سیاسی نظام میں بنیادی خامیاں

جمعرات 29 جولائی 2021

Umar Farooq

عمر فاروق

بنیادی طور پر ہمارا سیاسی ڈھانچہ ہی تباہ ہے، یہ کمزور اور غیر مؤثر بنیادوں پر کھڑا ہے چنانچہ ہم 70 سالوں سے کولہو کے بیل کی طرح دائروں کا سفر کرتے جارہے ہیں اور ملک ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید بدتری کی جانب بڑھتا چلا جارہا ہے، ہم نے آج تک نہ تو ان بنیادوں کو دیکھنے کی کوشش کی ہے اور نہ ہی یہ کام کبھی ہماری ترجیحات کا حصہ رہا ہے، آپ ملک کے کسی بھی شہر، کسی بھی کونے یا پھر کسی سفید ان پڑہ کے پاس چلے جائیں یہ حب الوطنی کے قصیدے پڑھنے کے باوجود ملکی ترقی کی رفتار سے غیر مطمئن دکھائی دے گے، ہم لوگ امریکہ یا یورپ کی مثالیں دے کر لاشعوری طور پر اپنی ناکامیوں کا اعتراف کر رہے ہوتے ہیں، ہمیں ویسٹ کی طرز زندگی اور ان کا انداز حیات بیحد فیسی نیٹ کرتا ہے  یہی وجہ ہے کہ ملک کے ہر تیسرے شخص پر باہر جانے کی دھن سوار رہتی ہے اور لوگ کریں بھی کیا...؟ عام لوگوں کو جب اس چیز کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ وحشی سسٹم ہماری نسلیں چاٹ جانے کے باوجود بھی ایسا ہی رہے گا تو یہ نا چاہتے ہوئے بھی باہر جانے پر مجبور ہو جاتے ہیں جبکہ حکمرانوں اور ان دیکھے مفاد پرستوں نے یہ سسٹم اپنی سہولیات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ڈیزائن کیا ہوتا ہے جس کو فقط یہ لوگ ہی انجوائے کرسکتے ہیں جبکہ ایک عام مزدور آدمی سسک سسک کر زندگی گزار دیتا ہے، ہم نے جب تک اس نظام میں چند بنیادی تبدیلیاں نہ کیں، اس نظام میں موجود خامیوں کو جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش نہ کی تب تک لوگ ایڑیاں رگڑتے رہیں گے، ان کے بچے بھوک سے بلکتے رہیں گے اور نوجوانوں کا مستقبل مایوس ہوگا جبکہ اجتماعی طور ہمارا بد سے بدترین کی جانب سفر جاری رہے گا.
آپ کمال دیکھیں جمہوریت بنیادی طور پر عام آدمی کا نظام ہے، انسانوں نے ہزاروں سال کی محنت اور ارب ہا تجربات کی عرق ریزی کے بعد ایسا ایفیشنٹ نظام تخلیق کیا ہے جس کے ہوتے ہوئے سوسائیٹی کے عام فرد کے بھی حقوق متاثر نہ ہوں اور معیار پر پورا اترنے والا کوئی بھی شخص اس سسٹم کا حصہ بن سکے تاہم بدقسمتی سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا سیاسی ڈھانچہ اس انداز سے تشکیل دیا گیا ہے کہ اس میں فقط پیسہ اور پاور والا جگہ بنا پاتا ہے اور ایک پڑھا لکھا باشعور اور ہنر مند شخص صرف پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے سیاسی نظام میں جگہ نہیں بنا پاتا جس کی وجہ سے جمہوریت چند لوگوں اور خاندانوں تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے اور یوں ہم ایک اچھے خاصے جمہوری نظام کو وراثتی نظام میں بدل کر رکھ دیتے ہیں، جب لوگ پیسہ کو بنیاد بنا کر پر اوپر آتے ہیں اور صاحب اختیار بنتے ہیں تو یہ اسی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے ملک کا چارگنا پیسہ کھا جاتے ہیں اور ملک کریشن جیسے ناسور کا دلدل بنتا چلاجاتا ہے، چائنہ آج بھی پڑھے لکھے اور قابل لوگوں کو اٹھا کر اس قابل بناتا ہے کہ ان سے سیاسی اور تکنیکی لحاظ سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاسکے اور شرمناک بات یہ کہ چائنا سے دوستی کے دعویدار ہمارے نالائق حکمران ان سے اتنی سی بات بھی نہیں سیکھ سکے، ہمیں عام آدمی کی پارلیمنٹ تک رسائی سہل بنانی ہوگی تاکہ عوام کی خدمت کے فرائض فقط وہی لوگ سر انجام دیں جو ان کے مسائل اور ضروریات سے بخوبی واقف ہوں. ہماری جمہوریت کا دوسرا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی نوجوان نسل کو مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے، اس سسٹم نے نوجوانوں کو اون کرنے کے بجائے انہیں ناامیدیوں کے غار میں دھکیل دیا ہے، آپ مجھے یہ بتائیں آج سے تیس چالیس سال بعد اس ملک کو چلانے کی ذمہ داری کن کے سر ہوگی؟ ظاہری سی بات نواجوانوں کے کندھوں پر لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے انھیں اس بوجھ کو اٹھانے کے قابل بنایا ہے یا نہیں...؟ ہمارا تعلیمی نظام ایسا ہے کہ یہ بچے کو نکھارنے اور اس میں موجود صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے بجائے اس کو مزید کاہل اور ناکارہ بنا دیتا ہے، ہماری یونیورسٹیوں سے ہر سال نوجوانوں کے جتھے ڈگریاں لے کر فارغ ہوتے ہیں لیکن یہ عملی زندگی میں ناکام اور معاشرے میں ان کا کردار صفر ہوتا ہے، ان کے اندر سوال کرنے اور چیزوں کو سمجھنے کی حس مردہ ہوچکی ہوتی ہے، ہمارے والدین اور استاد بچوں کو عقیدت کی چادر میں لپٹے دیکھنا چاہتے ہیں، ان کو بچوں سے صرف ادب و احترام اور جی سر، یس سر کی توقع ہوتی ہے لیکن یہ لوگ جانے انجانے میں بچے کے ذہن میں اٹھنے والے سوالوں کا گلا گھونٹ کر قوم کو مستقبل کے سٹیفن ہاکنگ اور آئن سٹائنز سے محروم کردیتے ہیں اور پھر مستقبل کے محافظوں کے ہاتھوں ہی ملک مزید ابتری کی جانب دھکیل دیا جاتا ہے لہذا میری حکومت سے گزارش ہے آپ کی ترجیحات میں نوجوان سرفہرست ہونے چاہییں.
ہمارے جمہوری نمائندوں کی اخلاقیات نہ ہونے کے برابر ہے، ہمارے سیاستدانوں نے اپنی غیر اخلاقی سیاست سے اس کو کوڑے کا ڈھیر بنا دیا ہے، سیاسی مخالف کو گالی دینا، کاپیاں پھاڑنا اور پارلیمنٹ میں ٹھٹھے بازی کرنا معمول کی سرگرمیاں بن چکی ہیں بلکہ شرمناک حد تک اس میں خواتین بھی حسب توفیق حصہ ڈالتی ہیں، ظاہر سی بات جس ملک میں پیسہ کی بنیاد پر پارلیمانی نمائندے چنے جاتے ہوں وہاں کوئی بھی غیرت مند اور بدمعاش کروڑوں لگا کر قومی نمائندگی کا فریضہ سر انجام دے سکتا ہے، اس کے لیے چاہے اس کو اپنی غیرت کا سودا ہی کیوں نہ کرنا پڑے.
 ہمارے سیاستدان عجیب و غریب ذہنیت کے مالک ہیں یہ کسی بھی منصوبے کو اس بنیاد پر ادھورہ چھوڑ دیتے ہیں کہ یہ فلاں حکومت نے شروع کیا تھا اور یہ منصوبہ پورا ہونے کی صورت میں اس کا کریڈٹ بھی اسی حکومت کو  چلا جائے گا لہذا ہم اسے کسی بھی صورت مکمل نہیں کریں گے چاہے اس سے قومی خزانے پر بوجھ پڑے یا نہ پڑے، عوام کے خون پسینہ سے کمایا گیا پیسہ ضائع ہو یا نہ ہو لیکن ہماری انا کو تسکین پہنچتی چاہیے، ملک برباد ہوتا ہے سو ہو، حکمرانوں کی اس قسم کے رویے جمہوری روایات اور ملکی مفادات کے منافی ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بے شرم اور غلیظ لوگ ہی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے اس طرح کی اوچھی اور ذلیل حرکتیں کر سکتے ہیں.
آخر میں عوام سے صرف اتنا عرض کرنا چاہوں گا "آپ میں اتنی سمجھ بوجھ ہونی چاہیے کہ ووٹ قوم کی امانت ہے اور یہ فقط اسی کو ملنا چاہیے جو قوم کا خیر خواہ ہو، برادریوں اور مفادات کی بنیاد پر جب ووٹ ڈلیں گے تو پھر وہی ہوگا جو آج تک ہوتا آرہا ہے اور یہ آگے بھی ایسے ہی چلتا رہے گا اگر ہم نے سدھرنے اور اس مسئلہ کی نزاکت کو سمجھنے کی کوشش نہ کی�

(جاری ہے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :