
خبری خبر نہ دے؟
اتوار 11 دسمبر 2016

سید شاہد عباس
(جاری ہے)
پاکستان میں میڈیا نے جس تیزی سے ترقی کی ہے اسی تیزی سے تنزلی بھی کی ہے۔
پنچائیت یعنی پیمرا کی تازہ ترین کاروائی نیو ٹی وی جیسے مضبوط چینل کو نشانہ بنانا ہے۔ نشانہ بنانا اس لیے کہ اگر اس کے کسی ایک اینکر، کسی ایک پروگرام، کسی ایک شخصیت، یا کسی فقرے، جملے، پیراگراف، ٹائم سلاٹ سے کسی بھی قسم کا کوئی مسلہ تھا تو اس کی پاداش میں اس طرح پورے چینل کو بند کر دینا کسی بھی طرح سے انصاف پر مبنی نہیں ہے۔ پیمرا کی لاٹھی نے یہ دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا کہ کتنے چولہے بند ہو جائیں گے۔ ہر شخص چینل میں ایسا اینکر ہی نہیں ہوتا کہ لاکھوں میں تنخواہ لے۔ بلکہ وہاں ایک مالی، چوکیدار، خانساماں سے لے کر اعلیٰ عہدوں تک بہت سے لوگ کام کر رہے ہوتے ہیں۔ اور پاکستان میں کھمبیوں کی طرح اگنے والے چینلز پہلے ہی جس طرح اب ملازمین کو تنخواہ کے لیے رول رہے ہیں ان حالات میں ایک چینلز جو اپنے ملازمین کا خیال رکھ رہا اس پہ اس طرح کی قدغن لگانا ہرگز بھی قابل توجیح نہیں ہے۔ جن لوگوں کو خوش فہمی تھی کہ ایک صحافی پیمرا کا چیئرمین بن جانے سے نہ صرف صحافیوں کی مشکلات حل ہوں گی بلکہ چینلز کے مسائل بھی حل ہوں گے۔ مگر اس وقت بھی راقم کا خیال تھا اورآج بھی ہے کہ جب تک عہدے اندھے کی ریوڑیوں کی طرح بانٹے جا تے رہیں گے تب تک صورت حال بہتر نہیں ہو سکتی۔ نیو ٹی وی کے بارے میں ایک تاثر یہ تھا کہ ملازمین کو وقت پہ معاوضے اور سہولیات ملتی ہیں۔ مگر پیمرا کی لاٹھی کی زد میں بھلا ملازمین کا مفاد کیوں کر بچ سکتا ہے۔
نیو ٹی وی ہو یا دن نیوز یا کوئی بھی اور میڈیا چینل ، پیمرا کے ارباب اختیار سے صرف اتنی سی گذارش ہے کہ بطور مجموعی تو آپ کو نشان جرات عطا کرنا چاہے ان چینلز کو کہ تمام عالمی خطرناک جائزوں اور تجزیوں کے باوجود یہ اس جانفشانی سے ناؤ گھسیٹ رہے ہیں۔ کہنے کو تو یہ ریاست کا چوتھا سکون ہے مگر جس طرح نیو ٹی وی پر حالیہ اور ماضی میں چینلز پر پابندی لگتی رہی ہے اس سے تو یہ کوئی ستون بھی محسوس نہیں ہو رہا۔ ایسا لگتا ہے کہ میڈیا کو وہ لے پالک بیٹا مان لیا گیا ہے جو اپنے سائبان کے بعد بے یارو مددگار ہو گیاہے۔ خدارا اپنے فیصلوں سے صرف ایک پروگرام ، شخصیت، یا مخصوص ٹائم سلاٹ پر پابندی لگائیں، مگر لوگوں کے چولہے بند نہ کیجیے۔
خبری جب اکیلا تھا تو اختیارات بھی اسی کے پاس تھے۔ جب خبری زیادہ ہو گئے ہیں تو اب کچھ برداشت کا مادہ بھی پیدا کیجیے۔اب ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ آپ کا من چاہا خبری ہی خبر دے اور باقی خبریں منہ پہ مفاد ، آنکھوں پہ غرض کی پٹی باندھے خاموش بیٹھے رہیں۔ خبری کا کام خبر دینا ہے تو کیا آپ چاہتے ہیں ایک کے علاوہ باقی خبری خبر بھی نہ دیں؟ توصیف قبولنے کی روایت تو پرانی ہے مگر ذرا تنقید کو قبولیت کی سند دینے کی روایت بھی اپنا لیجیے۔ اللہ آپ کو مزید بہتر فیصلوں کی توفیق دے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سید شاہد عباس کے کالمز
-
کیا یہ دُکھ بانٹنا ہے؟
جمعرات 17 فروری 2022
-
یہ کیسی سیاست ہے؟
منگل 28 دسمبر 2021
-
نا جانے کہاں کھو گئیں وہ خوشیاں
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
نیا افغانستان اور پاکستان
جمعہ 1 اکتوبر 2021
-
توقعات، اُمیدیں اور کامیاب زندگی
ہفتہ 10 جولائی 2021
-
زندگی بہترین اُستاد کیوں ہے؟
منگل 22 جون 2021
-
کیا بحریہ ٹاؤن کو بند کر دیا جائے؟
منگل 8 جون 2021
-
کورونا تیسری لہر، پاکستان ناکام کیوں؟
بدھ 26 مئی 2021
سید شاہد عباس کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.