بیشتر سیاستدان‘ سیاست کے مفہوم سے ناواقف ہیں

پیر 9 اگست 2021

Syed Shakeel Anwer

سید شکیل انور

کراچی کے نئے منتظم آعلیٰ (ایڈمنسٹر یٹر) جناب وہاب مرتضیٰ صاحب نے ایک انٹرویو میں فرمایا کے کراچی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے یہ ضروری ہے تمام اسٹیک ہولڈر سیاست کو بالائے طاق رکھ کر اُن کا ہاتھ بٹائیں۔سوال یہ ہے کہ سیاست کو ہی اگر بالائے طاق رکھ دیا گیاپھر عنانِ حکومت کی گتھیاں کیسے سلجھیں گی۔کیونکہ تمام تر دانشمندی کو بروئے کار لاکر قوم و ملک کی بھلائی اور فلاح کے کام کرنے کا نام ہے ’سیاست‘۔


در اصل مذکورہ بالا جملہ جب کوئی شخص کہہ رہا ہوتا ہے تب اُس وقت اُس کے خیال میں لفظ ’سیاست‘ کا مطلب منفی سوچ ہوتا ہے۔یہ لفظ ’ سیاست‘ کا مصدر ہے ’سیّاس‘ اور سیّاس اُس شخص کو کہتے ہیں جو ملکی اور عوامی مسائل پر نہ صرف یہ کہ وہ غور و فکر کرتا ہے بلکہ وہ مسائل کا حل بھی ڈھونڈنکالتا ہے۔

(جاری ہے)

بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ زبان درازی اور بہتان طرازی کو آج کل ’سیاست ‘ کا نام دے دیا گیا ہے۔

یا پھر کسی فردِ واحد کو یا کسی ادارے کو بے وقوف بناکر اُس کا مال اپنے تصرّف میں لے لینے کے عمل کو ’ سیاست‘ سے تعبیر کردیا گیا ہے۔
ایک بیرسٹر کو لفظ ’سیاست‘ سے جتنی واقفیّت ہونی چاہیے‘ جناب مرتضیٰ وہاب صاحب کو غالباً اُتنی واقفیّت نہیں ہے ورنہ وہ سیاست کو بالائے طاق رکھ کر اُن کا ہاتھ بٹانے کی درخواست کرنے کے بجائے یہ کہتے کہ سیاست کا صحیح تقاضا ہے کہ اچھے کاموں میں اُن کا ہاتھ بٹایا جائے اور کوئی غلطی سرزد ہوجانے پر بروقت اُس کی نشاندہی کی جائے۔


بڑی ندامت کے ساتھ عرض گزار ہُوں کہ ہمارے ملک کے بیشترسیاستدان مال بنانے کی مشین‘ مزاج کے رنگین اور کوٹھی و کار کے شوقین ہیں اور یہ سب کس طرح حاصل کیے جاسکتے ہیں‘ اُس ترکیب اور تدبیر کانام اُنھوں نے ’سیاست ‘ رکھ چھوڑا ہے۔جو شخص جتنا بڑا مکارہوتا ہے وہ اُتنا ہی بڑا سیاستدان کہلاتا ہے۔ پلاٹ اور پرمٹ کے حصول کے لیے حکومت میں شمولیت اور نہ ملنے پر حکومت چھوڑ دینے کی دھمکی دیتے ہیں۔

حکومت مخالف سیاستدان اور مل مالکان آٹا اور چینی گوداموں میں چھپاکر عوام سے کہتے ہیں کہ حکومت کی نااہلی کی وجہ سے مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے۔کمال یہ ہے کہ کہنے والا کسی نہ کسی سطح پر حکومت میں شامل بھی ہوتا ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دونوں وفاق کو نکمّا اور ناہل کہہ رہے ہیں لیکن اسمبلی سے مستعفی نہیں ہو رہے ہیں ‘ یہ بتلانے کی ضرورت نہیں ہے کہ مذکورہ دونوں جماعتوں کے استعفا دیتے ہی حکومت ختم ہوسکتی ہے۔


انتخابی مہم چلاتے ہوے مولانا فضل الرّحمٰن صاحب اپنے حلقہ انتخاب میں یہ بات تواتر سے کہتے چلے آرہے تھے کہ کسی مسلم ریاست کی سربراہ عورت نہیں ہوسکتی ہے۔اُس وقت مولانا صاحب کے پیش نظر معصوم عوام کی خوشنودی حاصل کرکے انتخاب جیتنا تھا اور بے نظیر صاحبہ کو آگاہ کرنا تھا کہ پاکستان کے علما عورت کی حکمرانی کو قبول نہیں کرینگے۔بے نظیر صاحبہ کی جماعت کو انتخاب میں اکثریت حاصل ہوجانے پر ایک اخبار کے نمائندے نے جناب فضل الرحمن صاحب سے دریافت کیا کہ ان کے خیال میں عورت اسلامی سلطنت کی سربراہ ہوسکتی ہے کہ نہیں‘ مولانا صاحب نے اپنے ہونٹوں پر مخصوص انداز کی مسکراہٹ بکھیرتے ہوے فرمایاتھا کہ پارلیمنٹ کی بات سڑک پر نہیں کی جاسکتی ہے۔

مولانا کا یہ معنی خیز اشارہ صاف بتلا چکا تھا کہ انھیں بے نظیر صاحبہ کے وزیرآعظم بننے پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔پھر قوم نے دیکھا کہ مولانا فضل الرحمن صاحب افغانستان کے لیے ڈیزل برآمد کرنے کا حکومتی اجازت نامہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور ساتھ ہی کشمیر کمیٹی کی چئیرمین کے طور پر ملکوں ملکوں کی سیر بھی کرنے لگے۔
 نواز شریف صاحب وزارت عظمیٰ کی کرسی کے حصول کے لیے اپنے حمایتی ڈھونڈ رہے تھے‘ مولانا فضل الرحمن صاحب کی طرف سے بیان آیا:” جو ہمیں خوش رکھے گا وہ حکومت کرے گا۔

“مولانا صاحب کے خوش ہونے کا سلسلہ بڑے دنوں تک جاری رہا آج کل جناب کو کسی نے کریلے کا جوس پلا دیا ہے چنانچہ وہ کریلے جیسی باتیں کررہے ہیں۔مولاناصاحب فرماتے ہیں کہ یہ ’ سُوموٹو‘ کیا چیز ہے اِس قانون پر عملدرآمد سے عدلیہ خودمدعی بن جاتی ہے چنانچہ اُس کا فیصلہ مشکوک ہوجاتا ہے۔مولانا صاحب ذرا یہ تو فرمائیے کہ حکومت کے کارندوں کے ہاتھوں کوئی شخص اگر مارا جائے اور اُس کا کوئی والی وارث نہ ہو یا مرنے والے کے ورثا تو موجود ہوں لیکن حکومت سے خوف کے باعث وہ قانونی چارہ جوئی کرنے کی ہمّت نہ رکھتے ہوں تو عدالت کا یہ فرض نہیں ہوجاتا ہے کہ وہ مرنے والے کی دادرسی کرے اور قاتل کو کیفرکردار تک پہنچائے۔

اِسی طرح اگرحکمران یا حکومت کے افراد کوئی غیرآئینی اقدام یاکسی دھاندلی کا ارتکاب کربیٹھیں تو کیا وہ اپنے خلاف مقدمہ قائم ہونے دینگے۔ایسی صورت میں عدالت کو کیا کرنا چاہیے‘ یہی کہ وہ خاموش تماشائی بنے رہنے پر ہی اکتفا کرے اور انارکی کو راہ دے دے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کراچی کے نئے ایڈمنسٹریٹر جناب مرتضیٰ وہاب صاحب کس روز کراچی اور اُس کے مضافات کا دَورہ کرتے ہیں اور وہاں کے مسائل معلوم کرکے اُس کا حل نکالتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :