پیغام بنام حسینہ واجد !!!

ہفتہ 8 مارچ 2014

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

پاکستان ایشیاء کپ کے فائنل میں پہنچ گیا۔ اس کا مقابلہ سری لنکا سے ہو گا۔ بنگلہ دیش پاکستان سے میچ تو ہار گیا لیکن اس نے اپنی کارکردگی سے پوری دنیا کو حیران ضرور کر دیا۔ مجھے یاد ہے کہ بنگالی مانیں یہ نہ مانیں لیکن بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم کو یہاں تک پہنچانے تک جتنی "محنت " پاکستان کی ہے اتنی کسی اور کی نہیں ہے۔بنگلہ دیش کرکٹ کے میدان میں پاکستان پر اسی طرح انحصار کرتا تھا جیسے آج افغانستان ہے۔


افغانستان کرکٹ کے میدان میں دن بدن ترقی کر رہا ہے۔ پاکستان نے افغانستان کے کھلاڑیوں کے لیے اپنی سرزمین پر پریکٹس کے دروازے کھولے یہی وجہ ہے کہ اپنے ملک میں کھیلوں کے میدان نہ ہونے کے باوجود افغانستان کرکٹ ٹیم آج ایشیاء کپ جیسے اہم ٹورنامنٹ کا حصہ بنی۔

(جاری ہے)

یہی حال کافی عرصہ پہلے بنگلہ دیش کا تھا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ملا عبد القادر کی پھانسی سے پیدا ہونے والی صورت حال سے ایشیاء کپ کا انعقاد خطرے میں پڑ گیا تھا۔

پاکستان دفاعی چیمپئن تھا۔ پرانے کھلاڑیوں کی تنقید کے باوجود ہماری ٹیم بنگلہ دیش گئی۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اگر پاکستان ایشیاء کپ میں شرکت سے انکار کر دیتا تو اس ٹورنامنٹ کی حیثیت کیا رہ جاتی ۔ لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا۔ اس کے علاوہ ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں شرکت کی بھی یقین دہانی کروا دی ۔ حالانکہ سیکیورٹی کی صورت حال بھی بنگلہ دیش میں دگرگوں ہے۔


بنگلہ دیش میں حکومتی سطح پر جس نفرت کا اظہار کیا گیا اس سے بظاہر یہی نظر آتا تھا کہ پاکستان کو اس دورے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کی مینیجمنٹ کو سرکاری سطح سے یہ پیغام دیا گیا تھا کہ بنگلہ دیش میں احتیاط سے کام لیں۔ لیکن پاکستان کی بنگلہ دیش اور بھارت سے فتح کے وقت جو مناظر دیکھنے میں آئے اس سے کسی صورت یہ تاثر نہیں ملا کہ پاکستان کے خلاف عوام میں کسی بھی سطح پر نفرت موجود ہے۔

حالانکہ بنگلہ دیش کے خلاف میچ میں جب لالہ کے چھکے تماشائیوں سے بھرے سٹینڈ میں گر رہے تھے تو کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ پاکستان انڈیا کے کوارٹر فائنل جیسی صورت حال پیدا ہو جائے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اور حیران کن طور پر بنگلہ دیش کے خلاف میچ میں بھی بہت بڑی تعداد میں سبز ہلالی پرچم میدان میں نظر آئے۔ اس کا واضح مطلب تھا کہ پاکستان کے خلاف نفرت صرف اور صرف حکومتی سطح پر ہے۔

اور عوامی سطح پر اس کا کوئی وجود نہیں اور اگر کوئی وجود ہے بھی تو صرف اس وجہ سے ہے کہ حکومت یہ تان ٹوٹنے نہیں دیتی ۔
ایشیاء کپ شروع ہونے سے پہلے غیر مصدقہ اطلاعات یہ تھیں کہ بھارت نواز حسینہ واجد نے پاکستان کے فائنل میں پہنچنے کی صورت میں میدان میں بطور مہمان خصوصی نہ آنے کا عندیہ دیا ہے۔ اس سے یقینا نقصان پاکستان کا نہیں ہو گا۔

نقصان یقینا بنگلہ دیش کا ہی ہو گا کہ اتنے اہم ٹورنامنٹ میں نفرت کی آمیزش کر دی جائے گی۔ یہ بات نہ صرف آنے والے ورلڈ کپ میں بنگہ دیش کا امیج خراب کرنے کا باعث بنے گی بلکہ آئندہ بنگلہ دیش میں ہونے والے تمام مقابلے بھی اس سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکیں گے۔
حسینہ واجد کے لیے پاکستانی قوم کی طرف سے صرف ایک پیغام ہے کہ یہ قوم محبتیں بانٹنے والی قوم ہے۔

اپنے خلاف نفرت انگیز یوں کا جواب بھی یہ قوم محبت سے دیتی ہے۔ لالہ کو جب مین آف دی میچ کا ایوارڈ دیا گیا تو انہوں نے بھی بنگالی تماشائیوں کا خصوصی طور پر شکریہ اد کیا۔ حسینہ واجد اپنی بھارت نواز پالیسی کو چند لمحوں کے لیے اگر ایک طرف رکھ کر پاک بھارت میچ کے دوران گراونڈ میں موجود لوگوں کے چہرے دیکھ لیتی تو اسے یقینا معلوم ہو جاتا کہ کتنے بنگالی ایسے تھے جن کے چہروں پر ہلالی پرچم پینٹ کیا گیا تھا۔

اور کتنے ہی لوگ ایسے تھے جو پاکستانی نہیں تھے لیکن ان کے ہاتھ میں سبز ہلالی پرچم تھا۔ شاید وہ حسینہ واجد کی طرح نہیں تھے۔ حسینہ واجد کے لیے مثال تو وہ کشمیری طالبعلم ہیں جنہوں نے اپنا مستقبل تک پاکستان کی فتح کی خوشی میں داؤ پر لگا دیا۔
لہذا ایک عام پاکستانی کی حیثیت سے میرا پیغام حسینہ واجد کے لیے صرف یہی ہے کہ محترمہ آپ ایشیاء کپ کے فائنل میں نہیں آتیں تو فرق ہمیں نہیں پڑے گا۔

دنیا نے ہمیں جب کھیلوں میں تنہا کرنے کی ٹھانی تو ہمارے کھلاڑیوں نے اپنی کارکردگی سے اس کا جواب دیا۔ اور آج ذرا نظر دوڑائیں کے کتنے پاکستانی ٹاپ رینکنگ میں ہیں۔ ہمارے شاہین تو دنیا کے کسی کونے میں کھیلنے سے نہیں گھبراتے۔ ۔ آپ اگر گراؤنڈ میں آئیں گی تو آپ کا اپنا قد دنیا کی نظر میں بڑھے گا۔ فائدہ آپ کا اپنا ہی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :