدیل کرنے کے لیے پرامن احتجاج پر مبنی ہے۔

ان کے اِس بیانئے کو ہسٹری کے صفحات سے پرکھیں تو متضاد نتیجہ سامنے آتا ہے۔ ہسٹری بتاتی ہے کہ نظام کو تبدیل کرنے کے لیے جب بھی تحریکیں چلیں تو تصادم ضرور ہوا جس کے نتیجے میں بہت سے سرکٹے اور بہت سا خون بہا پھر کہیں جاکر تاج اچھالے گئے اور تخت گرائے گئے۔ مثلاً ایران کے انقلاب کے دوران دونوں اطراف کی لاتعداد قیمتی جانیں ختم کردی گئیں۔

انقلابِ روس کے دوران بیشمار لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ انقلابِ فرانس نے اَن گنت سروں کو تن سے جدا کردیا۔ بیشک اگست 1947ء میں ایک پرامن سیاسی تحریک کے ذریعے پاکستان معرض وجود میں آیا لیکن انگریزوں کو نکال کر پرانے ایک ہندوستان کی جگہ نئے ملک یعنی نئے نظام کو لاتے ہوئے لاکھوں مہاجرین نے اپنے مال، جسموں اور عزتوں کی قربانی دی۔ مختصر یہ کہ ہسٹری میں سسٹم کے خلاف چلنے والی ہرتحریک کے نتیجے میں آگ اور خون کا دریا بہتا ہے۔

اسی ہسٹری کو پڑھ کر پی ڈی ایم سے سوال بنتا ہے کہ اُن کے خیال میں اگر اُن کی تحریک ایک بڑے مقصد یعنی سسٹم کو تبدیل کرنے کے لیے ہے تب بھی کیا پی ڈی ایم والوں نے ہسٹری کے اُس آئینے میں اچھی طرح دیکھ لیا ہے جس میں صاف نظر آتا ہے کہ ایسی تحریکوں کا دورانیہ طے شدہ نہیں ہوتا اور پرامن نہیں رہتا اور بعض اوقات نتیجہ تحریک شروع کرنے والوں کے ہاتھ میں بھی نہیں رہتا۔

اگر واقعی پی ڈی ایم کی تحریک ملک کے پرانے سیاسی نظام میں تبدیلی کا عزم لے کر چلی ہے تو ہسٹری کی روشنی میں کیا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ عوام کو تصادم کی قربان گاہ سے گزرنا پڑے گا؟ اس موضوع کے بعد شیخ رشید کے وفاقی وزیر داخلہ بننے کا تجزیہ کریں تو کچھ پریشان کن خیالات ذہن میں آتے ہیں۔ پریشان کن اس لیے نہیں کہ شیخ رشید کیوں وزیر داخلہ بن گئے؟ بلکہ اس لیے کہ ان سے پہلے وزارت داخلہ کا کام سنبھالنے والے بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کو ہوسکتا ہے وزارت داخلہ سے اس لیے الگ کردیا گیا ہو کہ اپوزیشن کے ساتھ کسی قسم کے تصادم کی صورت میں پہلا الزام وزارت داخلہ پر آتا ہے اور وزارت داخلہ کے سربراہ وزیر/ مشیر اگر دفاعی ادارے سے ریٹائر ہوئے ہوں تو دفاعی ادارہ بھی الزامات کی زد میں آجاتا ہے۔

اس سے قبل بھی بینظیر بھٹو نے اپنے قتل کے منصوبے کا الزام بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ پر لگایا تھا۔ شیخ رشید یعنی ایک سیاسی شخصیت کے وزیر داخلہ ہوتے ہوئے اپوزیشن پی ڈی ایم کے ساتھ تصادم کی صورتحال کا الزام دفاعی اداروں پر نہیں آتا۔ سپین میں بُل فائٹنگ ایک مقبول کھیل ہے۔ اس کھیل میں فائٹر بُل کو لال کپڑا دکھا کر غصہ دلاتا ہے اور مقابلے کا چیلنج دیتا ہے۔

ہماری سیاست میں حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو لال کپڑا دکھاکر شدید غصہ دلا رہے ہیں اور انتہائی مقابلے کا چیلنج دے رہے ہیں۔ نہ جانے دونوں فریقین نے ہسٹری کتنی پڑھی ہے اور ہسٹری سے کتنا سبق سیکھا ہے۔ ہسٹری میں سفید جھنڈے کی بھی بہت اہمیت ہے جس کو لہرانے کے بعد دونوں فریقین پرامن ہو جاتے تھے اور بات چیت کا راستہ نکالتے تھے۔ نہ جانے ہماری سیاست میں سفید جھنڈا کہاں کھو گیا ہے؟ ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :