جنگلات کاتحفظ ہم پرفرض

جمعرات 29 نومبر 2018

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

ہمیں آج بھی گاؤں کے وہ بدقسمت جنگلات یادہیں جن پرروزانہ کئی اطراف سے نہ صرف تابڑتوڑحملے ہوتے تھے بلکہ ان حملوں میں ان جنگلات کے حسن کوچارچاندلگانے والے سرسبزدرختوں اورنوخیزپودوں کو تیزدھارآری اورکلہاڑیوں سے اس قدر بے دردی کے ساتھ نشانہ بنایاجاتاکہ ہمارے جیسے کوئی کمزوردل انسان وہ منظراگرایک باربھی دیکھتاتوپھرمعصوم پودوں اوربے زبان درختوں کے غم میں وہ سالہاسال آنسوپونچھتارہتا۔

اس وقت ہرطرف جنگلات ہی جنگلات اورسبزہ ہی سبزہ ہوتاتھالیکن اس دورمیں جنگلات اوردرختوں سے زیادہ لکڑکواہمیت دی جاتی تھی۔اس دورمیں ان جنگلات کے جورکھوالے تھے وہ بھی عام لوگوں کی طرح بے زبان درختوں اورمعصوم پودوں سے زیادہ ان درختوں اورپودوں کے بدن میں چھلکے تلے چھپے قیمتی لکڑسے محبت اورپیارکیاکرتے تھے۔

(جاری ہے)

جنگلات کے رکھوالوں اورتباہ کاروں کامشن اورمقصدایک ہونے کی وجہ سے اس زمانے میں چندروپے کمانے کی خاطر درختوں کی بے دریغ کٹائی اورقتل عام کوثواب کادرجہ دیاجاتاتھا۔

شائدیہی وجہ تھی کہ گاؤں سے کچھ فاصلے پرواقع مسجدمیں قاعدہ پڑھنے کے لئے روزصبح آنکھیں ملتے ہوئے جب ہم جاتے توسب سے پہلے ہماری نظریں ان خچروں اورگدھوں پرپڑتیں جن کی تعداد درجن سے زائدہواکرتی تھیں۔گرین گولڈکے دشمن روزان خچروں اورگدھوں پرجنگلات کاحسن لادکردکانوں اوربازاروں میں نیلام عام کرنے کے لئے پیش کرتے اورپھراس کے کچھ دام وصول کرکے باقی رہ جانے والے بے زبان درختوں اورمعصوم پودوں کوقربانی کابکرابنانے کے لئے ایک مرتبہ پھر جنگلات کارخ کردیتے۔

جہاں تک ہمیں یادہے یہ سلسلہ سال دو نہیں بلکہ اس وقت تک چلتارہاجب تک خیبرپختونخوامیں تحریک انصاف کی حکومت نہیں آئی تھی۔ خیبرپختونخوامیں تحریک انصاف کی حکومت آنے سے پہلے جب سالوں بعدہمیں علاقے میں جاناہواتوجنگلات کابوجھ اٹھانے والے خچراورگدھے توہمیں ہرطرف نظرآئے لیکن وہ سرسبزاورگھنے جنگلات جنہیں دیکھ کردل باغ باغ اورذہن تروتازہ ہوجاتاتھادوردورتک دکھائی نہیں دےئے۔


انسانی ہاتھوں سے بنائے گئے چٹیل میدان آج اگرایک مرتبہ پھرسرسبزنظارے پیش کرنے کے ساتھ جنگلات کی موجودگی کااحساس دلارہے ہیں تواس میں محکمہ جنگلات کے سابق اورموجودہ سیکرٹری جنہیں اگرگرین گولڈکاہیروکہاجائے توبے جانہ ہوگاسیدنذرحسین شاہ اورموجودہ وزیراعظم عمران خان کابہت بڑاہاتھ ہے۔ہزارہ کے شہرایبٹ آبادسے تعلق رکھنے والے سادہ طبیعت کے مالک ،جرات ،بہادری اورایمانداری کے پیکرسیدنذرحسین شاہ نے بے زبان درختوں کوجس طرح زبان دے کرنوخیزپودوں کی آبیاری کی وہ تاریخ کاایک اہم حصہ اورروشن قدم ہے۔

آج اگرہزارہ سمیت خیبرپختونخوامیں جگہ جگہ سرسبزجنگلات کادیدارنصیب ہورہاہے تواس میں وزیراعظم عمران خان کے ساتھ سیدنذرحسین شاہ کابھی بہت بڑاہاتھ ہے۔ سیدنذرحسین شاہ اگرگرین گولڈکے تحفظ کاٹاسک ایمانداری سے پورانہ کرتے توماضی کی طرح آج بھی ہرجگہ ٹمبرمافیااوربے زبان درختوں اورمعصوم پودوں کے قاتلوں کاراج ہوتا،محکمہ جنگلات اوریہ فارسٹر،رینج آفیسروغیرہ توپہلے بھی تھے لیکن تحریک انصاف کی حکومت تک محکمہ جنگلات کے کسی سیکرٹری،رینج آفیسراورفارسٹرکوٹمبرمافیاپرہاتھ ڈالنے کی جرات نہیں ہوئی،ٹمبرسمگلروں نے پہلے توہرافسراورجنگلات کے چوکیداروں کوقائداعظم کی تازہ تصاویردکھاکرخاموش کرایا،قائداعظم کی دیدارسے جوخاموش نہیں ہوئے انہیں پھرکسی اورطریقے سے بے ضمیرکیالیکن قربان جائیں سیدنذرحسین شاہ پرکہ جوکمزورجسم اورناتواں کندھوں پر جنگلات کی حفاظت کابوجھ اٹھاگئے۔

نذرحسین شاہ بھی اگرمحکمہ جنگلات کے سابق سیکرٹریوں اورلش پش سرکاری گاڑیوں میں سیرسپاٹے کرنے والے دیگر افسران کی طرح عیاشیوں کاکام شروع کرکے ٹمبرمافیاکے سامنے ہتھیارڈال دیتے توآج ہزارہ سمیت خیبرپختونخوامیں یہ گھنے جنگلات اورنوخیزپودے اس طرح کبھی بھی نہ کھلکھلاتے ۔نبض شناسی کے سلیقے وہنرسے محروم اورہرچمکتے چہرے پردھوکہ کھانے والے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے گرین گولڈکے تحفظ کے لئے سیدنذرحسین شاہ کاانتخاب ہی صرف ایک ایساانتخاب ہے جس پرانسان کوغم،افسوس اورہاتھ ملنے کی بجائے سرفخرسے بلندکرکے رشک آنے لگتاہے۔


جنگلات کے اسی تحفظ کے باعث ہی توہم لاکھ سیاسی اورنظریاتی اختلافات کے باوجود خیبرپختونخواباالخصوص ہزارہ میں گرین گولڈکے تحفظ پروزیراعظم عمران خان اور تحریک انصاف کوخراج تحسین پیش کئے بغیرنہیں رہ سکتے۔کیونکہ کل تک یہاں درخت لگانے کا نہیں بلکہ کاٹنے کارواج عام تھامگرآج ایسانہیں ،اب درخت کاٹے نہیں جاتے بلکہ ثواب کی نیت سے ہرجگہ لگائے جاتے ہیں کیونکہ لوگ سمجھ گئے کہ درخت ہی آکسیجن کا اہم ترین ذریعہ ہے، یہ ہمارے ایکوسسٹم کو بہتر بناتے ہیں اور ہمارا تعلق فطرت سے قائم رکھتے ہیں،جنگلات ماحول کو ٹھنڈا اور خوشگوار بنانے، آکسیجن کی زیادہ مقدار فراہم کرنے اور عمارتی لکڑی حاصل کرنے کے لئے ہی ضروری نہیں بلکہ یہاں انواع و اقسام کے پرندے، جانور اور حشرات الارض بھی پرورش پاتے ہیں۔

جنگلات میں پیدا ہونے والی جڑی بوٹیاں، پھل پھول، شہد اور دیگر اشیاء انسان کی بہت سی ضروریات پوری کرتی ہیں۔ ہر ملک کے کم از کم پچیس سے چالیس فیصد رقبے پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے۔جنگلات فضاء میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کو بڑھنے نہیں دیتے کیونکہ انھیں خود اس گیس کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ آکسیجن خارج کرتے ہیں جو انسانی زندگی کے لئے لازمی ہے۔

ایک عام درخت سال میں تقریبا بارہ کلو گرام کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتا ہے اور چار افراد کے کنبے کے لئے سال بھر کی آکسیجن فراہم کرتا ہے۔ ایک ایکڑ میں موجود درخت سالانہ چھ ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں۔ بھیڑ، بکری، اونٹ جیسے حیوانات اپنی غذا ان ہی جنگلات سے حاصل کرتے ہیں۔ماحولیاتی آلودگی آج ہمارے لئے ایک ایسے سنگین اور خطرناک مسئلے کے طور پر ابھر رہی ہے جس کا سدباب نہ کیا گیا تو آنے والے دنوں میں ہمارا ماحول اپنے قدرتی اور فطری پن کو کھو بیٹھے گا اور آنے والی نسلیں متعدد بیماریوں میں مبتلا ہوکر معاشرے کو ایک اذیت زدہ معاشرہ بنادے گی۔


آج کل جس خطرے سے دنیا زیادہ تر پریشان ہے اور دنیا کو اس کا سامنا ہے۔وہ یہی ماحولیاتی تبدیلی ہے جس سے اس وقت پوری دنیا متا ثر ہو رہی ہے۔ وہ خطے زیادہ اس کے لپیٹ میں ہے، جہا ں پر جنگلات کی کمی ہے اور مقررہ رقبے سے کم ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کی روک تھام میں جو واحد چیز اپنا مئوثر کردار ادا کرسکتی ہے وہ زیادہ مقدار میں جنگلات ہیں۔ جن خطوں میں جنگلات کا رقبہ زیادہ ہے وہاں پر ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات اس علاقے کے مقابلے میں کم بلکہ انتہائی کم ہیں جہاں پر جنگلات کی تعداد کم ہے۔

جنگلات صرف ہماری نہیں بلکہ اللہ پاک کی دیگرمخلوقات کی بقاء کے لئے بھی ناگزیرہے۔ایک درخت سے پتہ نہیں کتنی زندگیاں جڑی ہوتی ہیں اورنہ جانے اس پر کتنے پرندوں کے گھرآبادہوتے ہیں مگراس کے باوجوداس بارے میں سوچنے اورسمجھنے کی بجائے ہم درختوں کاقتل عام کرتے جاتے ہیں ۔جنگلات ہماری بقاء اورتحفظ کیلئے ضروری حدسے زیادہ ضروری ہیں ۔اس لئے سیکرٹری جنگلات خیبرپختونخواسیدنذرحسین شاہ کی طرح ہم سب کوذات اورمفادسے ہٹ کرملک میں جنگلات کے فروغ اورتحفظ کے لئے اپنااپناکرداراداکرناچاہئے تاکہ حقیقت کی دنیامیں گرین پاکستان کاخواب شرمندہ تعبیرہوسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :