بڑا بھائی ہے جھوٹ بھی بڑا بولتا ہے

پیر 30 اگست 2021

Syed Shakeel Anwer

سید شکیل انور

ایران میں متعین ایک بڑے ملک کا سفیرایرانی حکمران سے سرگوشی کرتا ہے کہ عراق تیل چوری کرنے کا الزام لگاکر اُس کے ملک پر حملہ کرنے والا ہے۔عراق میں متعین سفیر عراق کے حکمران کو ورغلاتا ہے کہ وہ اپنی شکایت کے ازالے کے لیے اگر ایران پر حملہ کردیتا ہے تو یہ اُس کا حق تسلیم کیا جائے گا پھر اُسی ملک کا سفیر عراقی حکمرانوں کو ایک جعلی تصویر دکھلاتا ہے کہ کویت اُس کے ڈھلوان والی جگہ سے تیل چوری کر رہا ہے۔

بِالآخر دونوں ملکوں کے مابین جنگ چھِڑ گئی۔جنگوں میں الجھنے کے باعث مذکورہ ملکوں نے کتنے مالی اور جانی نقصانات اُٹھائے اِس کی تفصصیل اِس چھوٹے صفحے پر تحریر کرنا ممکن نہیں ہے بس اتنا سمجھ لیجیے کہ قاتل اور مقتول دونوں ہی اَلله اَکبر کے نعرے لگا رہے تھے اور ایک دوسرے کا مال لُوٹ رہے تھے۔

(جاری ہے)

بات یہیں آکر نہ رکی اُس بڑے ملک نے سعودی حکمرانوں کو فرضی تصاویردکھلائی کہ عراق کی افواج کویت پر قابض ہوجانے کے بعد سعودی عرب میں داخل ہونے اور اُس کے تیل کی تنصیبات کو یا تو اپنے قبضے میں لینے کا ارادہ رکھتی ہے یا اُنھیں برباد کردینا چاہتی ہے۔

بس کیا تھا سعودی حکمرانوں نے نہ صرف یہ کہ امریکہ سے دھڑادھڑ اسلحے خریدنے شروع کردیے بلکہ امریکی فوج کو بھی اپنے تحفظ کے لیے طلب کرلیا ۔
امریکہ نے عراق پر یہ جھوٹا الزام بھی لگایا کہ اُس کے پاس انتہائی خطرناک ہتھیار بھی موجود ہے جسے استعمال کرکے عراقی فوج بڑے پیمانے پر ہلاکت خیزی کرسکتی ہے‘ امریکہ یہ الزام لگاتے ہوے اگراپنے گریبان میں جھانک لیتا تو اُسے اپنی گود میں پڑے ہوے ایٹم بموں کی کھیپ نظر آجاتی جسے ماضی میں استعمال کرکے وہ جاپان کو بہت بھاری مالی اور جانی نقصان پہنچا چکا ہے۔

بہرکیف! اُس نام نہاد اور انتہائی خطرناک ہتھیار کو تلاش کرنے کے لیے امریکہ اپنے جدید اور خطرناک ہتھیاروں سمیت عراق میں گھس آیا۔ہزارہا آدمی اُس نے مارڈالے اور وہاں کی زمین اُدھیڑ ڈالی لیکن اُس کے ہاتھ کچھ بھی نہ آیا۔اگر کچھ ہوتا تو ہاتھ بھی آتا۔عراق کی تحقیقاتی رپورٹ شاید جھوٹ کا پلندہ تھی چنانچہ چپکے سے اُسے نذر آتش کردیا گیا۔

صدر بننے سے پہلے بارک اُبامہ نے سینیٹ میں جب یہ اعتراض اُٹھایا تھا کہ عراق میں اسلحوں کی تلاش اور دیگر معلومات کی پیش رفت کا کیا ہُوا تب اراکینِ پارلیمنٹ اپنی اپنی بغلیں جھانکنے لگے۔اوبامہ نے جب رپورٹ ظاہر کرنے لیے بہت زیادہ زور دیا تب اُسے کہا گیا کہ اگر رپورٹ ظاہر کردی جائے یا شائع ہوجائے تو امریکی خفیہ اداروں کے اہلکار اپنے گھروں سے باہر نہیں نکل سکیں گے ‘ کہنے والے شاید یہ بتلانا چاہتے تھے کہ امریکی شہری جھوٹی رپورٹ کی اشاعت ہوجانے پر رپورٹ مرتّب کرنے والوں کو جہاں جہاں دیکھتے تو جھوٹا ھوٹاکے نعرے لگانے لگتے۔


ابتدا یہ تھی کہ مَیں تھا اور دعویٰ علم کا
انتہا یہ تھی کہ اِس دعوے پہ شرمایا بہت
امریکہ دعویٰ تو یہ کرتاہے کہ دنیا بھر میں اُس کو دسترس حاصل ہے چنانچہ کسی واقعہ کے رونما ہونے سے پیشتر اُسے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ کس ملک میں کیا ہونے والا ہے۔وہ یہ نہ جان سکا کہ ورلڈ ٹرید ٹاور اور پینٹا گان پر کب اور کون حملہ کرنے والا ہے‘ اُسے خبر دینے والے ہی جب اِس کام کے کرنے میں مشغول ہونگے تو پھر بتلائے گا کون۔

وہ تو یہ بھی نہ بتلا سکے تھے صدر کینیڈی کب اور کس کے ہاتھوں مارے جائیں گے ۔پاکستان کے شہر بہاول پور کے ہَوائی حادثے میں امریکہ کا سفیر آنجہانی رافیل بھی مارا جائے گا‘ اِس بات کی آگہی امریکی حکام کو پہلے سے نہ تھی۔اگر امریکہ کے خفیہ اداروں کو اِس واقعہ کے وقوع پذیر ہونے سے قبل خبرہوتی تو وہ حفظِ ماتقدّم کرکے اپنے سفیر کو بھی بچا لیتے اور جنرل ضیا مرحوم بھی محفوظ رہتے۔

افغانستان میں طالبان کی کیا قوّت ہے اور انھیں اسلحے اور خوراک کی فراہمی کہاں سے ہوتی رہی ہے‘ امریکہ تو کیا اُس کے اتحادیوں کو بھی اِس بات کا پتہ نہ چل سکا ۔امریکی اور اُس کے اتحادی یہ بھی نہیں جان سکے تھے کہ وہ افغانستان سے کب اور کس طرح نکل پائیں گے۔کوئی ترکی کی طرف بھاگ رہا ہے‘ کسی نے روسی سرحد ی علاقوں کا رخ کرلیا ہے۔کچھ بے ایمان جو پاکستان مردہ باد اور ہندوستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوے تھکتے نہ تھے وہ آج بھیگی بلّی کی صورت بناکر پاکستان کے ہوٹلوں میں پناہ گزین ہیں۔یہ بھگوڑے جہاں کہیں بھی جائیں گے بے آبرو ہوکر ہی اپنی زندگی گزاریں گے کیونکہ جو اپنے بھائیوں کا نہیں ہوسکتا ہے اُسے غیر کیسے اپنا سمجھیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :