آزادی اظہار رائے

پیر 23 نومبر 2020

Tariq Zaman

طارق زمان

اللہ تعالیٰ نے ہر ذی روح باالخصوص انسان کو آزاد پیدا کیا ہے منزل مقصود کی جانب راستوں کا تعین کر دیا ہے حق کا ساتھ دے کر فلاح و کامیابی جبکہ باطل کا ہمسفر بن کر گمراہی اور بربادی کو انجام بنایا ہے اپنی رائے کے اظہار میں انسان کو آزادی دی گئی ہے لیکن ساتھ ہی گفتار اور فعل کے لیے اخلاق و آداب وضع کر دیے ہیں جن کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہی تعلیم و تہذیب یافتہ طبقہ اپنی رائے کا اظہار کر سکتا ہے اسلام کائنات کا آخری اور جدید مذہب ہے جس کے پیروکار خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی ﷺ ٰ کی آفاقی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں ان تعلیمات میں امن و بھائی چارے حقوق العباد، باہمی مساوات، حق تعالیٰ کی عبادات اور دوسروں پر رحم اور احسان کا درس دیا گیا ہے مسلمان اللہ کے تمام پیغمبروں، نبیوں اور مقدس ہستیوں پر ایمان لاتے ہیں اور مقدس و آفاقی کتب اور مذاہب کی تکریم خود پر لازم سمجھتے ہیں ان پر نقطہ چینی اور تنقید کو اظہارِ رائے نہیں بلکہ فتنہ تصور کرتے ہیں لیکن دشمنان اسلام مذہب، قرآن کریم اور خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کی حرمت پر وار کرکے دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور ستم ظریفی تو یہ کہ اس قبیح فعل کو اظہار رائے کی آزادی قرار دے کر دشنام طرازی کو درست قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں ڈنمارک، فرانس، ناروے اور سویڈن سمیت دیگر یورپی ممالک کی سرکاری سرپرستی میں ایسے گستاخانہ واقعات تاریخ کا حصہ ہیں اور دشمنان اسلام کی تنگ نظری و تاریک سوچ کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

(جاری ہے)


قارئین کرام! دشمنان اسلام اتنی تھوڑی سوچ کے مالک ہیں کہ اپنے سرزد کیے ہوئے نامناسب عمل کو تو اظہار رائے کا نام دیتے ہیں لیکن اس کے مدمقابل مسلمانوں کی جانب سے کی گئی چھوٹی سی بات کو بھی بین الاقوامی قوانین اور حقوقِ انسانی کا استحصال قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں کچھ ایسے ہی متعصبانہ انداز آپ کو سوشل میڈیا پر دیکھنے کو ملیں گے ابھی حال ہی میں تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ مولانا خادم حسین رضوی کی رحلت کے موقع پر سوشل میڈیا جن میں فیس بک کی انتظامیہ قابل ذکر ہے کا دوہرا معیار اور نفرت انگیز انداز دیکھنے کو ملا راقم الحروف کسی سیاسی و مذہبی جماعت سے کوئی خاص لگاؤ نہیں رکھتا تاہم مذہب اسلام اور پیغمبر اسلام سے تعلق جسم و روح کے تعلق جیسا ہے جو شخص حرمت رسولﷺ اور تحفظ ختم نبوتﷺ کی بات کرے بحیثیت مسلمان اس کا دل سے احترام ہوتا ہے مولانا رضوی کی وفات پر اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر ایک دعائیہ پوسٹ لگائی جو فیس بک انتظامیہ کو ایک آنکھ نہ بھائی جس کی پاداش میں اکاؤنٹ 24 گھنٹوں کے لیے معطل کر دیا گیا دیگر کئی فیس بک اکاؤنٹس کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا گیا۔


انسانی حقوق کے چیمپئنز اور آزادی اظہار رائے کی دعوے دار مغربی عناصر اور ان کی پیروی کرنے والے دیسی لبرلز  سے سوال ہے کہ کیا کسی کی وفات پر دعائیہ کلمات ادا کرنے سے مذہبی منافرت پھیلتی ہے کیا یہ اظہار رائے نہیں ہے یا پھر اظہار رائے کی آزادی صرف دشمنان اسلام کو ہی حاصل ہے؟ اہل مغرب ہمارے اکابرین اور مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخیاں کریں تو اسے اظہار رائے کی آزادی کہا جائے اور ہم رسول اللہ کے چاہنے والوں کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کریں تو معاشرتی استحصال؟ کیا یہ دہرا معیار اور متعصبانہ رویے نہیں؟ مغرب کی تنگ نظری اور ان کے ٹاؤٹ دیسی لبرلز کے اس امتیازی سلوک اور رویوں کے خلاف مسلمانوں کو باہمی مسلکی اور گروہی اختلافات بھلا کر دین اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ سمیت دیگر مقدس ہستیوں کی حرمت کے تحفظ کے لیے ایک ہونا ہوگا اور اپنی صفوں میں چھپے منافقین کو پہچاننا ہوگا بصورت دیگر دشمنان کی ریشہ دوانیوں سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے اوران کی جگ ہنسائی ہوتی رہے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :