
الطاف حسین کیس۔۔۔ مثبت و منفی پہلو
ہفتہ 7 جون 2014

سید شاہد عباس
(جاری ہے)
اس کا ایک واضح ثبوت ریکارڈ ساز مدت تک عہدہ قائم رکھنے والے عشر العباد ہمارے سامنے مثال ہیں۔
ملکی سطح پر ایم کیو ایم کو شدید تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے ۔
اس کیس کے پاکستان کی داخلی صورت حال پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ یہ اثرات مثبت بھی ہو سکتے ہیں اور منفی بھی۔ منفی اثر وہ ہو سکتا ہے جو الطاف حسین کی گرفتاری کے دن بھی دیکھنے میں آیا کہ کراچی اسٹاک ایکسچینج کریش کر گئی۔ اور کراچی و حیدر آباد سمیت مختلف علاقوں میں فائرنگ اور زبردستی بازار بند کروانے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ اگر اسی طرح کے حالات اس پورے کیس کے دوران جاری رہتے ہیں تو پھر یقینا یہ ایک منفی اثر ہو گا جو پہلے سے مشکلات کا شکار ملک کے لیے بہر صورت نقصان دہ ہو گا۔اب اگر اس کیس کے مثبت پہلو کی طرف جائیں تو ایم کیو ایم خود پر لگی چھاپ مٹا سکتی ہے۔ الطاف حسین اس پارٹی کے سربراہ ہیں جس پر ہمیشہ سے لوگوں کو گلہ رہا ہے ۔اس کیس کی وجہ سے ایم کیو ایم کی قیادت سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کر کے خود کو واقعی میں ایک منظم جماعت ثابت کر سکتی ہے۔ گرفتاری کے پہلے دن حالات کافی حد تک خراب رہے لیکن اس کے بعد معمولات زندگی کسی حد تک بہتر ہونا شروع ہو گئے۔ ایم کیو ایم کی قیادت اور خود الطاف حسین نے اپنے کارکنوں کو پر امن رہنے کی تلقین کی اور اپنا احتجاج صرف دھرنوں تک محدود رکھنے کا اعلان کیا۔ ایم کیو ایم کے اس اقدام کی شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جس نے تعریف نہ کی ہو۔ اور یقینا یہ فیصلہ قابل تعریف ہے بھی۔ یہ بات ہم بخوبی جانتے ہیں کہ حکومتی سطح پر بھی پاکستان برطانیہ کے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتا۔ اس کے علاوہ اسکاٹ لینڈ یارڈز ایک خود مختار ادارہ ہے اس وہاں کی حکومت بھی اس کے معاملات میں کم ہی مداخلت کرتی ہے۔ لہذا ایسا ہونا بظاہر نا ممکن ہے کہ یہاں سے اس کیس پر کوئی مداخلت ہو سکے۔ لہذا دانشمندانہ فیصلہ ہی یہی تھا کہ اس کیس کو بنیاد بنا کر اتنے بڑے صنعتی شہر کو بند کرنا کسی بھی صورت مناسب نہیں تھا۔ ایم کیو ایم کی سیاسی قیادت نے اس وقت تک جس رویے کا مظاہرہ کیا ہے یہ رویہ رہا تو وہ واقعی خود کو ایک ذمہ دار سیاسی قوت ثابت کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں ۔ایک ذمہ دارانہ رویہ ہی ایم کیو ایم کا سیاسی قد بڑھانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
اس کیس میں ایم کیو ایم پاکستان کی سیاسی جماعت کے طور پر کوئی کردار ادا کرنے کا ارادہ کر لے تو یہ شاید کوئی بہتر قدم نہ ہو کیوں کہ پاکستان کے ابتر حالات کو وجہ گردان کے برطانیہ اپنے قانون نہیں بدلے گا۔ اس معاملے میں ایم کیو ایم کو چاہیے کہ وہ اپنی ایک مضبوط قانونی ٹیم تشکیل دے جو الطاف حسین کو قانونی مدد فراہم کر سکے۔ اس کے علاوہ اس جماعت کو ہر طرح کے حالات سے ابھی سے تیار رہنا چاہیے۔ قائدین یقینا سیاسی جماعتوں کے لیے اہمیت رکھتے ہیں لیکن اگر کچھ عرصے کے لیے قائدین کو کڑے وقت کا سامنا کرنا پڑ جائے تو اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ سیاسی جماعت اپنے حواس کھو بیٹھے اور اپنے وجود کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت کو بھی نقصان سے دوچار کردے۔ اس کیس پر کسی بھی قسم کا ردعمل دینے سے پہلے تمام کارکنان سے گذارش ہے کہ یہ حقیقت ضرور مد نظر رکھیں کہ الطاف حسین برطانوی شہری ہیں۔ اور کوئی بھی ملک کم از کم اپنے ملک کے شہری کے ساتھ اپنے ملک کے قوانین کے مطابق سلوک کرتا ہے۔ لہذا یہ کہنا بے جا نہیں کہ اس معاشرے میں نا انصافی کی روایت نہیں ہے۔اس وقت تک ایم کیو ایم کی سیاسی قیادت جس روش پر چل رہی ہے اگر مستقبل میں بھی یہ رویہ رہا تو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ کراچی کے حالات انشاء اللہ پر امن ہی رہیں گے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
سید شاہد عباس کے کالمز
-
کیا یہ دُکھ بانٹنا ہے؟
جمعرات 17 فروری 2022
-
یہ کیسی سیاست ہے؟
منگل 28 دسمبر 2021
-
نا جانے کہاں کھو گئیں وہ خوشیاں
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
نیا افغانستان اور پاکستان
جمعہ 1 اکتوبر 2021
-
توقعات، اُمیدیں اور کامیاب زندگی
ہفتہ 10 جولائی 2021
-
زندگی بہترین اُستاد کیوں ہے؟
منگل 22 جون 2021
-
کیا بحریہ ٹاؤن کو بند کر دیا جائے؟
منگل 8 جون 2021
-
کورونا تیسری لہر، پاکستان ناکام کیوں؟
بدھ 26 مئی 2021
سید شاہد عباس کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.