اُس کی ایمانداری اُسے مبارک ‘ ہمیں تو روٹی چاہیے

ہفتہ 7 اگست 2021

Syed Shakeel Anwer

سید شکیل انور

صدرِ پاکستان عارف علوی صاحب میں جو بصیرت تھی وہ سب پر عیاں ہوچکی ہے۔ ان کا گھر کراچی اجڑتا چلا جارہا ہے اور لوگ آب آب کرتے ہوے دکھائی دے رہے ہیں ۔سمندر کے کنارے بسے ہوے بے شمار شہر ہیں جہاں سمندر کے پانی کو قابلِ استعمال بناکر پچیس پچیس اور تیس تیس منزلہ عمارتوں کو فراہم کیا جارہا ہے اور ہمارے حکمران بقول شاعر:
لبِ دریا کھڑے رہے دونوں
وہ بھی پیاسا تھا مَیں بھی پیاسا تھا
وزیرِآعظم جناب عمران خان صاحب کی ایمانداری اور دیانتداری میں کچھ شبہ نہیں ہے لیکن اُن کی ایمانداری اُنھیں جنّت میں لے جانے کی موجب اُس وقت ہوتی اگر وہ اپنی زندگی انفرادی طَور پر ایمانداری کے ساتھ گزار رہے ہوتے ‘ اُن پر تو پوری قوم کو خوراک‘ لباس اور علاج معالجے کی ذمہ داری عاید ہوچکی ہے۔

(جاری ہے)

وزیرِآعظم صاحب اپنی اِن ذمّہ داریوں کو اگر اچھی طرح نبھا کر دنیا سے رخصت ہوے تو جنّت میں حور وغلماں اُن کا استقبال ضرورکرینگے لیکن آں جناب نے بھی قوم کے ساتھ ماضی کے حکمرانوں جیسا برتاؤ اور مذاق کیا تو اُن کو جنّت کی اوٹ میں کردیا جائے گا ‘ مزید سلوک اُن کے ساتھ کیا اور کیسا ہوگا یہ غیب کی باتیں اُسی وقت پر ظاہر ہونگیں۔کہنے کی بات یہ ہے کہ عمران خان صاحب نے قوم سے جو وعدے کر رکھے ہیں وہ وعدے ہنوز تشنہ تعبیر ہیں۔


ایماندار ہونے اور ایمانداری کے ساتھ کام کرنے میں بڑا فرق ہے ۔ کوئی شخص خواہ وہ بہت ہی ایماندار ہو لیکن وہ اپنے فرائضِ منصبی پورے نہ کرتا ہو یا جو ذمّہ داریاں اُسے سونپی گئی ہوں وہ اُن ذمہ داریوں کو پوری کرنے کا اہل نہ ہو تو کیا اُسے عہدے پر برقرار رکھا جانا چاہے۔پاکستانی قوم اگرچہ یہ سوال باآوازِ بلند نہیں کر رہی ہے لیکن چہ مگوئیاں شروع ہوچکی ہیں اور لکھاریوں نے لکھنا شروع کردیا ہے۔

مجھے اِس بات کا اعتراف ہے کہ عمران خان صاحب نہ تو گھپلے باز ہیں اور نہ وہ پیسوں کے پیچھے بھاگنے والے آدمی ہیں لیکن جس منصبِ جلیلہ پر وہ متمکن ہیں وہاں اُن کی کارکردگی قابلِ ستائش نہیں ہے۔اُن کو شاید یہ معلوم نہیں ہے کہ پسِ دیوار دیکھنے کے عمل کو سیاست کہتے ہیں۔انتخابات میں حصّہ لیتے ہوے وہ اگر یہ جان لیتے کہ ملکی خزانے کی بوریاں غائب ہوچکی ہیں اور اُنھیں خزانے کے حصول کے لیے عوام پر طرح طرح کے ٹیکس لگانے کی حاجت ہوگی‘ پٹرول ‘ بجلی گیس کے نرخ اُنھیں بڑھانے ہونگے اور نتیجتاً خوردو نوش کی چیزیں ازخود مہنگی ہوجائیں گی۔

جناب وزیرِ آعظم کو یہ بھی جاننا چاہیے تھا ہمارے ملک کی عدالتوں کا رجحان ضمانتوں کی طرف زیادہ ہے اور انصاف کرنے میں بڑی قانونی موشگافیاں اُن کے آڑے آتی ہیں۔جبکہ قانون سازی کے اداروں میں خود غرض اور خود پسند لوگ قابض ہیں۔اناج اُگانے والے اور اناج بیچنے والے دونوں ہی دیانت‘ امانت اور صداقت کے درس سے ناآشنا ہیں۔عوام کی رہنمائی کے دعوے دار ایمانداروں کے دست وبازو بننے کے بجائے اُن کی ٹانگیں کھینچنے میں لطف محسوس کرتے ہیں۔

ملک کے آئین اور قانون میں غلط سلط ترامیم کرنے والے عناصر کی تو بہتات ہے لیکن قومی امنگ اور اُس کی بھلائی کے قوانین کی پاسداری اور نفاذ کا خیال بہت کم لوگوں کو ہے جو صرف اشارے ہی کرسکتے ہیں۔اِس صورت حال میں اقتدار کے بھنور میں کودنا کوئی دانشمندی کا عمل تو نہیں کہلائے گا۔اقتدار حاصل کرنا جتنا مشکل ہے اُس سے زیادہ مشکل اقتدار کو قائم رکھنے کا عمل ہے۔

اقتدار نوکری اور ملازمت سے زیادہ کٹھن کام ہے کیونکہ نوکروں اور ملازموں کو چند مالکان سے واسطہ پڑتا ہے جبکہ اقتدار کا سنگھاسن متعدد افراد کے کاندھوں پر ہچکولے کھاتا رہتا ہے نہ جانے کسی کو کب اونگھ آجائے یا کوئی کسی بات پر بھڑک اٹھے اور سنگھاسن دریا بُرد کردے۔
وفاق سے زیادہ برا حال سندھ کے حکمرانوں کا ہے۔ رکشہ اور ٹیکسی چلانے والوں سے بات چیت کرتے ہوے جب حکمرانوں کا ذِکر آتا ہے تب وہ یہ کہتے ہوے شاید شرماتے ہیں کہ کراچی کی سڑکوں میں جا بجا گڑھے پڑے ہوے ہیں اور گٹر ڈھکنوں سے محروم ہیں اِس لیے وہ گاڑی محطاط ہوکر چلاتے ہیں‘ وہ زیرِ لب پہلے کچھ بُڑبُڑاتے ہیں پھر طنزیہ انداز میں کہتے ہیں کہ ہم گاڑی اِس لیے سنبھل سنبھل کر چلاتے ہیں تاکہ ریشمی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ نہ جائیں۔


سندھ کا وزیرِآعلیٰ وزیرِآعظم کو اور وفاق کو ایسے بُرا بھلا کہتا ہے جیسے ملک میں مہنگائی اور ٹوٹی پھوٹی ہوئی سڑکوں کا وہ قطعئی ذمّہ دار نہیں ہے۔اگر وفاق کی طرف سے چینی اور آٹا مہنگے داموں فراہم کیا گیا ہے تو کیا ایسا علاقوں کی سطح اور بنیاد پر کیا گیا ہے۔ایک ہی شہر میں چیزوں کی مختلف قیمتیں کیوں ہیں۔انتظامیہ کے پچیس افراد کے دائرہ کار کیا ہیں اور یہ لوگ مہنگائی کو قابو کرنے کی صلاحیتوں سے محروم کیوں ہیں۔ملک میں علاج معالجوں کی اور غذا کی فراہمی صرف وفاق کی ذمہ داری ہے اور صوبائی حکومتیں ہائے! ہائے کرنے اور وفاق کو دشنام دینے کے لیے تشکیل دی جاتی ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :