
تبدیلی یا خواب؟
ہفتہ 4 اکتوبر 2014

سید شاہد عباس
(جاری ہے)
یہ صرف ایک خواب ہی رہے گا ۔کیوں کہ یہ سب فرضی کردار ہیں اور اگر اپنی سوچ کو بدلنے کا ارادہ نہیں کریں گے تو یہ فرضی کردار حقیقت کا روپ کبھی نہیں دھار سکتے کیوں کہ ان کرداروں کو حقیقت کا روپ دھارنے کے لیے ایک عام آدمی سے لے کر اس ملک کی اشرافیہ تک کہ ایک مصمم ارادہ کرنا ہو گا۔ اگلے پندرہ سال کے سیاسی منظر نامے پر نگاہ دوڑائیں تو ہمیں کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آتی۔ سندھ میں "بھٹوز" کا زور ٹوٹتا دکھائی نہیں دیتا۔ بلاول اپنے نام کے ساتھ بھٹو کا لاحقہ لگا کر مکمل اڑان بھرنے کی تیاری میں ہیں۔ پنجاب میں" میاں خاندان" پوری طرح حاوی نظر آتا ہے۔ حمزہ شہباز پنجاب کے غیر اعلانیہ سربراہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مریم نواز 100 ارب روپے کے منصوبے کی سربراہی سے سیاست میں پہلے ہی قدم رکھ چکی ہیں۔ بلوچستان میں" سردارانہ ملاپ" کے علاوہ کوئی نظام چلتا نظر نہیں آتاکیوں کہ جو ملا جلا رجحان س وقت ڈاکٹر عبدالمالک کی سربراہی میں کام کر رہا ہے اس میں تبدیلی کے آثار نہیں۔۔ خیبر پختونخواہ میں " ہوتی، مولانا، ولی" ایک طاقت رکھتے ہیں۔ لیکن افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ اگلے کم و بیش پندرہ سے بیس سال تک تبدیلی کے آثار نظر نہیں آ رہے۔ سندھ میں " بلاول" نے آئندہ الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا ہے۔ جب کہ پنجاب میں" محترمہ مریم " پہلے سے ہی سیاسی طور پر خود کو مضبوط کر رہی ہیں۔ خبیر پختوخواہ میں بھی ہوتی خاندان کے سپوت طاقت حاصل کر رہے ہیں جب کہ مولانا بھی ایک حلقہ اثر رکھتے ہیں اور ان کے بھائی بھی پہلے ہی سیاسی میدان میں آچکے ہیں۔ بلوچستان میں تو جو " چوں چوں کا مربہ "بنتا ہے اس کو کھانے کے لیے کسی نئے بندے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ۔ اس تمام صورت حال میں " عام آدمی " کہاں گیا؟ جو لوگ باہر سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے آتے ہیں ان کا کردار ملکی سیاست میں کہاں گم ہو گیا؟ وہ کاروباری طبقہ کہاں غائب ہو گیا جو زر مبادلہ ملک میں بھیجتا ہے؟
اصل تبدیلی حکمران و اقتدار کے باسی طبقے کے دل و دماغ سے یہ خیال نکالنا ہے کہ سیاست ان کے گھر کی باندی نہیں ہے۔ نہ ہی یہ کسی کی ذاتی جاگیر ہے جو کسی اور کو منتقل نہیں ہو سکتی ۔ بلکہ سیاست پر اس ملک کے پڑھے لکھے طبقے اور عام آدمی کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کسی بھی " چوہدری، ملک، میاں، مخدوم ، سردار، یا شاہ " کا۔ چند خاندان ہم پر سیاست ایسے کرتے ہیں جیسے عوام کوئی کیڑے مکوڑے ہو ں اور اسمبلی میں بیٹھ کر وہ عوام پر کوئی احسان کر رہے ہیں۔ تبدیلی اس سوچ کا نام ہے جسے آواز دینی ہو گی کہ عوام ان کے زرخرید نہیں نہ ہی وہ اپنے ذاتی خزانوں سے پیسہ عوام کی فلاح پر خرچ کرتے ہیں۔ بلکہ یہ تو عوام کے صرف "نوکر" ہیں کیوں کہ انہیں تنخواہ اسی پیسے سے ملتی ہو جو عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہوتا ہے۔ کاش یہ تبدیلی سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے ذہنوں میں آجائے کہ " کرسیء اقتدار" پر حق کسی "نواب ابن نواب ابن نواب " کا نہیں بلکہ اس عام سیاسی کارکن کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کسی چوہدری ، خان، وڈیرے کے بیٹے کا۔ سیاسی کارکن کیا صرف گلے پھاڑ کر نعرے لگانے کے لیے ہیں؟
ہر دفعہ ایک قصہ ذہن میں ابھرتا ہے اور اس بات پہ یقین پختہ ہو جاتا ہے کہ بزرگوں کی بیان کی گئی کہاوتوں و کہانیوں میں کوئی نہ کوئی سبق پوشیدہ ضرور ہوتا ہے۔ ایک گاؤں کا نمبردار جب قریب المرگ ہوا تو ایک میراثی کے بیٹے نے اپنی ماں سے پوچھا کہ ماں نمبردار کے مرنے کے بعد نمبردار کون بنے گا ۔ جس کے جواب میں ماں نے کہا کہ نمبردار کا بیٹا۔ بیٹے نے پھر سوال کیا کہ اس کے بعد ۔ ماں نے پھر جواب دیا ۔ اس کا بیٹا (موجودہ نمبردار کا پوتا)۔ بیٹے نے لگ بھگ بیسیوں دفعہ پوچھا تو ماں نے اتنی ہی دفعہ ایک ہی جواب دیا۔ بالآخر ماں نے بیٹے کا اضطراب پڑھتے ہوئے نرم الفاظ میں سمجھایا کہ بیٹا تم پریشان کیوں ہوتے ہو نمبردار مر بھی گیا تو نمبرداری ہمارے حصے میں نہیں آئے گی کیوں کہ یہ نمبردار کی نسل میں ہی رہے گی ۔کیوں کہ یہ نصف صدی کا قصہ ہے وطن عزیز کا۔ (اس کالم کے ذریعے ایک تصیح ضروری ہے کہ لفظ میراثی کو ہم نے حقیر بنا دیا ہے جبکہ حقیقت میں لفظ میراثی میراث سے نکلا ہے جس کا تعلق وراثت سے جڑتا ہے۔ لہذا کسی بھی روایت یا ثقافت کے امین میراثی(یعنی میراث رکھنے والے) کہلواتے ہیں اس لحاظ سے یہ ایک ادبی لفظ ہے نہ کہ کوئی حقیر لفظ یا اصطلاح)۔
پاکستان کا سیاسی نظام بھی اس وقت نمبرداری نظام کے تحت ہی چل رہا ہے۔ جس کی وجہ سے " سٹیٹس کو (Status qou)" کی سی صورتحال ہے۔ یعنی اگلے کئی سال نمبرداروں کی نسلیں ہی ہم پر قابض رہیں گی۔بھٹو کے بعد ایک اور بھٹو، میاں کے بعد ایک اور میاں، ولی کے بعد ایک اور ولی، مولانا کے بعد ایک اور مولانا، یعنی ہم نسل در نسل ایک ایسے نظام میں جکڑے ہوئے ہیں جس سے نکلنے کے لیے ہمیں تبدیلی اپنے دل سے شروع کرنا ہو گی ۔ سب سے پہلے تبدیلی سیاسی کارکنوں کو اپنے دل و دماغ میں لانا ہو گی کہ وہ اپنے اندر اپنی قیادت سے سوال کرنے کی جرات پیدا کریں کہ کیا سیاست پر ان کے بیٹوں، بیٹیوں، یاقریبی عزیزوں کا حق ہے؟ کیا وہ صرف نعرے لگانے کے لیے ہیں؟ کیا اپنی زندگیاں سیاسی پارٹیوں کے نام کر دینے والے کارکنان کی قسمت میں یہ آکسفورڈ لب و لہجے والے بچے ہی لیڈر کے طور پہ ہیں؟ یا پھر ان کی محنت کا صلہ یہی ہے کہ کسی حکمران کا بیٹا یا بیٹی ہی ان پہ راج کرے؟
اراکین اسمبلی کو ان کی غلطی کا احساس دلانا یقینا ایک احسن قدم ہے۔ جن کی وجہ سے تمام مسافروں کو پریشانی ہوئی۔ لیکن تبدیلی صرف جہاز سے اقتدار کے نشے میں گم سیاستدانوں کو اتارنے کا ہی نام نہیں ۔ بلکہ یہ ایک انفرادی عمل ہے۔ جس دن ہم نے تبدیلی کو انفرادی حیثیت میں اپنا لیا اس دن یقینا ایک ایسی تبدیلی کا آغاز ہو گا جس کو روکنا " نام نہاد جمہوریت کے نام لیواؤں" کے بس میں نہیں ہو گا۔ قرائن بتاتے ہیں کہ تبدیلی بے شک چھوٹے پیمانے پر ہی سہی لیکن اس کا آغاز یقینا ہو چکا ہے۔ اب یہ تبدیلی مثبت سمت جاتی ہے یا منفی اس کا انحصار بحثیت مجموعی قوم پر ہے کہ وہ اس آغاز کو کس سمت لے جاتے ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سید شاہد عباس کے کالمز
-
کیا یہ دُکھ بانٹنا ہے؟
جمعرات 17 فروری 2022
-
یہ کیسی سیاست ہے؟
منگل 28 دسمبر 2021
-
نا جانے کہاں کھو گئیں وہ خوشیاں
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
نیا افغانستان اور پاکستان
جمعہ 1 اکتوبر 2021
-
توقعات، اُمیدیں اور کامیاب زندگی
ہفتہ 10 جولائی 2021
-
زندگی بہترین اُستاد کیوں ہے؟
منگل 22 جون 2021
-
کیا بحریہ ٹاؤن کو بند کر دیا جائے؟
منگل 8 جون 2021
-
کورونا تیسری لہر، پاکستان ناکام کیوں؟
بدھ 26 مئی 2021
سید شاہد عباس کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.