
اجڑتی درسگاہیں، ذمہ دار کون؟
پیر 13 نومبر 2017

سید شاہد عباس
(جاری ہے)
پاکستان کی بد قسمتی یہ رہی ہے کہ یہاں تعلیمی ادارے تو لاتعداد ہیں مگر ان تعلیمی اداروں میں تعلیم کا معیار اور درسگاہوں کی انتظامیہ کا حال ایسا ہے کہ پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل طلبہ و طالبات کو عالمی تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے لیے مزید جانچ کی چھلنی سے گزرنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی ادارے معاشرے میں تعمیر کا سبب بننے کے بجائے ہر گزرتے دن کے ساتھ ایسی سمت جا رہے ہیں کہ جہاں یہ درسگاہیں کم اور سیاسی نرسریاں زیادہ ثابت ہو رہے ہیں۔ سندھ یونیورسٹی میں حالیہ طلباء و اساتذہ کا آمنے سامنے آنا ہو یا این ای ڈی یونیورسٹی کے اعلیٰ دماغوں کا تخریبی سرگرمیوں میں ملوث ہونا، کسی بھی طرح سے پاکستان میں تعلیم کے فوائد سامنے اس سطح پہ نہیں آرہے جس حد تک توقعات ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی سے کچھ عرصہ قبل معلمین کے ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے شواہد سامنے آئے کہ جس سے معاشرے میں بربادی پھیلنے کے خدشات کا اظہار کیا گیا تھا۔ لیکن ہم شاید کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے کو ہی کارکردگی سمجھنا شروع ہو گئے ہیں اسی لیے حالیہ دنوں میں وفاق کے قلب میں قائد اعظم محمد علی جناح کے نام سے منسوب درسگاہ قائد اعظم یونیورسٹی میں ہونے والی ہنگامہ آرائی اور بعد ازاں ایک طالبعلم یونین کی طرف سے احتجاج اور ہڑتال کی راہ اپنانے پہ بھی ہم نے ہوش کے ناخن نہیں لیے۔ اور آج حالات اس نہج پہ ہیں کہ پاکستان کی بڑی درسگاہوں میں شمار ہونے والے یہ یونیورسٹی رسہ کشی کا میدان بنی ہوئی ہے۔
چند ماہ پہلے دو گروہوں میں ہونے والے تصادم کے بعد سے اس درسگاہ کے حالات سدھر نہیں پائے۔ اس ہنگامے کے نتیجے میں ایک ہی گروہ کے طالبعلموں کو درسگاہ سے نکال دیا گیا(جنہیں ہفتوں کے احتجاج کے بعد اب جا کے بحال کیا گیا ہے)۔ جس نے احتجاج کو ہوا دی ۔ چاہے نکالے جانے والے طالبعلم قصوروار تھے یا نہیں اس بحث سے قطع نظر انتظامیہ نے اس پورے معاملے کو اس طرح سے حل کرنے کی کوشش کی کہ یہ ایک مخصوص طلبہء تنظیم کے خلاف کاروائی ہی محسوس ہوئی۔ ہڑتالی طالبعلموں سے بے شک بطور لکھاری اختلاف ، مگر جس طرح نوروز جان اور صدام بلوچ یسے طالبعلم بھوک ہڑتال کے ہاتھوں ہسپتال تک جا پہنچے ہیں اس سے یہ کہنا ہرگز خام خیالی نہیں کہ انتظامیہ اس پورے معاملے کو لسانی و قومیت کا رنگ دینے میں برابر کی ذمہ دار ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ طالبعلموں کا باہمی اختلاف ایک ایسی نہج پہ پہنچ گیا کہ اس کو صوبائیت کا رنگ ملنا شروع ہو گیا ۔ جس طرح سے طالبعلموں کے خلاف طاقت کا استعمال کیا گیا، اور جس انداز سے کامران بلوچ کی سربراہی میں طلبہ تنظیم بلوچ طلبہ کونسل کو الگ تھلک اور مٹھی بھر ظاہر کیا گیا اس سے معاملات حل ہونے کے بجائے ایک ایسا رخ اختیار کر گئے تھے کہ ایسا محسوس ہو رہاتھا کہ انتظامیہ مکمل طور پر اس نازک معاملے سے بے خبر رہی کہ کس طرح درسگاہ کے اندر کا ایک اختلاف صوبوں کی محرومیوں کا سایہ محسوس ہونے لگا ۔ ثناء اللہ بلوچ صاحب کی صدر پاکستان سے ملاقات، ایوان میں اس معاملے کی گونج، رضا ربانی صاحب کا اس معاملے کا نوٹس لینا سب عوامل ظاہر کرتے ہیں کہ سیاسی بنیادوں پر اعلیٰ عہدوں پر تعیناتیاں کیا دن دکھاتی ہیں۔
اس پورے معاملے میں جہاں قصوروار طالبعلم تھے وہیں قدرے زیادہ قصور انتظامیہ و صاحبان اختیار کا تھا کہ انہوں نے دو گروہوں کے درمیان جھگڑے میں اس قدر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا کہ ابتداء سے ہی تمام کاروائی مخصوص گروہ کے خلاف محسوس ہونا شروع ہو گئی اوطلباء بھوک ہڑتال جیسے انتہائی قدم تک پہنچ گئے۔ اور وہ اپنے حقوق درسگاہ کا طالبعلم ہونے کے ناطے نہیں بلکہ بلوچ ہونے کے ناطے مانگنا شروع ہو گئے۔ نہ جانے کیسے لوگ اختیارات پہ بٹھا دیے گئے ہیں کہ جو پاکستان کی درسگاہوں میں پاکسانیت کا پرچار کرنے کے بجائے صوبائیت کو ہوا دینے کا سبب بن رہے ہیں۔ جس سے پہلے ہی وطن کو شدید نقصان پہنچ چکا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سید شاہد عباس کے کالمز
-
کیا یہ دُکھ بانٹنا ہے؟
جمعرات 17 فروری 2022
-
یہ کیسی سیاست ہے؟
منگل 28 دسمبر 2021
-
نا جانے کہاں کھو گئیں وہ خوشیاں
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
نیا افغانستان اور پاکستان
جمعہ 1 اکتوبر 2021
-
توقعات، اُمیدیں اور کامیاب زندگی
ہفتہ 10 جولائی 2021
-
زندگی بہترین اُستاد کیوں ہے؟
منگل 22 جون 2021
-
کیا بحریہ ٹاؤن کو بند کر دیا جائے؟
منگل 8 جون 2021
-
کورونا تیسری لہر، پاکستان ناکام کیوں؟
بدھ 26 مئی 2021
سید شاہد عباس کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.