ففتھ جنریشن وار میں نوجوانوں کا مطلوبہ کردار

منگل 17 نومبر 2020

Umar Shehzad Nasir

عمر شہزاد ناصر

ہر کچھ عرصہ بات نئی اصطلاحات کا فیشن شروع ہو جاتا ہے اور پھر ان کی جگہ مزید نہیں اس طرح ہاتھ آجاتی ہے اور پرانی اصلاحات غیر محسوس طریقے سے غائب ہو جاتی ہے جیسے جم غفیر ملین مارچ اور بھاعی بادی و جانی نقصان کو لیٹرل ڈی میچ ہوگیا۔ جھوٹ بولنے کے لیے متبادل سچائی (آلٹر نیٹو ٹروتھ)کی اصطلاح ورم یا پہنچی ہے۔ جنگی طیارہ بردار جنگی بحری جہاز سٹریٹجی پلیٹ فارم بن چکا ہے نفسیاتی جنگ یا مایوس غیر ریاستی گروہوں کی ریاست سے نبردآزمائی یا کسی گروہوں کا استعمال فٹ کالمسٹ کا اصطلاح سے ترقی کر کے خلاف جنریشن وار ہو چکی ہے۔

ففتھ جنریشن کو سمجھنے سے پہلے ہمیں انگریزی لفظ بیٹل اور وار کے فرق کو سمجھنا چاہیے پولین بوناپارٹ کا سلوگن تھا:
lose the battle win the war
 بیٹل battle:
 بیٹل وہ جنگ ہوتی ہے جو ہتھیاروں کے ساتھ میدان جنگ میں آمنے سامنے لڑی جاتی ہے اس میں ہتھیاروں کا ہونا لازمی ہے اس میں فوج شامل ہوتی ہے چاہے وہ کسی بھی شعبے سے ہوں مثلا بحری، بری، ہوائی فوج وغیرہ اس کو روایتی جنگ بھی کہتے ہیں۔

(جاری ہے)


 وارwar:
 وار کا مفہوم عام ہے اس میں پوری قوم شریک ہوتی ہے اس میں ہتھیاروں کے ساتھ پروپیگنڈے سفارتکاری معیشت اور دیگر ہر طرح کے حربوں کو بھی بروئے کار لایا جاتا ہے اسی طرح موجودہ دور میں کسی ملک کی طاقت دو حصوں میں بٹی ہوتی ہے۔ ایک ہارڈ پاور اور دوسری سافٹ پاور۔ ہارڈ پاور سے مراد کسی ملک کی فوج جنگی ہتھیار اور جنگی ٹیکنالوجی وغیرہ ہے جبکہ صاف پاور سے مراد اس کی لابنگ، پروپیگنڈے، سفارتی اثر و رسوخ،پراکسیزاور معیشت کی صلاحیتیں ہیں۔

اس کے بعد یہ سوال ابھرتا ہے کہ ففتھ جنریشن وار کیا چیز ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پرفتن پر تعصب اور معاشی  عدم استحکام کے موجودہ دور کے پیچھے جو کہانی کار فرما ہے اسے صرف جنریشن وار کہا جاتا ہے بے شمار اصل فوج اور ایٹمی ہتھیاروں کی حامل آج کی دنیا میں جنگی حکمت عملی و میں بھی ایک دوسرے کے دشمنوں نے تبدیلیاں کی ہے اور انہی تبدیلیوں کو ففتھ جنریشن وار کہا جاتا ہے ففتھ جنریشن وار کے 3 طریقے  اب تک کامیاب تصور کیے جاتے ہیں۔


:1 اس  پہلے طریقے میں دشمن اپنے حریف ملک کے اندر موجود جاسوسوں کے ذریعے خانہ جنگی یا پھر داخلی انتشار کی فضا قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے لیے زیادہ تر مذہبی سیاسی اور شدت پسندانہ خیالات کے حامل افراد کو پیسے اور دیگر لالچ کے ذریعے یا پھر ایسے افراد کی نفسیاتی الجھنوں کو اپنے حق میں استعمال کرتے ہوئے اپنے مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں۔


2 :ہر ریاست اپنے مختلف نظریات کی بدولت معرض وجود میں آتی ہے اور یہی نظریات آئین اور قانون کی شکل میں اس لیے اس شرط پر لاگو کیے جاتے ہیں لہذا ففتھ جنریشن وار کے دوسرے طریقے کے ذریعے ریاست کے بنیادی تصورات کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرکے ریاست کی بنیاد کو کھوکھلا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
3 ا:پنی مخالف ریاست کے بارے میں بین الاقوامی سطح پر شدت سے منفی پروپیگنڈے کیے جاتے ہیں اور باقی تمام ممالک کو یہ پیغام مسلسل پہنچایا جاتا ہے کہ فلاں ریاست تمام افراد کے لیے خطرے سے خالی نہیں اس کے لئے عموما اس ریاست کے اندرونی خلفشار کو بین الاقوامی سطح پر اور سوشل میڈیا کے ذریعے تمام اقوام عالم تک پہنچایا جاتا ہے ان طریقوں کے علاوہ بھی کئی اور حربے اختیار کئے جاتے ہیں اپنے دشمن کو کمزور کرنے کے لیے۔

کسی بھی ملک کی افواج اور عوام کے درمیان یہاں پر حکومت اور عوام کے درمیان یا پھر مذہب اور عوام کے درمیان مختلف طریقوں سے دوریاں بڑھائی جاتی ہے اس کے علاوہ عوام کے درمیان سیاسی گرو ہیں فرقہ پرستی یا صوبائی تقسیم کی جاتی ہے۔ جب دشمن آپ نے یہ تمام ٹارگٹ حاصل کر لیتا ہے تو اس کے بعد پھر پوری طاقت سے اس پر حملہ آور ہوتا ہے جو کہ پہلے سے مضبوط حکمت عملی سے مخالف ریاست کی بنیادوں کو کھوکھلا کیا جا چکا ہوتا ہے اسی لیے فتح یقینی ہوتی ہے جنگوں کے مؤلفین اور ماہرین نے تفہیم کی خاطر اب تک جنگوں کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔

فرسٹ جنریشن، وار سیکنڈ جنریشن وار، تھرڈ جنریشن وار، اور فورتھ جنریشن وار۔ پانچ نسلوں کی تقسیم کے حوالے سے تو ماہرین متفق ہیں لیکن الگ جنریشن کی تاریخ پر اختلاف موجود ہے ان کی الگ الگ تفصیل درج ذیل ہے۔ففتھ جنریشن وار کا ایک حصہ ذہنی خلفشار،احساس عدم تحفظ، احساس کمتری پیدا کرنا ہے۔ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے میجر جنرل آصف غفور سے لے کر وزیر مملکت  برائے داخلہ شہریار آفریدی تک اور ان کی دیکھا دیکھی بہت سے میڈیا چیمپئن ففتھ جنریشن وار کی اصطلاح نہایت اور استعمال کر رہے ہیں مگر یہ فٹ جنریشن وار ہے کیا چیز ؟اس کی موٹی موٹی تقسیم یوں ہے۔


1 :فرسٹ جنریشن وار:
 قدیم لڑائیاں تھیں جن میں دشمن پر غلبہ کا ایک ہی طریقہ تھا کہ جس قبیلے ریاست یا بادشاہت کی فوج عدت بار سے بڑی ہوگی وہی کامیاب ہوگئی تاہم مروجہ معنوں میں جب جنگ دونوں طرف کے انسان آمنے سامنے رہ کر تلوار وغیرہ سے لڑا کرتے تھے تو ان کو فرسٹ جنریشن وار (پہلی بیڑی کی جنگی) کہا جاتا ہے۔ انگلش سول وار اور امریکہ کی جنگ آزادی اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔


2:سیکنڈ جنریشن وار:
 سیکنڈ جنریشن وار کا تصور یہ تھا کہ جس کے پاس دشمن سے بہتر اسلحہ تیز رفتاری اور بہتر فوجی تربیت ہوگی وہی کامیاب ہوگا یہ دور منجنیک اور آتش کی رو سے شروع ہوا برق رفتار منگور سواروں سے ہوتا بارودی بندوقوں کا مرحلہ وار کر کے انیسویں صدی کے اواخر تک بھاپ سے چلنے والے بحری جہازوں اور مشین گن کے متعارف ہونے پر ختم ہوا۔

جب ٹینک اور توپیں ایجاد ہوئی اور ان کے ذریعے جنگیں لڑی جانے لگی تو ان جنگوں کو سیکنڈ جنریشن وار دوسری بیماری کی جنگیں کہا جاگ یا بندوق اور دھوپ کی اجازت سے لے کر پہلی جنگ عظیم تک کی جنگیں اس کی مثالیں ہیں۔
وہاں اگر یہ اصطلاح استعمال ہورہی ہے تو بالکل الگ تناظر میں استعمال ہو رہی ہے  مثلا امریکہ کے صدارتی انتخابات میں روس نے سوشل میڈیا کے ذریعے جو اثر ڈالا اسے ففتھ جنریشن وار کا نام دیا جا رہا ہے باقی دنیا میں یہ اصطلاح سب سے زیادہ کی جنرل السیسی اور ان کے ترجمانوں کا یہ دعویٰ رہا کہ ان کی حکومت کے خلاف جو کچھ ہو رہا ہے  وہ فٹ جنریشن وار کے تحت ہورہا ہے جس کا بنیادی مقصد مصری فوج اور ریاست کو کمزور کرنا ہے مصر کے بعد اب یہ اصطلاح بڑی شدت کے ساتھ استعمال ہونے لگے اور میرا اندازہ ہے کہ چند ماہ بعد ہمیں ہر طرف اس اصطلاح کا ذکر اور خلا نظر آئے گا پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا خیال ہے کہ ان دنوں دشمن ممالک اور مختلف نان اسٹیٹ ایکٹرز نے پاکستان کے خلاف جنریشن وار چھیڑ دی ہے۔

اسی طرح مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر بھی فساد کو ہوا دی جا رہی ہے مختلف بنیادوں پر ذہنی انتشار اور تفریح کو ہوا دی جا رہی ہے اداروں کو آپس میں لڑانے کی کوشش ہورہی ہے جبکہ بے یقینی کی فضا پیدا کر کے پاکستانی معیشت کو بھی تباہ کیا جا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ ان دنوں سیاست صحافت حتی کہ عدالت کو بھی اس جنریشن وار کے آئینے میں دیکھا جا رہا ہے اور اسی تناظر میں ریاستی پالیسی تشکیل پارہی ہے۔

مبالغہ ہو سکتا ہے لیکن اس حد تک ہم جیسے طالب علم بھی اتفاق کرتے ہیں کہ پاکستان آصف جنریشن وار کی زد میں ہے تاہم سوال یہ ہے کہ مقابلہ کیسے کیا جائے؟ یا ہماری ریاست اس جنگ میں کس حد تک جواب دے رہی ہے اور اسے کیا کرنا چاہیے؟
 اسلام نے جو اصول ہمارے لئے مرتب کئے تھے ان میں ہمارے دین اور جو کی بقا تھی مشرقی روایات اور اسلامی اتوار نے ہمیں اس طرح جکڑ رکھا تھا کہ مذہب شرافت حیا خلوص محبت سے ہمارے ضابطہ حیات کی تشکیل ہوتی تھی رشتوں کا تقدس تھا والدین کی خدمت اساتذہ اور بزرگوں کا احترام ہماری تربیت میں شامل تھا ماں بچوں کو نماز قرآن دعائیں اٹھنے بیٹھنے کے طریقے اور بڑوں سے ادب تمیز سکھاتی تھی ان کے ہر فیلو حرکات و سکنات پر ماں کی نذر ہوتی تھی استاد قوم کو علم کے زیور سے آراستہ کرتے تھے تعلیمی سرگرمیوں کے باوجود ہمارے سے کٹے ہوئے نہیں تھے ہم سایوں سے رشتہ داروں سے میل  جال بیماروں کی احوال پرسی مہمان کی خاطر داری گھریلو اور بیرونی کاموں میں ماں باپ کا ہاتھ بٹانے کے لیے ہمارے پاس کھلا ٹائم تھا مہمان اگر بے وقت بھی آ جاتے تھے تو ان کے لئے دال ساتھ حاضر تھا دو کمروں کے گھر میں آٹھ دس افراد کے قیام کا بندوبست ہو جاتا تھا لیکن اب ہماری روایات بدل چکی ہیں۔

ہم اپنی مشرقی روایات کی زنجیروں کو توڑ کر مغرب کی زنجیروں میں بندھے چکے ہیں سوشل میڈیا کی چکا چوند نے ہماری چشم بصیرت چھین لی ہے دل و دماغ پر پردہ پڑ گیا ہے ضمیر پر برائیوں کی چھاپ ہے جامعہ ہے نا استاد اور نہ بڑے بزرگ شرم و حیا کے پردے جو بچوں اور بڑوں کے درمیان حائل تھے تار تار ہو چکے ہیں ہم ترقی کے نام پر لادینیت کی طرف بڑھ رہے ہیں ریڈیو سینیما اسٹیج ڈرامے تو پہلے بھی تھے لیکن گھر سے نکل کر ان تک پہنچنا اکثریت کے لیے معیوب تھا۔

مغرب نے ٹی وی ایجاد کر دیا گھر بیٹھے ڈراموں اور فلموں کی سہولت میسر ہوگی اور تو اور میڈیا نے اپنے کلچر کے علاوہ دوسرے ممالک جیسے انڈیا  اور ترکی وغیرہ کے کلچر کے ڈراموں کی یلغار کر دی یہ ہمارے اخلاق پر کاری ضرب تھی جو کارگر ثابت ہوئی اور پھر اسی پر اکتفا نہیں ہوا اسلام کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے لیے داعش کے بل اور انٹرنیٹ کا تحفہ دیا گیا اور پھر رہی سہی کسر انٹرنیٹ کے بھیجا اور غلط استعمال نے پوری کر نیٹ سے اور ہماری نئی نسل نہ دین نہ سونے کا وقت جاگنے کا اور نہ کھانے کا بچہ ہر وقت نیٹ پر موجود رہتے ہیں وہاں سے رشتہ ٹوٹ کر نیٹ سے جوڑ کر گیا ہے اب ان کی تربیت کا وہی ہے خدا بات سے بھرپور یہ تحفہ ہر بچے کے جیب اور بیگ میں موجود ہے۔

وہ کیا دیکھ رہے ہیں کس سے باتیں کر رہے ہیں کس سے دوستی کر رہے ہیں ان کی سرگرمیاں کیا ہیں والدین اپنے بچے کو بھی ایک بڑا سا موبائل اور لیپ کس کردیتے ہیں جو میت کے لیے زہر قاتل ہے بچے بچپن میں ہی اپنی ہے ہی نہیں اور حقیقتوں سے بے خبر اچھائی اور برائی کی پہچان سے پہلے وہ جوان ہو جاتے ہیں والدین ہوٹلوں اور کلبوں میں اور دعوتوں میں مصروف رہتے ہیں ماؤں کی ٹیلی فون پر لمبی کالز اور انٹرنیٹ پر  غیر ضروری مصروفیات کی وجہ سے بچے عدم توجہی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

بچے سوشل میڈیا کا سہارا لے کر اپنی ایک نئی دنیا بناتے ہیں اور اسی میں مگن رہتے ہیں کیا ہم واقعی ترقی پذیر دور میں داخل ہوچکے ہیں جو کچھ سیکھنا ہے انٹرنیٹ پر موجود ہے سارے بے ڈھنگے فیشن بالوں کے سٹائل انٹرنیٹ سے سیکھی ایسے فیشن کے مصنف پہچاننے میں مشکل درپیش آئے اور یہ لباس اور فیشن مغرب اور مشرق کی تمیز کو ختم کر رہے ہیں۔ ہم ایک اسلامی ملک میں غیر اسلامی انداز میں رہتے ہیں کلمہ پڑھنے کے بعد دین کی اصل روح اس کو بھول جاتے ہیں اپنی روایات پر چلنا ہمیں باعث تزہیک لگتا ہے اور غیروں کی روش پہ  چلنا باعث فخر ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا نے ہمیں ترقی یافتہ بنانے کا چکما دیا ہے ہم ترقی تو حاصل نہیں کرسکے مگر اپنا سب کچھ گنوا بیٹھے ہیں۔


"نوجوانوں کا مطلوبہ کردار ہے"
 آج امت کا نوجوان بے شمار مسائل اور الجھنوں میں گرا ہوا ہے ایک طرف غیر متوازن نظام تعلیم کے مسائل کا سامنا کر رہا ہے تو دوسری طرف اقتصادی مسائل سے دوچار ہے ایک طرف اگر وقت پر نکاح نہ ہونے کے مسائل ہیں تو دوسری طرف بے روزگاری کے مسائل نے پریشانیوں میں مبتلا کر رکھا ہے ۔ اسی طرح ناقص تعلیم و تربیت حیاسوز مغربی فکر و تہذیب کے پیدا کردہ مسائل علاوہ ازیں اپنے افکار کے پیدا کردہ مسائل اور الجھنوں کا انبار لگا ہوا ہے جس سے امت کا یہ اہم طبقہ 24 ہے یہ واضح رہے کہ نوجوان طبقہ مسائل کا سامنا کرنے سے کتراتا بھی ہے کیونکہ ان کو اسی سلسلے میں مطلوبہ رہنمائی نہیں مل رہی ہے تاکہ وہ ان مسائل سے باآسانی نبرد آزما ہو سکیں اس سلسلے میں ماں باپ علماء اور دانشوروں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ  وہ مربیانہ کردار ادا کریں تاکہ نوجوان طبقہ مستقبل میں ملت اور سماج کی تعمیر اور اصلاح کے لیے موثر کردار ادا کرسکے اس حوالے سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ تربیتی منہج سامنے رکھنا چاہیے جس میں بڑے بڑے معرکے سر انجام دیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نوجوانوں کے اس رجحان اور طبیعت کو مدنظر رکھتے ہوئے تربیت کر کے ذمہ داریاں سونپتے تھے۔


1: اخلاق باختگی اور نوجوان:
 آج وہاں شیوار یعنیت ننگا ناچ اور حیا سوز ذرائع ابلاغ ہر گھر اور خاندان کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں بے شمار رسائل و جرائد اور اخبارات بھی حیائی کو فروغ دے رہے ہیں انٹرنیٹ پر ان گنت ہیں اس ویب سائٹ پر موجود ہیں جن کا ہر نوجوان کی رسائی باآسانی ہوجاتی ہے جب تک اور کالج سے لیکر بازار حسن تک بھی ہیں پر مبنی ماحول کا سامنا ہے ایسا معاشرہ اور فضا نوجوان کی جنسی خواہشات کو برانگیختہ کر دیتی ہے۔

بے حیائی اخلاق باختگی ایک ایسی وبا ہے جو بڑی تیزی کے ساتھ اپنے اثرات دکھا رہی ہے جس کی بدولت آج نوجوان میں خوف تناؤ ذہنی اور نفسیاتی پریشانیاں دن بدن بڑھتی جا رہی ہیں برائیوں پریشانیوں میں بے حیائی اور  رذائل اخلاق دیمک کی طرح نوجوانوں کو کھائے جا رہے ہیں اطمینان قلب تطہیر ذہن ہیں آپ سندی پاکدامنی اور حسن اخلاق سے نوجوانوں کو متحد کرنا وقت کا ایک تجدیدی کام ہوگا بقول مولانا ابوالحسن علی ندوی وقت کا تجدیدی کام یہ ہے کہ امت کے نوجوان اور تعلیم یافتہ طبقے میں اسلام کی اساسیات اور اس کے نظام حقائق اور رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا اعتماد واپس لایا جائے  جس کا رشتہ اس طبقے کے ہاتھ سے چھوٹ چکا ہے آج کی سب سے بڑی عبادت یہی ہے کہ اس فکری آفتاب اور نفسیاتی الجھنوں کا علاج بہم پہنچایا جائے جس میں آج کا تعلیم یافتہ نوجوان بری طرح گرفتار ہے اور اس کی اقلیت اور علمی ذہن کو اسلام پر پوری طرح مطمئن کر دیا جائے۔


2: جدید تعلیم و نظریات سے اپنے آپ کو آراستہ کرنا:
 آج کے نوجوانوں کو اس دور میں کامیاب ہونے اور اس فتنہ پرور ماحول میں اپنے باپ کا قائم رکھنے کے لئے سب سے ضروری پہلو یہ ہے کہ جدید تعلیم اور جدید نظریات سے آشنائی حاصل ہو کبھی معلوم اور سینہ بہ سینہ آنے والے علم تو گر جاتے ہیں لیکن انسان جدید دور کی مشکلات کو حل کرنے سے قاصر ہے اس دور جدید میں جہاں اب تک  جنگ صرف دماغ کی رہ گئی ہے ایک دوسرے کو تعلیم معیشت اور بائیو ویپن کے ذریعے شکست دی جاتی ہے اس میں سب سے بڑی رکاوٹ آج کا نوجوان بن سکتا ہے جب اس دور کے جدید علوم سے واقف ہوگا اس لئے آج کے نوجوانوں کے لیے جدید تعلیم و نظریات حاصل کرنا بہت ضروری ہے اسی سے معاشرے میں اصلاح ہوسکتی ہے اور اس کی ہر چال کو روکا جا سکتا ہے۔


3: تمام ابلاغی اور معلوماتی ذرائع پر متحرک ہو:
 ابلاغی جنگ  اس دور میں جہاں ذرائع ابلاغ پاکستان میں منفی سوچ پھیلا رہے ہیں اور لوگوں میں احساس کمتری پیدا کرنے میں پیش پیش ہے نوجوان نسل کو چاہیے کہ اس جنگ میں اپنا کردار ادا کریں اور معلوماتی ذرائع پر متحرک رہیں اگر منفی سوچ کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں جو احساس کمتری پھیلاتی نظر آئیں یا غلط معلومات پھیلانے کی کوشش کریں۔

ان کا جواب دینے کے لیے نوجوان نسل کو ہر دم تیار رہنا چاہیے تاکہ ان سے آگے آنے والی نسل اس سے کچھ حاصل کرے اور پاکستان کو منفی فکروں سے بچایا جا سکے۔
4: حکومتی اور عسکری اداروں کی حمایت:
 اس ففتھ جنریشن وار کے عہد میں لوگوں کو حکومت یا فوج کے خلاف کر دیا جاتا ہے ان کی سوچ میں فتور پیدا کردیا جاتا ہے یہ حکومت کو فوج کے خلاف اقدامات کیے جاتے ہیں یا ایک ملک میں اداروں کو اداروں سے لڑایا جاتا ہے ان تمام صورتحال سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ نوجوان نسل حکومت اور فوج پر پورا اعتماد ظاہر کرے اور کسی ایسے پراپیگنڈے کا حصہ نہ بنے جس سے عوام اور حکومت یا فوج میں تصادم پیدا ہو۔


5: سوشل میڈیا کا صحیح استعمال:
 آج دنیا گلوبل ویلج بن گئی ہے ہر کسی کے ہاتھ میں ٹیکنالوجی کی صورت میں موبائل موجود ہے کسی بھی چیز کے بارے میں معلومات بآسانی مل سکتی ہیں اس  کام میں سوشل میڈیا یہ اہم کردار ادا کر رہا ہے لیکن اس کے منفی اثرات بھی ہے یہ بندوں کو اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے پھر جنریشن وار میں ایک ریڈھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔

جب کوئی ملک کسی دوسرے ملک پر حملہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو سب سے پہلے سوشل میڈیا کا استعمال کرتا ہے اور ان کا شکار نوجوان نسل ہوتی ہے کے 80 فیصد نوجوان سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں اس پر نوجوانوں کو چاہئے کہ سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کریں اور جس طرح دوسرے ملک اپنے دین کی تشہیر کرتے ہیں ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اسلام کا چہرہ سامنے کر اور ان تمام پروپیگنڈوں سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کریں۔

اور اس طرح کے پروگرامز کا انعقاد کیا جائے گا جو اسلام کے اوپر لگے دھاگوں کو دھوئیں اور اسلام کے صحیح تصور سامنے لائے اس کے لیے YouTube channel بنائیں اور اس کے علاوہ WhatsApp groups  بنائے جائیں اور تمام اسلامی معلومات کو زیادہ سے زیادہ شیئر کیاجائے جیسے سلطنت عثمانیہ کی تاریخ اس کو خود بھی پڑھیں اور اس کو شیئر کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :