
غریب کی کوئی عزت نہیں
ہفتہ 12 دسمبر 2020

طوبی ساجد
جیسا کے ہم سب جانتے ہیں کہ اگر ہم دنیا کے شانا بشانا چلنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ہماری نظر ہر اس خبر پر ہو جو ہمارے گردونواح میں ہو رہا ہے۔ اسی سلسلے میں کل رات سونے سے قبل میں بھی سوشل میڈیا پے چلنے والی خبروں پے نظر دوڑا رہی تھی کہ اچانک مجھے ایک وڈیو نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ کیا دیکھتی ہوں کہ ایک ننھی پری کو ایک مرد بے دردی سے تھپڑ رسید کر دہا تھا اور ساتھ میں اس کی بیوی اور تمام اہلِ خانہ نے بھی تابڑ توڑ مکے اور تھپڑ رسید کیے۔ ہر دوسرے پیج پر یہ وڈیو وائرل ہو چکی تھی۔ مزید چھان بین کرنے پر معلوم ہوا کے یہ ننھی پری جس کی عمر گیارہ برس ہے ان کے گھر کی ملازمہ ہے۔ یہ پری دھکوں اور مار پیٹ کی وجہ سے بار بار سڑک پر گر رہی تھی۔ کوئی راہگیر اس بچی کی مدد کرتا دیکھائی نہیں دے رہا تھا۔
یہ واقعہ فیصل آباد کے علاقے کنال روڈ کا ہے۔ مگر گھریلو ملازمین پر تشدد کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ آئے روز ہمیں اس طرح کے واقعات دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں مگر افسوس ہم مردہ قوم ہیں ہمارے اندر کی انسانیت تو کب کی مر چکی ہے۔ اس سے قبل بھی راولپنڈی کے علاقے بحریہ ٹاؤن میں ایک گھریلو ملازمہ تشدد کا شکار ہو چکی ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کے اس ملک کے قانون اس طرح کے بنائے گئے ہیں کہ اگر امیر کوئی غلطی کرتا ہے تو وہ دے دلا کے اپنی جان چھڑوا لیتا ہے مگر غریب کی کوئی عزت نہیں ہے۔
کہنے کو تو پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور اسلام کے نام پر بنا ہے مگر آئے روز ہمیں یہاں جنسی جرائم اور گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوتا دیکھائی دیتا ہے۔ جن غریب لوگوں پر یہ قیامت ٹوٹتی ہے وہ ذہنی امراض کا شکار ہوتے دیکھائی دیتے ہیں۔
یہاں ہمیں لبرل لوگ خواتین کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے دیکھائی دیتے ہیں مگر ان میں سے پچانوے فیصد اپنے گھر کی ملازموں کو تحفظ اور وقت پر تنخواہ نہیں دیتے۔
معاشرے میں بڑھتی مہنگائی نے غریب طبقے کو پیس کر رکھ دیا ہے جس کے نتیجے میں ان ننھے بچوں کو مزدوری کرنی پڑی ہے۔ اب تو غریب طبقے کے حالات مزید خراب ہو گئے ہیں کورونا وائرس کی وجہ سے بے روزگاری مزید بڑھ گئی ہے۔ زرائع آمدن نہ ہونے کے برابر ہو گئے ہیں۔ اب بتائیں کے غریب کیا کھائے کیا اور کیا پہنے؟
غریب طبقے کے تحفظ کی ذمہ دار ہماری حکومت ہے۔ 1973 کے آئین کے تحت ملک میں غریب عوام کو تحفظ فراہم کرنے کا عہد کیا گیا ہے۔ مگر ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔ کوئی حکومتی ادارہ غریب کی فکر نہیں کرتا تبھی تو ننھی پری کو فیصل آباد کی کنال روڈ پر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پہلے چالیس گھنٹے تک تو ہماری محافظ پولیس ایف آئی آر درج نہیں کرتی۔ کیا یہ پولیس ہماری محافظ ہے بھی یا نہیں؟ کیا غریب کی کوئی عزت ہے یا نہیں؟ اس کا فیصلہ عوام خود کریں۔
میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم پے رحم کریں اور ہر بچے کو اپنے حفظ و امان میں رکھیں آمین۔
(جاری ہے)
ان امیروں کو کون بتائے کے قیمتی لباس زیب تن کر کے انسان قیمتی نہیں ہو جاتا انسان کی قیمت اس کی انسانیت سے ہوتی ہے۔
یہ واقعہ فیصل آباد کے علاقے کنال روڈ کا ہے۔ مگر گھریلو ملازمین پر تشدد کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ آئے روز ہمیں اس طرح کے واقعات دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں مگر افسوس ہم مردہ قوم ہیں ہمارے اندر کی انسانیت تو کب کی مر چکی ہے۔ اس سے قبل بھی راولپنڈی کے علاقے بحریہ ٹاؤن میں ایک گھریلو ملازمہ تشدد کا شکار ہو چکی ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کے اس ملک کے قانون اس طرح کے بنائے گئے ہیں کہ اگر امیر کوئی غلطی کرتا ہے تو وہ دے دلا کے اپنی جان چھڑوا لیتا ہے مگر غریب کی کوئی عزت نہیں ہے۔
کہنے کو تو پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور اسلام کے نام پر بنا ہے مگر آئے روز ہمیں یہاں جنسی جرائم اور گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوتا دیکھائی دیتا ہے۔ جن غریب لوگوں پر یہ قیامت ٹوٹتی ہے وہ ذہنی امراض کا شکار ہوتے دیکھائی دیتے ہیں۔
یہاں ہمیں لبرل لوگ خواتین کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے دیکھائی دیتے ہیں مگر ان میں سے پچانوے فیصد اپنے گھر کی ملازموں کو تحفظ اور وقت پر تنخواہ نہیں دیتے۔
معاشرے میں بڑھتی مہنگائی نے غریب طبقے کو پیس کر رکھ دیا ہے جس کے نتیجے میں ان ننھے بچوں کو مزدوری کرنی پڑی ہے۔ اب تو غریب طبقے کے حالات مزید خراب ہو گئے ہیں کورونا وائرس کی وجہ سے بے روزگاری مزید بڑھ گئی ہے۔ زرائع آمدن نہ ہونے کے برابر ہو گئے ہیں۔ اب بتائیں کے غریب کیا کھائے کیا اور کیا پہنے؟
غریب طبقے کے تحفظ کی ذمہ دار ہماری حکومت ہے۔ 1973 کے آئین کے تحت ملک میں غریب عوام کو تحفظ فراہم کرنے کا عہد کیا گیا ہے۔ مگر ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔ کوئی حکومتی ادارہ غریب کی فکر نہیں کرتا تبھی تو ننھی پری کو فیصل آباد کی کنال روڈ پر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پہلے چالیس گھنٹے تک تو ہماری محافظ پولیس ایف آئی آر درج نہیں کرتی۔ کیا یہ پولیس ہماری محافظ ہے بھی یا نہیں؟ کیا غریب کی کوئی عزت ہے یا نہیں؟ اس کا فیصلہ عوام خود کریں۔
میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم پے رحم کریں اور ہر بچے کو اپنے حفظ و امان میں رکھیں آمین۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ABOUT US
Our Network
Who We Are
Site Links: Ramadan 2025 - Education - Urdu News - Breaking News - English News - PSL 2024 - Live Tv Channels - Urdu Horoscope - Horoscope in Urdu - Muslim Names in Urdu - Urdu Poetry - Love Poetry - Sad Poetry - Prize Bond - Mobile Prices in Pakistan - Train Timings - English to Urdu - Big Ticket - Translate English to Urdu - Ramadan Calendar - Prayer Times - DDF Raffle - SMS messages - Islamic Calendar - Events - Today Islamic Date - Travel - UAE Raffles - Flight Timings - Travel Guide - Prize Bond Schedule - Arabic News - Urdu Cooking Recipes - Directory - Pakistan Results - Past Papers - BISE - Schools in Pakistan - Academies & Tuition Centers - Car Prices - Bikes Prices
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.