مہنگائی کے باعث آنسو نکل پڑے ہیں

ہفتہ 11 ستمبر 2021

Syed Shakeel Anwer

سید شکیل انور

اِس میں کچھ شک نہیں ہے کہ جب سے دنیا بنی ہے چیزیں مہنگی ہی ہوتی چلی جارہی ہیں‘ اِس کا سبب بھی ہمیں معلوم ہے کہ رسد اور طلب میں عدم توازن کے باعث ایسا ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے ملک پاکستان میں مہنگائی پَلس بلکہ ضرب پرضرب کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ سارے حکمران مہنگائی ختم کرنے کا نعرہ لگاتے ہوے آتے ہیں اور اِس وبا میں اضافہ کرکے چلے جاتے ہیں۔


مہنگائی کے باعث چوری چکاری اور ڈکیتی حتّیٰ کہ عصمت فروشی کا بازار گرم ہوتا جارہا ہے اور حکمران کفِ افسوس مَلنے کے سوا کوئی عملی اقدام اٹھاتے ہوے نظر نہیں آرہے ہیں۔پوری ملّت غذا اور پانی سے محرومی کا شکار ہے اُس پرمستزاد یہ کہ ڈاکٹروں نے بھی طرفہ تماشا یہ شروع کردیا ہے کہ وہ لیبارٹری ٹیسٹ دیکھے بغیر علاج شروع نہیں کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

سوال یہ پیدا ہوتا ہے لیبارٹری وجود میں نہیں آئی تھی تب اُس وقت ڈاکٹر اور حکیم کس اصول کے تحت مریضوں کا علاج کیا کرتے تھے ۔

آج بھی ایسے حکیم موجود ہیں جو مریضوں کی کلائی پکڑکے اُس کا مرض جان لیتے ہیں اور ٹھیک ٹھیک علاج کردیتے ہیں۔کسی مفلوک الحال شخص کا کیا ذکر کروں یہاں تو جس کی تنخواہ تیس چالیس ہزار روپے ماہانہ ہے وہ بھی بیماری کا تذکرہ کرتے ہوے آبدیدہ ہوجاتا ہے۔ایک شخص اپنی زوجہ کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جاتا ہے ‘ ڈاکٹر صاحب اُسے پانچ چھ ہزار روپے کا ٹیسٹ کروانے کی ہدایت کردیتے ہیں ‘ شوہر بیچارہ بڑی لجاجت سے کہتا ہے ” ڈاکٹر صاحب ! کیا ایسا ممکن ہے کہ آپ ابھی کوئی مناسب دوا دے دیں اگر افاقہ نہ ہُوا تب ٹیسٹ بھی کروالوں گا۔

“ یہ بات کرتے ہوے اُس غریب کی پیشانی کی آنکھیں اگرچہ ڈاکٹر کی جانب ہوتی ہیں لیکن وہ اپنے تصور کی آنکھوں سے اپنی زوجہ کے تاثرات دیکھنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے اور درونِ دل شرمندہ بھی ہورہا ہوتا ہے۔
یہ بات بڑی حد تک درست ہے کہ ماضی کے حکمران چوری چکاری اور رشوت خوری میں مبتلا تھے جس کے باعث قوم تنگ دست ہوتی چلی جارہی تھی اب تو بڑا ایماندار ہونے کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے پھر ٹیکس کی مد میں اکھٹی ہونے والی رقوم کہاں خرچ کی جارہی ہیں۔

شہر اور مضافات کی سڑکوں کا حال بد سے بدتر ہوتا چلا جارہا ہے اور جابجا گٹر ابل رہے ہیں۔آب رسانی اور نکاسی کا انتظام زبوں حالی کا شکار ہوچکاہے۔بعض علاقوں میں گلیاں اِس قدر تعفن زدہ ہوگئی ہیں کہ لوگوں نے اُن گلیوں میں آنا جانا چھوڑ دیا ہے وہاں البتہ نشہ کرنے والوں نے اپنے ڈیرے ڈال لیے ہیں۔جبر اور فحاشی کا سیلاب ہے کہ اُمڈتاہی چلا جارہاہے۔

غذاؤں اور دواؤں میں ملاوٹ کرنے والے ابھی تک اپنے سر اپنے کاندھوں پر لیے کھلکھلارہے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے گوشہ نشین ہوگئے ہیں۔
وفاقی حکومت کہتی ہی کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتیں خودمختار بھی ہیں اور ذمّہ دار بھی ہیں کہ وہ اپنے صوبے کے معاملات خود ہی نمٹیں جبکہ صوبہ سندھ کی حکومت وفاقی حکومت پر آٹا اور چینی چوری کرنے کا الزام لگا رہی اور خود کوئی اچھا کام کرنے پر آمادہ دکھائی نہیں دے رہی ہے۔


یہ شاید محض ایک کہانی ہے کہ ایک بادشاہ کو اُس کے ایک زیرک وزیر نے مہنگائی کو قابو میں لانے کے لیے یہ مشورہ دیا تھا کہ بیت المال کی رقوم سے اناج یعنی آٹا‘ چاول اور دالیں وغیرہ خرید کر موجودہ قیمت سے چارآنے فی کلو کم کرکے اگر فروخت کردی جائیں تو عوام میں کچھ خوش حالی آجائے گی۔بادشاہ اپنے وزیر کا مشورہ سن کر نہ صرف خوش ہُوا بلکہ اُس نے اُس مشورے پر عملدرآمد بھی کیا۔

آج کے بادشاہ اور وزیر اپنے الّلے تلّلے کے اخراجات پورے کرنے کے لیے اپنی عوام پر آئے روز نئے نئے ٹیکس کا بوجھ ڈالتے چلے جارہے ہیں۔
مہنگائی کا شتر بے مہار کے رکنی کا نام نہیں لے رہا ہے۔ اِسٹاک ایکسچنج میں حصص کی قیمتیں اَگر کبھی بڑھ جاتی ہیں تو کسی روز گھٹ بھی جاتی ہیں لیکن ہمارے ملک میں کھانے پینے کی اَشیاء کی قیمتیں روزبروز بڑھتی ہی چلی جارہی ہیں۔

ایک زمانہ تھا جب ہم بازار جانے سے پہلے اَناج اَور سبزیوں کے بھاؤ کی فہرست بنالیا کرتے تھے اَور اُسی حساب سے پیسے لے کر جاتے تھے۔اَب ہمیں یہ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ ہم کتنے پیسے لے کر بازار جائیں گے اَور وہاں سے واپسی پر کیا کچھ سامان اَپنے ساتھ لے کر آئینگے۔
گائے اور بکروں کی کم دستیابی کی باعث شاید گوشت مہنگا ہوتا جارہا ہے لیکن کراچی اور پاکستان کے ساحلی علاقوں کے رہائشی سمندر سے متصل ہونے کے باوجود سَستی مچھلیاں کھانے سے محروم ہیں۔


لبِ دریا کھڑے رہے دونوں‘
وہ بھی پیاسا تھا میں بھی پیاسا تھا
تھر سے کوئلہ نکلنے کا جو شور اُٹھا تھا اُس کا کیا ہُوا۔پیٹرول اور ڈیزل مہنگا ہوگیاہے ‘ ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ جتنی رقم کی مچھلیاں ہاتھ آتی ہیں اُس سے کہیں زیادہ ڈیزل اور پیٹرول کی شکل میں ایندھن پھونکنا پڑتی ہے۔ کیا حالات کا تقاضا نہیں ہے کہ دخانی کشتیاں بناکر ماہی گیروں کے سپرد کیے جائیں تاکہ ارزاں قیمت پر مچھلیاں اور دیگر آبی خوراکیں حاصل کی جاسکیں۔

پھلوں کی قیمتوں توازن بگاڑنے کا باعث کولڈ اِسٹوریج کا قیام ہے۔اِس ٹھنڈے گھر کے باعث کچھ لوگ تو سالہا سال پھل کھاتے رہتے ہیں اور ٹھنڈے رہتے ہیں لیکن غریب بے چاروں کو مَوسم کے پھل چکھنے کو بھی میسّر نہیں ہوتے ہیں۔میرے خیال میں اِس بات کی اَشد ضرورت ہے کہ کولڈ اِسٹوریج کے قیام کا اَزسرِنو جائزہ لیا جانا چاہیے اَور اُس کے فوائد و نقصانات کا تعیّن کرنا چاہیے۔

کولڈاِسٹوریج سے مُستفید ہونے والے مُٹھّی بھر لوگ صاف ظاہر ہے کہ اُس کے قیام کے حق میں ہی دلائل دینگے جبکہ مَیں بِن مَوسم کے پھل کھانے والوں کی خدمت یہ عرض کرنا چاہونگا کہ دَرختوں کو بارآور کرنے والااَلله سُبحانہُ و تعالیٰ اَگر چاہتا کہ تمام پھلوں کے دَرخت مُستقل طور پر لدے پھندے رہیں تو کیا اُس ذاتِ باری تعالیٰ کے لیے یہ کام نامُمکن تھا؟
 آپ یہ بھی غور فرمائیے کہ کولڈ اِسٹوریج سے نکلے ہُوے پھلوں کا ذائقہ اُترجانے کے باعث اُس کی لذّت جاتی رہتی ہے اَور کھانے والوں کو وہ مزا نہیں ملتا ہے جو مَوسم کے پھلوں میں ہوتا ہے۔

اِس حوالے سے مَیں یہ کہنے میں حق بجانب ہواں کہ کولڈ اِسٹوریج میں رکھے ہُوے پھلوں کی ظاہری شکل اَور صُورت میں اَگرچہ کوئی تبدیلی رُونما نہیں ہوتی ہے لیکن اُن کی اَندرونی سطح میں کوئی اَیسی بات ضرور پیدا ہوجاتی ہے جو اُس کو بے ذائقہ کرنے کا سبب بنتی ہے۔
قارئین سے گزارش ہے کولڈاِسٹوریج کا پھل نہ کھاکر اَپنی صحت بھی بحال رکھیے اَور غریبوں کا اِستحقاق بھی محفوظ رکھنے کی کوشش کیجیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :