رضاربانی۔۔۔ کیا میاں صاحب کی شکست؟

جمعرات 12 مارچ 2015

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

سینیٹ الیکشن میں حکمران جماعت نے پنجاب میں کلین سوئپ کیا تو پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے اتحاد نے سندھ میں صفایا کر دیا۔ بلوچستان میں بھی حکمران اتحاد نے کامیابی سمیٹی ۔ جب کہ خیبر پختونخواہ میں پاکستان تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کر لی ہے۔ بظاہر ان انتخابات میں کسی قسم کا بڑا اپ سیٹ دیکھنے کو نہیں ملا لیکن اس کے باوجود سینیٹ انتخابات وفاق میں حکمران جماعت کے لیے کوئی اچھا پیغام لے کر نہیں آئے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کو سینیٹ میں زیادہ نشستیں مل گئی ہیں لیکن زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے باوجود حکمران جماعت اپنا چیئرمین سینیٹ لانے میں ناکام رہی اور بادل نخواستہ رضا ربانی صاحب کی حمایت کا راگ الاپنا پڑا کیوں کہ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔

(جاری ہے)


پنجاب میں کسی بڑے اپ سیٹ کی توقع نہیں تھی۔ اس کے باوجود سب کی نظریں ندیم افضل چن صاحب پہ تھیں۔

اور حیران کن طور پر وہ توقع سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ان کے مخالفین کا کہنا تھا کہ وہ 8 سے 10 ووٹ ہی حاصل کر سکیں گے لیکن وہ تقریباً 27 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اور حکمران جماعت کے لیے لمحہء فکریہ ہے کہ ان کے ایم پی ایز نے بھی ندیم افضل چن کو ووٹ دیا ۔ ان کے نام شاید سامنے نہ آئیں لیکن جنوبی پنجاب کی محرومیاں کھل کہ سامنے آ رہی ہیں۔

اور شاید زرداری صاحب کا مقصد ہی ندیم افضل چن صاحب کو الیکشن جتوانا نہیں تھا بلکہ وہ شاید میاں صاحب کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ وہ جب چائیں چھید کر کے ان کے لوگوں کو ساتھ ملا لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اور میاں صاحب بھی یقینا اپنے بڑے بھائی کی صلاحیتوں کے اب پہلے سے بھی زیادہ معترف ہو جائیں گے۔ اور زرداری صاحب کی یہی صلاحتیں اگلے عام انتخابات میں ان کے لیے مزید مسائل بھی پیدا کر سکتی ہیں۔

سندھ کے لوگوں کو پنجاب سے جتوانا بھی میاں صاحب کے خلاف گیا ۔ شیخ رشید صاحب کے بقول ان سینیٹ انتخابات میں میاں صاحب نے ان کے حلقے پر خصوصی توجہ دی۔ لیکن شایدیہ توجہ میاں صاحب کے زیادہ حق میں اس لیے بھی نہیں جاتی کیوں کہ اس سے باقی علاقوں کو نظر انداز کیا گیا۔ اور ایسا کرنا یقینا حکمران جماعت کے لیے سود مند نہیں ہے۔ چن صاحب یہ کہتے ہوئے حق بجانب ہیں کہ اگر پاکستان تحریک انصاف پنجاب میں ووٹ ڈالتی تو یقینا حکمران جماعت کو ایک یا دو نشستوں سے ہاتھ دھونے پڑ جاتے۔


ہارس ٹریڈنگ ہوئی یا نہیں لیکن حکمران جماعت کو وہ نتائج نہیں مل سکے جن کی توقع سینیٹ انتخابات سے کی جا رہی تھی۔ اس کے علاوہ اختلافات بھی قدرے واضح ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ جیسے ندیم افضل چن صاحب کو ن لیگ کے ووٹ پڑے ۔اسی طرح بلوچستان میں بھی حکمران جماعت کو توقع کے مطابق نشستیں نہ مل سکیں۔اور حیران کن طور پر نواز لیگ کے سردار یعقوب ناصر صرف چھ ووٹ حاصل کر پائے اور آزاد امیدوار یوسف بادینی سے شکست کھا گئے۔

جان محمد جمالی پہلے شخص ثابت ہوئے جنہوں نے پارٹی کے برعکس اپنی بیٹی کو ووٹ دیا۔ کلثوم پروین صاحبہ کی نامزدگی سے حکمران جماعت پہلے ہی اختلافات کا شکار ہو گئی تھی۔ اور اس سلسلے میں خواجہ سعد رفیق کی کوششیں بھی کوئی معجزہ نہ دکھا سکیں۔ اور نتائج سے یہ بات واضح ہو گئی کہ نواز لیگ کے ایم پی ایز نے اپنی پسند کے امیدواروں کو ووٹ دیے جس کی وجہ سے بادینی صاحب جیت گئے۔

لہذا بلوچستان میں تین نشستیں حاصل کرنے کے باوجود نواز لیگ کی شکست ہی تصور کی جا رہی ہے۔ بلوچستان میں چھوٹی جماعتوں نے بھی جس طرح نشستیں حاصل کیں اس سے نوازلیگ کو اپنی شکست پہ عبرت حاصل کرنی چائیے۔ لیکن عبرت وہی حاصل کرتے ہیں جو عقلمندی دکھاتے ہیں۔
خیبر پختونخواہ میں ہنگامہ خیزی کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کامیاب ہو گئی ۔

حتیٰ کے پارٹی سے منحرف رکن صوبائی اسمبلی جاوید نسیم نے ووٹ کاسٹ نہ کر کہ یہ ثابت کیا کہ ہارس ٹریڈنگ نہیں کی گئی۔ اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود پولنگ کا عمل رات آٹھ بجے تک جاری رہا۔ اور کوئی ایس بڑا اپ سیٹ نہیں ہوا جس سے یہ تاثر ملے کہ پاکستان تحریک انصاف کو نقصان ہوا ہے۔
فاٹا کے حوالے سے صدارتی آرڈیننس نے ایک نیا پنڈوڑا باکس کھول دیا ہے ۔

اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ صاحب بھی اس پہ حکومت سے شکوہ کناں ہیں۔ یہ صدارتی آرڈیننس کسی ڈر کے پیش نظر آیا یا اس کی کوئی واضح وجہ بھی تھی اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا ۔ لیکن ایک بات عیاں ہے کہ فاٹا آرڈیننس لانے کی ایک وجہ اپنا چیئر مین سینٹ بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن ایسا کیوں کہ اب ممکن نہیں رہا اور رضا ربانی صاحب کی حمایت حکمران جماعت کی بھی کمزوری بن چکی ہے لہذا فاٹا میں الیکشن بھی اب شاید جلد ہی ہو جائیں۔

مزید برآں فاٹا کے بارے میں کوئی نہ کوئی فیصلہ کرنے کا وقت بھی شاید آن پہنچا ہے وہاں کے لوگوں کو حق دیا جائے اور ایک عوامی ریفرنڈم کروایا جائے جس سے وہاں کے لوگ خود فیصلہ کریں کہ آیا وہ خیبر پختونخواہ کا حصہ رہنا چاہیں گے یا ایک الگ صوبے کی حیثیت میں اپنی ایک الگ شناخت برقرار رکھنا چائیں گے۔ اب فاٹا کے ووٹ شاید اتنی اہمیت کے حامل نہیں رہے کیوں کہ رضا ربانی صاحب کی نامزدگی اور اب یقینی چیئرمین شپ کی صورت میں زرداری صاحب شائد میاں صاحب کو شکست دے چکے ہیں۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایک جمہوری عمل مکمل ہو گیا ہے۔ لیکن حکمران جماعت کا تھنک ٹینک یقینا ابھی تک دریائے حیرت میں ہی غوطہ زن ہو گا کہ زرداری صاحب ایک بار پھر ان پر بازی لے گئے۔
میاں صاحب کے نئے چیئرمین سینیٹ کے لیے رضا ربانی صاحب کی حمایت کے بیان کے بعد یارانِ نکتہ چیں ایک بار پھر سے میاں صاحب کے بڑے بھائی یعنی زرداری صاحب کی صلاحیتوں کے معترف ہو گئے ہیں۔

اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ ایک طرف زرداری صاحب نے پنجاب میں چن صاحب کو ووٹ ڈلوا کر میاں صاحب کو اپنی اہمیت کا احساس دلا دیا ہے اور دوسری طرف مولانا صاحب اور اے این پی کو ساتھ ملا کر نئے چیئرمین سینیٹ کے لیے ایسے حالات پیدا کر دیے کہ میاں صاحب کے پاس شاید رضا ربانی صاحب کی حمایت کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا۔یا شاید یوں کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ زرداری صاحب نے ایک ایسا کھلاڑی میدان میں بھیجا جس کی وجہ سے میاں صاحب نہ چاہتے ہوئے بھی گھٹنے ٹیکنے پہ مجبور ہو گئے۔

ایک عام پاکستانی کے لیے یہ بات یقینا باعث فخر ہے کہ جمہوری عمل مکمل ہوا۔ لیکن یارانِ عقل و دانش زیر لب دبی دبی سے مسکراہٹ لیے ہوئے ۔ کہیں اس مسکراہٹ کی وجہ یہ تو نہیں کہ حکمران جماعت ہوتے ہوئے بھی میاں صاحب شکست کا بوجھ کندھوں پہ لادھے ہوئے رضا ربانی صاحب کی حمایت کرنے پہ مجبور ہیں؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :