
*ایک اور رمضان بیکار چلا گیا!*
جمعرات 6 مئی 2021

عمر فاروق
ہم مسلمان چودہ سو سالوں سے رمضان میں روزے رکھنے کا اہتمام کرتے چلے آرہے ہیں، اسلام کی طرح دیگر مذاہب میں بھی روزے رکھنے کا حکم ملتا ہے، بنی اسرائیل کے لئے عاشورہ کا روزہ رکھنا ضروری تھا اور وہ آج بھی اس پر عمل کرتے ہیں، ان کا روزہ سورج ڈوبنے پر شروع ہوتا ہے اور اگلے روز رات کے شروع پر ختم ہوتا ہے اس دوران یہودی کھانے پینے کے ساتھ جنسی تعلقات سے گریز کرتے ہیں، آرائش کے سازوسامان سے پرییز کرنے کے ساتھ ساتھ یہ اپنا زیادہ تروقت سینیگاگ میں گزارتے ہیں جہاں توبہ واستغفار کے ساتھ توریت کی تلاوت کرتے ہیں
یہودیوں کی طرح عیسائیوں میں بھی روزے کا تصور پایا جاتا ہے، انجیل کی روایت کے مطابق عیسی علیہ السلام نے چالیس دن اور چالیس راتیں روزہ رکھا اور اپنے حواریوں کو بھی روزے رکھنے کی تلقین کی، رومن کیتھولک اور آرتھوڈاکس فرقے میں آج بھی روزے رکھے جاتے ہیں جبکہ پروٹسنٹ فرقے میں روزہ کو پیروکاروں کی مرضی پر چھوڑدیا گیا
ہندومت میں قدیم زمانے سے ہی روزے کا تصور موجود ہے، ہندو ہر بکرمی مہینہ کی گیارہویں بارہویں تاریخ کو "اکادشی" کا روزہ رکھتے ہیں جو سال میں 24 روزے بنتے ہیں اسی طرح قدیم مصریوں، قدیم یونانیوں اور پارسیوں کی ہاں بھی مختلف صورتوں میں روزہ رائج تھا، مذاہب عالم میں روزے رکھنے کی وجوہات جو مختلف مذاہب کی مختلف کتابوں میں بیان کی گئیں ہیں وہ قریبا سب آپس میں ملتی جلتی ہیں، مثلا انسان متقی بن جائیں، اپنے مالک وخالق کے اطاعت کریں، روزہ کے ذریعے منہیات سے دور رہنے کی ہدایت دی گئی، نفسیانی وجسمانئ خواہشات کو تیاگ دینے کا حکم دیا گیا، دنیا سے دین کی طرف راغب کرنے کیلئے روزے کا سہارا لیا گیا اور ہر مذہب اپنے ماننے والوں کو یہ حکم دیتا ہے کہ جھوٹ نہیں بولنا، گناہوں سے بچنا ہے، کسی کا حق نہیں مارنا، کسی پر ظلم نہیں کرنا، لوگوں کیلئے آسانیاں پیدا کرنی ہیں، سچائی، دیانت داری، پرہیز گاری اور صبر کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ ساتھ تحمل بردباری اور عدل انصاف سے کام لینا ہے، روزے کی صورت میں یہ احکامات مزید سخت ہوجاتے ہیں، ہمارا مذہب بھی ہمیں انھیں تمام چیزوں کی تلقین کرتا ہے تاکہ 30 دن کی مسلسل یہ پریکٹس مسلمانوں کی زندگیوں کا حصہ بن جائے، جس سے ایک پاکیزہ معاشرہ وجود میں آسکے مگر بدقسمتی کے ساتھ ہم میں کتنا صبر، کتنی برداشت اور کتنا تحمل ہے یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، ناپ تول میں کمی روزمرہ کے معمول ہیں، دونمبر اشیاء بیجنا ہمارا وطیرہ بن چکا ہے، یہاں نہ سچ بولا جاتا ہے، نہ دیانت داری کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور نہ ہی عدل وانصاف سے کام لیا جاتا ہے، ہم یہ سارے کام رمضان میں بھی کھلم کھلا اور بے جگری کے ساتھ کرتے ہیں، رمضان ختم ہونے سے پہلے عید پر دکھائی جانے والی فلموں ڈراموں اور پروگراموں کے اشتہار چلنا شروع ہوجاتے ہیں اور دینی پروگرام اگلے رمضان تک کیلئے دوبارہ غائب کردیے جاتے ہیں، ہرسال یہی کچھ چلتا ہے رمضان کے اختتام پر ہماری معاشرتی منافقت بلا دھڑک ظاہر ہونے لگتی ہیں اور بعد ہمیں اس چیز پر اعتراض ہوتا ہے کہ ہمارے رمضان کے بیکار چلے جانے پر کوئی انگلی کیوں اٹھاتا ہے!
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عمر فاروق کے کالمز
-
حقیقت کا متلاشی عام ذہن
ہفتہ 29 جنوری 2022
-
حقیقی اسلام کی تلاش!
جمعرات 13 جنوری 2022
-
کیا شیطان بے قصور ہے؟
بدھ 12 جنوری 2022
-
"عالم اسلام کے جید علماء بھی نرالے ہیں"
منگل 4 جنوری 2022
-
خدا کی موجودگی یا عدم موجودگی اصل مسئلہ نہیں! ۔ آخری قسط
منگل 7 دسمبر 2021
-
خدا کی موجودگی یا عدم موجودگی اصل مسئلہ نہیں!۔ قسط نمبر1
ہفتہ 27 نومبر 2021
-
والدین غلط بھی ہوسکتے ہیں !
پیر 22 نومبر 2021
-
ہم اتنے شدت پسند کیوں ہیں؟ ۔ آخری قسط
بدھ 29 ستمبر 2021
عمر فاروق کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.