”سب اچھا ہے“ اور” گھبرانا نہیں ہے“

جمعرات 16 ستمبر 2021

Syed Shakeel Anwer

سید شکیل انور

صدرِ مملکت جناب ڈاکٹر عارف علوی صاحب نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں فرمایا کہ سب اچھا ہے اور وزیرآعظم صاحب پہلے ہی کہتے چلے آرہے ہیں کہ ” گھبرانا نہیں ہے“۔ عارف علوی صاحب جس شہرمیں اور جس حلقے سے منتخب ہوکر صدارت کی کرسی پر متمکن نظر آرہے ہیں۔وہ اپنے اُس حلقے میں آکر اپنے ووٹروں سے اگر اپنے بارے میں رائے لینے کی کوشش کریں تو وہاں اُن کو خجالت سمیٹنے کے سوا کچھ اور نہ ملے گا۔

صدر صاحب نے مشترکہ اجلاس میں خطاب کرکے یہ ثابت کردیا کہ اُن کو تائید کے پہاڑے تو خوب اچھی طرح یاد ہیں لیکن حذب اختلاف کے زمانے میں جو تنقید کے الفاظ اُنھیں رٹائے گئے تھے اب وہ سارے الفاظ یکسر بھول چکے ہیں۔وہ حکومت کی تعریف کرتے ہوے صرف اتنا ہی کہہ دیتے کہ مہنگائی کا بھی سدباب کیا جانا چاہیے۔

(جاری ہے)

وہ شاید یہ نہیں کہنا چاہتے تھے کہ جمّن کی بیٹی بہت خوبصورت ہے بس اُس کی ناک ذرا چپٹی ہے۔


یہ بات سب جانتے ہیں کہ ناک ہی چپٹی ہونے کی وجہ سے رشتے نہیں ہوتے ہیں۔یہاں تو پورا ڈبّہ ہی چپٹا ہے جس میں نہ تو کچھ داخل ہوسکتا ہے اور نہ اُس میں سے کچھ نکل ہی سکتا ہے۔سندھ کے وزیرآعلیٰ اپنے دفتر کے شاہانہ ٹھاٹ باٹ پر ماہانہ کروڑوں روپے خرچ کر دیتے ہیں کم و بیش یہی حال گورنر صاحب کا بھی ہے۔ سندھ حکومت اپنے وزیرآعلیٰ ہاؤس کے اخراجات میں کمی کرنے پراگر آمادہ نہیں ہوتی ہے تو صدر صاحب ہی سندھ میں اپنے نمائندہ گورنر کو ایوان میں اللّے تلّلے اخراجات کرنے سے باز رکھنے کا حکم دیں۔

وزیرآعظم صاحب حکومت میں آنے سے قبل متعدد بار فرما چکے تھے کہ حکومت کے دفاتر میں والے بڑے بڑے اخراجات کو کو وہ ختم کردیں گے اور وزیرآعظم ہاؤس کو یونیورسٹی یا ہسپتال بنا دیں گے۔ وزیر آعظم صاحب کی تمام باتیں اب تک تو ہَوا ہوتی نظر آرہی ہیں۔
 پارٹی بنانے اور اچھے لوگوں کو یکجا کرنے میں بڑا فرق ہے۔آپ کہیں پرچند جھنڈے گاڑ دیجیے اور بریانی کی کچھ د دیگیں پکا لیجیے پھر دیکھتے جائیے‘ لوگوں کے غول پر غول چڑھے چلے آئیں گے اور آپ کی پارٹی بن جائے گی۔

خان صاحب نے بھی شاید اِسی طرح اپنی پارٹی بنائی تھی۔اُن کی پارٹی کا کوئی رکن چینی چوری کرتا ہُوا پکڑا گیا ہے تو کوئی سڑکوں کے نقشے ردوبدل کرنے کا معاوضہ لے کر مسکرا رہا ہے۔تازہ اطلاع ہے کہ ملک میں سَستی چینی موجود ہونے کے باوجود باہر سے مہنگی چینی درآمد کی جارہی ہے اور ایک یا دو روپے نہیں بلکہ اڑتیس روپے فی کلو فرق ہوگا۔پاکستانی عوام پر آخر ظلم کا یہ پہاڑ ڈھانے والی شخصیات کا تعلق کس پارٹی سے ہے۔

صاف بات ہے کہ حکمران جماعت کے لوگ ہی یہ کالے کرتوت کرنے کے ذمّہ دار ہونگے۔پی ٹی آئی کے وزرا فرماتے ہیں کہ اگر مہنگائی بڑھی ہے تو لوگوں کی تنخواہیں بھی تو بڑھی ہیں ‘ وہ شاید یہ سمجھ رہے ہیں کہ پاکستان کے سارے افراد سرکاری ملازمت کرتے ہیں۔یہی حضرات جب حذبِ اختلاف کے صف میں کھڑے ہوتے تھے تب فرماتے تھے کہ حکومت پیٹرول کی خرید پر اپنے ٹیکس میں اگر کمی کردے تو مہنگائی پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

اب وہ گُر اور وہ ہُنر کیوں نہیں آزمایا جاتا ہے۔نئے حکمران ٹیکس ادا کرنے والے تاجروں کے گریبانوں پرتو ہاتھ متواتر ڈالتے چلے جارہے ہیں لیکن ٹیکس چوروں سے اپنا مُنہ چُراتے پھرتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خبر رساں ادارے اور جرائم کا سدباب کرنے والی مقتدر قوّتیں صدر عارف علوی اور وزیرآعظم عمران خان صاحب کی دسترس میں نہیں ہیں یا ماضی کے صدور اور وزرا آعظم کی طرح اُنھیں بھی’ ’سب اچھا ہے“ کی خبریں دی جارہی ہیں۔

صدر صاحب پچھلے وقتوں کی کہانیوں میں کچھ تو حقیقت ہوگی کہ بادشاہ بھیس بدل کر رعایا کا حال معلوم کرنے کے لیے عوامی مقامات پر چلے جایا کرتے تھے ‘ جہاں وہ پانی کی قلّت دیکھتے تھے وہاں وہ نہریں کھدوا دیا کرتے تھے اوراونچی نیچی راہوں کو ہموار کردیا کرتے تھے۔نئے حکمران شاید کھدی ہوئی سڑکیں اور ابلتے ہوے گٹر دیکھ کر زیادہ محظوظ ہوتے ہیں۔


شیرشاہ سوری کی بنوائی ہوئی طویل ترین سڑک اور زبیدہ کی بنوائی ہوئی نہرمحض کہانیاں تو نہیں ہیں۔اگر یہ کہانیاں ہیں تو اِس حقیقت کو تو جھٹلایا نہیں جاسکتا ہے کہ کوفے میں حضرت علی رضی اَلله تعالیٰ عنہ کوفے کے بازار میں درّے لے کر اوزان کی جانچ پڑتال کیا کرتے تھے اور مجرموں کو بروقت سزائیں دیتے تھے۔حضرت عمر رضی اَلله تعالیٰ عنہ آدھی رات کو گشت پر نکل جایا کرتے تھے اور یہ معلوم کیا کرتے تھے کہ اُن کی رعایا میں کوئی بھوکا تو نہیں سو رہا ہے۔

آپ جب مدینہ جیسی ریاست بنانے کا دعویٰ کر رہے ہیں تب مدینہ جیسے حکمران بھی تو بن کر دکھلائیے جناب۔
اقتدار میں آنے سے قبل آپ اگر اِس نکتے پر غور فرمالیتے کہ ”عصا نہ ہوتو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد“جب آپ کو معلوم تھا کہ ملک کا خزانہ خالی ہے اور عدالت بھی انصاف سے خالی ہے پھر خالی میدان میں لاٹھی گھمانے کی خواہش آپ کے دلوں میں کیوں مچلی۔

کیا یہ بات آپ نہیں جانتے ہیں کہ جو خود مجبور ہوتا ہے وہ کسی کی مجبوری کیسے دور کرسکتا ہے۔آپ تو اپنی حکومت بنانے کے لیے اتنے مجبور اور بے بس ہوے کہ آپ کو ماضی کے مجرموں کو اپنے ساتھ ملانا پڑا۔پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کتنی مستحکم ہے یا کتنی کمزور ہے ‘ کینٹونمنٹ بورڈ میں ہونے والے انتخابات نے واضع کردیا ہے۔آزاد اُمیدوار اور مسلم لیگ ن اگر متحد ہوگئے تو پارلیمان کی طرح کینٹونمنٹ بورڈ میں بھی پاکستان تحریک انصاف کی خواہشات اُس کے سینے میں گُھٹ کر رہ جائیں گی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :