پولیس اور عدالتیں تربیّت کی متقاضی ہیں

ہفتہ 4 ستمبر 2021

Syed Shakeel Anwer

سید شکیل انور

ہندوستان میں شائع ہونے والے ایک رسالے میں ایک مضمون پڑھا تھا وہ کچھ یوں تھا:
” ایک نیوز اینکر نے ایک پولیس افسر سے پوچھا کہ نقلی پستول یا بندوق دکھلاکر کسی کو اگر ڈرایا دھمکایا جائے تو کیا یہ غیر قانونی عمل ہوگا ؟افسر صاحب نے جواب میں فرمایا کہ وہ اصلی اور نقلی پستول یا بندوق پہچان لیتے ہیں۔اُس عقلمند افسر کو یہ کہنا چاہیے تھا کہ کسی کو کسی بھی طرح ہراساں کرنے اور ڈرانے دھمکانے کا عمل غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہے۔

یہ قانون صرف ہندوستان اور پاکستان میں ہی رائج نہیں ہے ‘ دنیا کے تمام ممالک اِس اصول پر اتفاق کرتے ہیں کہ کسی کو زبان سے کچھ کہہ کر یا محض انگلی سے اشارے کرکے بھی ڈرانا اور دھمکانا نہیں چاہیے۔
پولیس افسر کو چونکہ یہ معلوم نہ تھا کہ نقلی اوزار یا کسی ہتھیار کو دکھلاکر کسی کو ڈرانا دھمکانا قابلِ دست دازی پولیس ہے۔

(جاری ہے)

مذکورہ جملے کی ادائیگی میں بیچارے پولیس افسر کا قصور کم ہے اور اداروں کا قصور زیادہ ہے کیونکہ کوئی آدمی ویسی ہی باتیں کہے گا جتنی اُس کی صلاحیت ہوگی۔

پیپر دے کر نوکری حاصل کرنا اور بات ہے جبکہ پرچی دے کر نوکری پکڑنا اور عمل ہے۔
انتظامیہ کے نمائندے اور پارلیمان کے اراکین پولیس کی بھرتی کرنے کے لیے مشاورت کر رہے تھے ‘ پارلیمان سے وابسطہ ایک رکن نے رائے دی کہ ملک میں موجود تمام چوروں اور ڈاکوؤوں کو پولیس میں بھرتی کرلیا جائے۔پھر نہ تو چور اور ڈاکو باقی بچیں گے اور نہ ملک میں چوریاں یا ڈکیتیاں ہونگیں۔

دوسرے رکن نے سوال کیا کہ یہ کیسے پتہ لگایا جائے گا کہ کس شہر میں کتنے چور اور کتنے ڈاکو ہیں اور یہ کہ انھیں پولیس میں بھرتی کرنے کے لیے کس طرح طلب کیا جائے گا۔؟رائے دینے والا پہلا رکن مسکرایا پھر بولا‘ یہ کام تو بہت آسان ہے ‘ وہ اِس طرح کہ اخبارات میں پولیس کی بھرتی کا اشتہار دے دیا جائے گا پھر جن لوگوں کی درخواستیں موصول ہوں اُن سے رابطہ کرلیا جائے گا۔


پارلیمان میں ایک رکن ایسا بھی تھا جس کا بھائی پولیس کے محکمے میں ایک بڑا افسر تھا سچّی بات یہ ہے کہ وہ پولیس افسر اُسی پارلیمانی رکن کی سفارش کے نتیجے میں پولیس کے محکمے میں تعینات ہُوا تھا‘ وہ بگڑ کے کہنے لگا کہ سب کے سب پولیس والے کیا چور یا ڈاکو ہوتے ہیں۔پولیس میں بھرتی کا معاملہ تعطل کا شکار ہوگیا اور پارلیمان کا اجلاس سبوتاژ ہوتا ہُوا نظر آنے لگا۔

ایک رکن نے جلتی پر تیل ڈالا اور کہنے لگا : ”ہمارے بھائی کی دراصل زبان پھسل گئی تھی جس کی بنا پر وہ پولیس والوں کو رشوت خور کہنے کے بجائے ڈاکو اور چور کہہ گیاہے ۔اب وہ چور یا رشوت خور ہیں اُنھیں لانے والے تو ہم ہی ہیں۔“
کم وبیش یہی حال عدلیہ کا ہے ۔عدالت میں جج اگر لیے جاتے ہیں تو وہ سابق وکیل ہوتے ہیں جو عرصہ دراز تک جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرکے پیسے کماتے ہیں۔

جو اِس عمل سے گزر کر جج بنیں گے وہ اچھے جج کس طرح ہوسکتے ہیں۔پاکستانمیں اگرچہ مجسٹریٹ‘ جج اور دیگر عدالتی اہلکاروں کی تربیّت کے لیے ایک ادارہ Federal Judicial Academy قائم ہے ۔جہاں بنے بنائے ہوے مجسٹریٹ اور ججوں اور اہلکاروں کو آفس ڈیکورم یعنی دفاتر کے آداب اور شعور کی بابت تعلیم دی جاتی ہے۔ہونا یہ چاہیے کہ آئین اور قانون پڑھنے والے طلبہ کو محض قوانین پر چلنے کی تربیّت دینے کے بجائے انصاف کی فراہمی کی تکنک اور بایکیاں سمجھانے کے لیے کوئی ادارہ قائم کیا جائے اور وہاں سے کامیابی کی سند حاصل کرنے والوں کو جج اور مجسٹریٹ بنایا جائے۔

مجسٹریٹ اور ججوں کو یہ بتلایا جانا بہت ضروری ہے کہ قانون پر عملدرآمد اور بات ہے جبکہ اِنصاف کے تقاضے اور ہوتے ہیں۔
خلیفہ دوم حضرت عُمررضی اَلله تعالیٰ عنہُ کے دَورِحکومت کایہ معروف واقعہ پیشِ خدمت ہے۔مدینہ جب قحط سالی کی زد میں تھااُس وقت وہاں کی اِنتظامیہ کے اَہلکاروں نے کچھ چور پکڑ کے آپ کے حضور میں پیش کیے۔ کلام مجید میں صاف لکھا ہے کہ چوروں کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں۔

لیکن حضرت عُمر  نے یہ کہہ کر کہ قحط سالی کے باعث وہ اَپنی رعایا کو اُس کی بنیادی ضرورت یعنی کھانا فراہم نہیں کرسکتے ہیں چُنانچہ آپ چوروں کے ہاتھ کاٹنے کا حکم بھی نہیں دے سکتے ہیں۔
چوروں کو پکڑ کر اِنتظامیہ نے قانون پر عملدرآمد کیا تھا اَور آپنے اِجتہادی فیصلہ کرکے اِنصاف کا تقاضا پوراکیا تھا۔اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ حضرت عمر رضی الله تعالیٰ عنہ نے اَلله تعالیٰ کے فرمان کو مسترد کرکے اپنا حکم صادر کر دیا تھا یا آپ نے چوری کرنے کا اِذن عام دے دیا تھا۔

اِس فیصلے کے پس منظر پر غور کیا جانا چاہیے کہ لوگوں کو اگر بنیادی حقوق نہیں ملیں گے تو وہ اصول اور قانون کی گھٹّی چاٹ کر زندہ رہنا پسند نہیں کرینگے۔ دوسری طرف حضرت عمر  نے اِس فیصلے کے ذریعے متموّل اور کھاتے پیتے افراد کو بھی خفی اشارہ کیا تھا کہ وہ اپنے اہل وعیال کے ساتھ ساتھ اپنے علاقے میں رہنے والوں کی بنیادی ضرورتوں کابھی خیال رکھا کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :