
بلدیات، انتخابات۔۔۔۔ خامیاں
جمعرات 17 دسمبر 2015

سید شاہد عباس
راقم کو خود حالیہ بلدیاتی انتخابات میں تین انتخابی حلقوں کے مشاہدے کا موقع ملا۔ اور کم و بیش ہر جگہ حالات ایک طرح کے نظر آئے۔
(جاری ہے)
اسی طرح پولنگ ایجنٹس کے لیے بھی ایک ضابطہ اخلاق جاری کیا گیا اور اس ضابطہ اخلاق کی شق3 میں درج تھا کہ پولنگ ایجنٹس پولنگ ایجنٹس کے اندر یا باہر 400 میٹر کی حدود تک کسی ووٹر کو بھی اپنے حامی امیدوار کے حق میں ووٹ ڈالنے کا نہیں کہہ سکتے ۔ لیکن اس کے برعکس پولنگ ایجنٹس پولنگ اسٹیشن کے اندر انتخابی عملے کے سامنے بھی ووٹروں کو نشانات دکھا کر یاددہانی کرواتے نظر آئے۔ اس ضابطہ اخلاق کی شق4 میں درج تھا کہ پولنگ ایجنٹ ہر اعتراض کے عوض مبلغ 50 روپے پریزائڈنگ افسر کے پاس جمع کروائے گا۔ اور شق5 میں یہ درج تھا کہ غیر ضروری اعتراضات کی اس لیے ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی کہ اس سے انتخابی عمل متاثر ہو گا۔ لیکن حیران کن طور پر تمام امیدواروں نے چن کر وہی لوگ اپنے پولنگ ایجنٹ نامزد کیے تھے جو علاقے میں جھگڑالو مشہور ہوں۔ اور ہر ووٹر پہ اعتراض کرنا اپنا فرض سمجھتے ہوں۔ اسی لیے ایک پولنگ اسٹیشن پہ ہر چند لمحے بعد توں تکار ہوتی رہی۔ شق 6 میں کہا گیا کہ پولنگ ایجنٹ کے لیے لازم ہے کہ وہ اعتراض کرتے ہوئے مہذب رہے اور پریزائڈنگ افسر سے لہجا دھیما رکھے۔ لیکن پولنگ ایجنٹ تو کجا امیدواروں کے حامی بھی پریزائڈنگ افسران کے سر پہ سوار نظر آئے۔ سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کے لیے جو ضابطہ اخلاق جاری ہوا اس کی شق 4میں ایک جگہ درج ہے کہ وہ پولنگ اسٹیشن کی حدود کے 200میٹرکے اندر کسی کو قائل نہیں کریں گے۔ لیکن راقم جس بھی جگہ گیا وہاں نہ صرف تمام امیدوار موجود تھے بلکہ پوری انتخابی مہم بھی پولنگ اسٹیشن کے اندر جاری رکھی ۔ شق 5 مطابق کسی بھی پولنگ ایجنٹ یا امیدوار کے لیے پولنگ اسٹیشن کی 100میٹر کی حدود میں کسی بھی قسم کا بینر ، اشتہار یا نشان لگانا ممنوع تھا جس سے ووٹر کو اپنی طرف راغب کرنے کا تاثر جا رہا ہو۔ لیکن اس کے بھی برعکس پولنگ اسٹیشن کے اندر بھی ایسی گاڑویں کی بھرمار تھی جن پہ امیدواروں کے اشتہارات آویزاں تھے۔ اور پولنگ ایجنٹس بھی قواعد کے برعکس نشان بتاتے رہے۔ ضابطہ اخلاق کے مطابق انتخابی پوسٹر کا سائز3x2فٹ جب کہ بینر کا سائز9x3فٹ سے تجاوز کرنے کی ممانعت تھی اور ہورڈنگز پر مکمل پابندی تھی۔ لیکن حیران کن طور پر 10x10اور25x50 کے بینر بھی آویزاں تھے۔ اور بل بورڈ ، سائن بورڈز اور روڈ سائٹ ہورڈنگز کا سہارا بھی لیا گیا۔ اور مزے کی بات یہ کہ پہلے ہورڈنگز انتخابی مہم کی تھیں اب شکریے کی نصب ہیں۔ اور ضابطہ اخلاق پر عمل کروانے والے خاموش تماشائی ہیں۔ شق 16 کے مطابق انتخابی امیدواروں و حمایت کرنے والوں پہ لازم تھا کہ وہ تنقید صرف کام اور پالیسیوں پہ کریں۔ لیکن یہاں بھی تمام امیدواران ایک دوسرے کی ذات کے بخیے ادھیڑتے نظر آئے۔اور جہاں تک تعلق ہے شق17 کا کہ خاندان کے افراد کے علاوہ ووٹر کو اپنی گاڑی میں لانا ممنوع تھا تو شاید پورا حلقہ ہی امیدواروں کا خاندان ہوتا ہے۔ شق 20 کے مطابق یونین کونسل چیئرمین و وائس چیئرمین01 لاکھ اور یونین کونسل کے ممبران20ہزار روپے تک کے انتخابی اخراجات کرنے کی اجازت تھی۔ لیکن ایک کونسلر کی سطح پہ بھی لاکھوں خرچ کیے گئے۔
یہ کہنا بے جا ہرگز نہیں ہو گا کہ جس کے لیے بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ضابطہ ء اخلاق جاری کیا گیا اس کی حیثیت صرف کاغذ میں سیاہی کی صورت رہی ورنہ عملی سطح پر ضابطء اخلاق کی دھجیاں اڑتی ہی نظر آئیں۔ نہ تو ووٹر وں کو اپنے حقوق کا پتا تھا۔ یا وہ جان بوجھ کہ انجان بنے بیٹھے تھے۔ نہ ہی امیدواران الیکشن کمیشن کی کسی شق کو خاطر میں لائے۔ اس بارے میں بھی ابہام ہی رہا کہ آیا سرکاری ملازمین کسی امیدوار کے پولنگ ایجنٹ کے فرائض سر انجام دے سکتے ہیں یا نہیں۔ اس کے علاوہ پولنگ ایجنٹ بلا جھجھک ضابطہء اخلاق کے برعکس کام کرتے نظر آئے۔ امیدوار نہ صرف پولنگ اسٹیشن کے اندر تک موجود رہے بلکہ انتخابی مہم بھی زوروں پہ رہی ۔
کسی بھی قسم کا ضابطہء اخلاق صرف اس صورت میں فائدہ مند ہو سکتا ہے جب اس پر عمل در آمد کا پورا ایک نظام موجود ہو اور عام عوام کے لیے اس ضابطہ ء اخلاق کی کسی بھی قسم کی خلاف ورزی فوری طور پر رپورٹ کرنے کی مکمل جانکاری ہو۔ اکثر سنتے آئے کہ الیکشن کو مانیٹر کرنے لیے ایک کنٹرول روم بنایا جاتا ہے لیکن آج تک اس کنٹرول روم کا حدود اربعہ نہ تو دیکھا جا سکا۔ نہ ہی عوام کو پتا ہے کہ اس کنٹرول روم کا مقصد کیا ہوتا ہے۔راقم کی طرح ہزاروں لوگوں نے لاکھوں خلاف ورزیاں دیکھی ہوں گی لیکن ان کو کسی ایسے نظام سے آگاہی نہیں جس کی مدد سے ان خامیوں اور خلاف ورزیوں کو اعلیٰ سطح پر رپورٹ کیا جا سکے۔ جب تک عوام میں یہ شعور نہیں بیدار کیا جائے گا کہ وہ کسی بھی سطح کی خلاف ورزی کو رپورٹ کر سکتے ہیں۔ اور خلاف ورزیوں کی نشاندہی کرنے کے نظام کر جب تک سہل نہیں بنایا جائے گا اس وقت تک نہ کوئی ضابطہ ء نافذ ہو سکتا ہے نہ ہی کسی بھی قسم کے انتخابات سے حقیقی معنوں میں عوام مستفید ہو سکتے ہیں۔ چہرے بدلتے رہیں گے۔ نام بدلتے رہیں گے ۔ لیکن نظام صرف اس وقت ہی تبدیل ہو گا ۔ جب ہم تبدیل کرنا چاہیں گے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سید شاہد عباس کے کالمز
-
کیا یہ دُکھ بانٹنا ہے؟
جمعرات 17 فروری 2022
-
یہ کیسی سیاست ہے؟
منگل 28 دسمبر 2021
-
نا جانے کہاں کھو گئیں وہ خوشیاں
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
نیا افغانستان اور پاکستان
جمعہ 1 اکتوبر 2021
-
توقعات، اُمیدیں اور کامیاب زندگی
ہفتہ 10 جولائی 2021
-
زندگی بہترین اُستاد کیوں ہے؟
منگل 22 جون 2021
-
کیا بحریہ ٹاؤن کو بند کر دیا جائے؟
منگل 8 جون 2021
-
کورونا تیسری لہر، پاکستان ناکام کیوں؟
بدھ 26 مئی 2021
سید شاہد عباس کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.