ہماری بدحالی اور پریشانی کی بنیادی وجہ

پیر 2 اگست 2021

Syed Shakeel Anwer

سید شکیل انور

ایک عرصہ دراز تک مَیں اِس سوال پر غور کرتا رہا کہ ہم پاکستانی اَلله رسول کے ماننے والے ہیں ۔گاہے بگاہے دعا درود بھی ہم کرتے رہتے ہیں اور گیارہویں بارہویں کا نیاز فاتحہ کرنے سے ہم کبھی چُوکتے نہیں ہیں پھر ہم زبوں حالی کا شکار کیوں ہوتے جارہے ہیں۔امریکہ ‘ برطانیہ ‘ کناڈا‘ چین اور جاپان والوں میں ایسی کیا بات ہے کہ اَلله تعالیٰ اُن سے خوش ہے ۔

اُن ممالک کے رہنے والے نہ تو خوراک کے حصول کے لیے بہت زیادہ پریشان ہوتے ہیں ‘نہ تو اُنھیں اپنے بچّوں کی تعلیم کے لیے فکرمند ہونے کی حاجت ہوتی ہے اور نہ وہ علاج معالجے کے لیے کسی الجھن میں مبتلا ہوتے ہیں۔اِس پیچیدہ سوال پر مَیں برسوں غور کرتا رہا لیکن جواب سے محروم رہا۔
ایک رات سوتے ہوے مجھے ایسا محسوس ہُوا جیسے کوئی مجھ سے سرگوشی کر رہا ہو۔

(جاری ہے)

کہنے والے نے کیا کہا مَیں اُسی کی زبانی سناتا ہُوں: ” تیرا یہ سوال کہ تیرے ملک کے لوگ اَلله رسول کو مانتے ہیں پھر بدحال کیوں ہیں اور دیگر ممالک میں رہنے والے لوگ تین بڑے گناہ کرتے ہیں‘ وہ شراب پیتے ہیں ‘ جُوا کھیلتے ہیں اور زنا بالرّضا کا ارتکاب کرتے ہیں پھر بھی وہ آسودہ حال کیوں ہیں۔جن ممالک کے لوگوں کی خوشحالی کا تُو ذِکر کر رہا ہے ‘ وہ لوگ خواہ سرکاری سطح پرہیں یا انفرادی اور نجی سطح پر اپنی زندگی گزار رہے ہیں وہ تیرے بتلائے ہوے تین بڑے گناہ کرتے ہیں جو یقیناً بہت بڑے گناہ ہیں۔

غور کرنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اِن جرائم کا تعلق اَلله تعالیٰ سے ہے چنانچہ روزِ حشر اَلله تعالیٰ اُن سے حساب کتاب ضرور کرے گا اور اُنھیں کڑی سزائیں دے گا۔تم لوگ اِس حال کو اِس لیے پہنچے ہو کہ تم حقوق العباد کی پامالی کرتے ہو۔کسی سے وعدے کرتے ہو اور پورے نہیں کرتے ہو۔جھوٹ تم بولتے ہو ۔کسی کی غیبت کرنے اور چغلی کھانے میں تم کو نہ جانے کیا لطف ملتا ہے۔

ایک دوسرے کو فریب دیتے ہوے تم کو شرم نہیں آتی ہے۔خوراک ہو یا ضروریاتِ زندگی کی دیگر اَشیاء ‘ حتّٰی کہ دُودھ اور دواؤں میں بھی تم ملاوٹ کرتے ہو۔ تمہارے اِن گناہوں کا تعلق چونکہ بندوں سے ہے اِس بنا پر اَلله تعالیٰ نے تم سے اپنا مُنہ موڑ رکھا ہے اور اپنی نعمتوں سے تم کو محروم کر رکھا ہے۔عوام جو کچھ کرتے ہیں اور تمہارے ملک میں کیا کچھ ہوتا چلا آرہا ہے‘ اِن باتوں سے تم بخوبی واقف ہو۔

تمہارے خواص کا رنگ ڈھنگ اور بھی نرالا ہے۔سیاستدان جلسے اور جلوسوں میں ایک دوسرے کو ایسے بُرا بھلا کہتے ہیں جیسے وہ اُن کے پیدائشی دشمن ہوں اور کسی تقریب میں ان کی ملاقات کا منظر تم اگر دیکھو تو ہنسے بغیر نہ رہ سکو‘ وہ ایسا رومانوی انداز اختیار کرتے ہیں جیسے کوئی دولہا اپنی دلہن سے پہلی بار مل رہا ہو۔وہ ایک دوسرے کی رکابیوں میں مرغی اور مچھلیوں کا تبادلہ کرتے ہیں اور ایک ہی پلیٹ میں میٹھا لے کر کھاتے ہیں اور خوش گپیاں کرتے ہیں۔

یہی حال سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کا ہے‘ وہ طبیعت کی خرابی کا حیلہ کرکے اسکول تو نہیں جاتے ہیں لیکن اپنے گھروں میں ٹیوشن سینٹر چلارہے ہوتے ہیں۔سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کی بھِیڑ لگی ہوتی ہے اور ڈاکٹر یا تو سرے سے غائب ہوتے ہیں یا کسی گوشے میں بیٹھ کر اخباراور رسائل پڑھ رہے ہوتے ہیں۔بعض مولویوں اور واعظوں کا یہ دستور بن چکا ہے کہ وہ اپنی تقریروں میں حور اور غلماں کا ذکر تو بہت لہک لہک کر بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں فلاں ایک آیت یا سورة پڑھ لینے سے جنّت میں داخلہ لازمی ہوجاتا ہے اور کسی کو شب برات اور رمضان کی خبر دے کر جہنّم کی آگ سے بچا جاسکتا ہے۔

وہ یہ نہیں کہتے ہیں کہ نہ تو خود کسی پر ظلم کرو اور نہ کسی ظالم کو اپنا دوست بناؤ۔ بناوٹ اور ملاوٹ سے گریز کرو اور کسی کا دل مت دُکھاؤ۔اپنے محلّے داروں سے ایسابرتاؤ کرو جیسے وہ تمہارے بھائی ہیں۔
آؤ اب اُن ممالک کا جائزہ لیتے ہیں جہاں خوشحالی ہے۔وہاں کے رہنے والے شراب کے نشے میں دھت ہونے کے باوجود سڑکوں اور گلیوں میں نہ تو شور شرابہ کرتے ہیں اور نہ ایک دوسرے کا گریبان کھنچتے ہیں۔

کچھ لوگ تقریبات میں اپنے معدے سے لے کر اپنی گردن تک مختلف اقسام کی شراب بھر لیتے ہیں لیکن صبح ہونے پر اپنے کارخانے اور دفاتر وقت پرپہنچ جاتے ہیں۔جج ایک طرف کلبوں میں بیٹھ کر اٹکھیلیاں کرتا ہُوا دکھائی دیتا ہے لیکن اپنی کرسی پر جب وہ بیٹھتا ہے تب انصاف کرتا ہے۔وہاں کے کاروباری عناصر جس چیز کا اور جتنے کا سودا کرتے ہیں اپنے گاہکوں کو وہی چیز دیتے ہیں۔

وہ اپنے گاہکوں کو جو کچھ دِکھلاتے ہیں اُسے وہی چیز دیتے ہیں۔وہاں کے خوشحال لوگ دوسروں کو بدحال کرنے کا خیال بھی اپنے دل میں نہیں لاتے ہیں۔وعدے اور وقت کی قیمت تمہارے نذدیک کچھ بھی نہیں ہے جبکہ خوشحال لوگ وعدوں اور وقت کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔وہ وطن کو اپنا گھر سمجھتے ہیں اور تم اپنے گھر کو اپنا وطن سمجھتے ہو۔کسی سیانے نے کیا خوب کہا ہے کہ دنیا کو ایسے سجاؤ جیسے یہ ہمیشہ قائم رہے گی لیکن اپنے گھر کو ایسے بناؤ جیسے کل تمہیں اِسے چھوڑکر چلا جانا ہے۔“
میرے سوال کا جواب شافی تھا اور اِس میں بحث طلب کوئی بات نہ تھی چنانچہ مجھے ایک گونہ اطمینان حاصل ہوگیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :