
جذبات اہم۔۔۔لیکن ٹیم بھی اپنی
بدھ 23 مارچ 2016

سید شاہد عباس
آفریدی کے بیان کے بعد پورا ملک تپا بیٹھا ہے۔
(جاری ہے)
صرف ایک لمحہ رک کر جائزہ لیں کہ سخت ٹینشن کے اس ماحول میں آفریدی کے بیان سے فرق کیا پڑا؟ اس بیان سے جہاں بظاہر پاکستانی قوم کو لگ رہا ہے کہ بناء سوچے سمجھا دیا گیا ہے۔ وہیں اس بیان کے بعد بھارتی رائے عامہ اور بھارت میں موجود شدت پسند عناصر آمنے سامنے آ گئے ہیں۔ کچھ بعید نہیں کہ اب اگر شدت پسندانہ بیان سامنے آتا ہے تو کچھ بعید نہیں کہ وہاں کے عوام ہی ان عناصر کے خلاف اٹھ کھڑئے ہوں گے جو کرکٹ کو روکنے کے درپے ہیں۔ پہلے دن بھارتی میڈیا نے آفریدی کے بیان کو کسی قدر تمسخرانہ انداز میں پیش کیا لیکن ایک دن بعد ہی یہ روش بدلتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ ساور گنگولی، سچن ٹنڈولکر، کپل دیو پاکستان کے حق میں بیانات دیتے نظر آ رہے ہیں۔ بے شک ان کے بیانات کرکٹنگ علم کے حوالے سے ہیں لیکن بہر حال آفریدی کے بیان کے بعد آئے۔ جیسے ٹنڈولکر نے کہا کہ پاکستان آسان حریف نہیں ہے اور محمد عامر اور وہاب جیسے ورلڈ کلاس باؤلر پاکستان کے پاس ہیں جو کسی بھی ٹیم کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ اب عمران خان بھی میچ دیکھنے جائیں گے۔ اور شنید ہے کہ سارو گنگولی انہیں ایک ایوارڈ سے بھی نوازیں گے۔ اب اگر عمران خان بھی محبت کا شکریہ ادا کریں تو کیا اس پہ بھی اعتراض ہو گا؟
ایک لمحے کے لیے آفریدی کو بطور کھلاڑی بھول جائیں اور صرف بطور قائد یاد رکھیں۔ جو ایک ایسے موقع پر کھلاڑیوں کی راہنمائی کر رہا ہے جب دہشت سی ہر سو پھیلی ہوئی ہے۔ میچ تک منتقل ہو چکا ہے۔ پچ اکھاڑنے کی دھمکی دی جا چکی ہے۔ ایسے موقع پر کیا وہاں کی رائے عامہ اپنے حق میں ہموار کرنے کے لیے بیان دیا بھی گیا ہے تو کیا کچھ ایساانہونا ہو گیا ہے جو پہلے نہیں ہوا؟ اتنی تنقید تو ماضی قریب میں پاکستانی شہریت چھوڑنے والے عدنان سمیع پہ نہیں ہوئی ۔عاطف اسلم یہاں بے سُرا کہلایا جاتا تھا۔ وہاں گیا تو ہمارا بھی ہیرو بن گیا۔ اسے سنگر ہم نے تو نہیں بھارتیوں نے ہی بنا کر واپس بھیجا۔ راحت آج راحت ہے تو اس میں دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ وہاں گا کر بنا۔ یہاں تو اس کوئی پوچھتا نہ تھا۔ عام بھارتی شدید تنقید کے باوجود بھی غلام علی سے تعلق چھوڑنے پہ تیار نہیں جب کہ یہاں کتنے لوگ ہیں جو انہیں اتنا والہانہ چاہتے ہیں۔یہاں کے ناکام پتے وہاں سے کامیاب گھوڑے بن کے آ جاتے ہیں تو ہمارے ہیرو بن جاتے ہیں۔ جذبات اپنی جگہ اہم ہیں لیکن یاد رکھیں ٹیم ہماری اپنی ہی ہے۔
خدارا! راقم بھی آفریدی کے بیان پر اختلاف رکھتا ہے اور اس کا پہلے شائع ہونے والے ایک کالم میں اظہار بھی کھلے لفظوں میں کر چکا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ آفریدی ٹیم نہیں پاکستان کا نمائندہ ہے۔ اسے ایسے سخت نا مساعد حالات میں بھی 15خاندانوں کا تحفظ بھی کرنا ہے۔ جانوں کا خطرہ درپیش ہو تو ایسے بیانات سے کوئی آسمان نیچے نہیں گر جاتا۔ ایک سیاہی کا قطرہ بھی وہاں ان کی طرف بڑھتا ہے تو کیا عزت رہ جائے گی پاکستانی دستے کی ؟ تمام ٹیم کو شہریار خان نے ملاقات میں آپشن دیا کہ کوئی بھی چاہے تو دورے سے انکار کر سکتا ہے۔ لیکن ایک بھی کھلاڑی نے انکار نہیں کیا۔ تنقیدی عناصر کو بھی ذرا انہی حالات میں وہاں بھیجیں تا کہ حالات کی سنگینی کا انہیں بھی اندازہ تو ہو۔ دست بدست عرض ہے کہ اگر آغاز سے پہلے ہی ایسا رویہ رکھیں گے تو جیت کا تصور بھی چھوڑ دیں۔ مہم شروع بھی نہیں ہوئی اور کھلاڑی ہماری اپنی وجہ سے ہی دباؤ میں آ گئے۔ تو آگے کیا ہو گا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سید شاہد عباس کے کالمز
-
کیا یہ دُکھ بانٹنا ہے؟
جمعرات 17 فروری 2022
-
یہ کیسی سیاست ہے؟
منگل 28 دسمبر 2021
-
نا جانے کہاں کھو گئیں وہ خوشیاں
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
نیا افغانستان اور پاکستان
جمعہ 1 اکتوبر 2021
-
توقعات، اُمیدیں اور کامیاب زندگی
ہفتہ 10 جولائی 2021
-
زندگی بہترین اُستاد کیوں ہے؟
منگل 22 جون 2021
-
کیا بحریہ ٹاؤن کو بند کر دیا جائے؟
منگل 8 جون 2021
-
کورونا تیسری لہر، پاکستان ناکام کیوں؟
بدھ 26 مئی 2021
سید شاہد عباس کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.