وفاداری اورغداری سے حاجی صاحب تک

بدھ 4 نومبر 2020

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

غداری اوروفاداری کے سرٹیفکیٹ ہاتھ میں لئے گلی۔۔محلوں اور کوچہ وبازار میں سب بانٹ رہے ہیں مگرملک کے اندرکمرتوڑ مہنگائی ،غربت اوربیروزگاری کی وجہ سے گھرگھرجوآگ لگی ہوئی ہے اسے بجھانے کی کسی کوکوئی فکرہے اورنہ ہی کوئی خیال۔۔ کیا حکومت۔۔؟ اور کیا اپوزیشن۔۔؟سب ایک ہی جگہ کی خاک اورایک ہی خمیرکی پیداوارہیں۔۔سیاسی سکورنگ اور نمبر بڑھانے کیلئے ایک دوسرے کے گلے میں غداری کے طوق اوروفاداری کے گولڈمیڈل ڈالنے والوں کی اصلیت سے کیا۔

۔؟عوام واقف نہیں۔۔؟کون غداراورکون وفادار۔۔؟میرجعفروں سے لیکرمیرصادقوں تک ۔۔کون کتناپانی میں ہے۔۔؟اس حقیقت کاعوام کوجتناعلم ہے شائدکہ اتناخودان غداروں اور وفاداروں کوبھی نہ ہو۔۔عوام کوتویہ بھی پتہ ہے کہ کس نے مودی کی راہوں میں پلکیں بچھائیں۔

(جاری ہے)

۔ اورعوام اس سے بھی بے خبرنہیں کہ کس نے مودی کی کامیابی کیلئے دعاؤں پردعائیں مانگیں۔

۔ سچ پوچھیں توالف سے لیکری اوراے سے لیکر زیڈتک یہ سارے ایک سے بڑھ کرایک وفادار ہیں۔۔باقی غداراورگنہگارتوصرف بے چارے عوام ہیں کہ جوسترسال سے مفت میں ان کے ہرکٹوے کاایندھن بن رہے ہیں۔۔غداراوروفاداراگرانہی صفوں اوربالائی منزلوں پرہیں توپھربے چارے عوام کوکس جرم۔۔کس گناہ اورکس غلطی کی سزادی جارہی ہے۔۔؟پرنٹ ۔۔الیکٹرانک اورسوشل میڈیاپرٹاک شوز۔

۔پریس کانفرنسز۔۔جلسے اورجلوسوں میں عوام کے سامنے کشتیاں لڑکریہ ایک دوسرے کوغداراوروفادارکہنے کے ساتھ ماں بہن کی گالیاں تک دیتے ہیں لیکن بندکمروں میں پھرملک اورقوم کولوٹنے کیلئے یہ سب ایک اوریکجان ہوتے ہیں۔۔تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔۔یہ ملک کسی فرد۔۔کسی پارٹی اورکسی گروہ نے اس طرح اکیلے نہیں کھایا۔۔اس چمن کواجاڑنے میں ہاتھ سب کاہے۔

۔ایک کھاتاہے دوسراگاتاہے۔۔ایک ملک کولوٹتاہے دوسرااس کی چوکیداری اورنگہبانی کرتاہے۔۔یہی اس ملک میں سترسال سے ہورہاہے اورکوئی مانے یانہ۔۔حق اورسچ یہ ہے کہ آج بھی ملک میں یہی کچھ ہورہاہے۔۔کیاتحریک انصاف۔۔کیامسلم لیگ ن۔۔کیاپیپلزپارٹی ۔۔کیاجے یوآئی۔۔کیاجماعت اسلامی۔۔کیااے این پی۔۔کیاوزیراعظم عمران خان ۔۔کیانوازشریف۔۔کیاآصف علی زرداری۔

۔کیامولانافضل الرحمن ۔۔کیاسراج الحق اورکیاآفتاب شیرپاؤ۔۔یہ سارے وفادارہیں تواپنے لئے۔۔ایماندارہیں تواپنے لئے۔۔خوددارہیں تواپنے لئے۔۔خدمتگارہیں تواپنے لئے۔۔نرم دل ہیں تواپنے لئے۔۔رہے عوام توان بے چاروں کے لئے یہ سب سترسال پہلے بھی حاجی صاحب تھے اورآج بھی یہ اس ملک اورقوم کیلئے اس حاجی صاحب سے ذرہ بھی کچھ کم نہیں۔اب آپ سوچتے ہونگے کہ کونسے حاجی صاحب ۔

۔؟معذرت کے ساتھ حج کرنے والے یاہمارے والے حاجی عارف سلطان نہیں وہ سائیکل والے حاجی صاحب ۔۔اب سائیکل والے حاجی صاحب کے بارے میں یہ آپ خودپڑھیں ۔کہتے ہیں کہ حاجی صاحب مالش کرنے والے سے مالش کروا رہے تھے کہ اتنے میں ایک آدمی آیا اور کہنے لگا۔۔کیا حال ہے حاجی صاحب۔۔آپ نظر نہیں آتے آج کل۔۔؟حاجی صاحب نے اس کی بات سنی ان سنی کر دی۔۔وہ بندہ کہنے لگا۔

۔حاجی صاحب۔۔میں آپ کی سائیکل لے کے جا رہا ہوں اوریوں وہ سائیکل لیکروہاں سے نودوگیارہ ہوگیا۔۔وہ سائیکل مالشی کی تھی۔۔کافی دیر ہو گئی تو مالشی کہنے لگا۔۔حاجی صاحب۔۔آپ کا دوست ابھی تک میری سائیکل واپس لے کر آیا نہیں۔۔؟حاجی صاحب بولے ۔۔" وہ تومیرا دوست نہیں تھا"۔۔مالشی بولا۔۔"مگر وہ تو آپ سے باتیں کر رہا تھا"۔۔حاجی صاحب بولے۔۔میں تو اس کو جانتا ہی نہیں ہوں۔

۔میں تو سمجھا تھا کہ وہ تمہارا دوست ہے۔۔مالشی بولا۔۔حاجی صاحب۔۔ میں غریب آدمی ہوں۔۔میں تو لٹ گیا۔۔حاجی حاحب بولے۔۔اچھا تو رو مت۔۔ میں تجھے نئی سائیکل لیکر دیتا ہوں۔۔تم سائیکل والی دکان پر جا کے پسند کر لو۔۔مالشی نے ایک سائیکل پسند کی۔۔اور چکر لگا کے دیکھا۔۔واپسی پر آکر کہنے لگا کہ حاجی صاحب یہ سائیکل ذرا ٹیڑھی چل رہی ہے۔۔حاجی صاحب نے کہا۔

۔جا یار نئی سائیکل ہے۔۔یہ ٹھیک ہوگی۔۔ویسے آپ کوٹیڑھی لگ رہی ہوگی۔۔دکھا میں چیک کرتا ہوں۔۔حاجی صاحب سائیکل پر چکر لگانے گئے اورپھرآج تک واپس نہیں آئے۔۔مالشی کو اس سائیکل کے پیسے بھی دینے پڑ گئے۔۔مالشی والاحال اس بدقسمت قوم کابھی ہے۔۔ان کابھی جن سے واسطہ پڑھتاہے۔۔وہ ایک سے بڑھ کرحاجی صاحب نکلتاہے۔۔سابقہ حاجیوں کوتوچھوڑو۔۔ریاست مدینہ کے اس نئے حاجی صاحب سے عوام نے کتنی امیدیں۔

۔امنگیں اورتمنائیں باندھیں تھیں۔۔عوام کوان سے کیاکیاتوقعات نہیں تھیں۔۔لیکن خوددیکھیں۔۔پورے دوسال میں اس حاجی صاحب نے عوام کے ساتھ کیانہیں کیا۔۔؟یہ حاجی صاحب آئے تھے سترسال سے ملک لوٹنے والے چوروں اورڈاکوؤں کے پیٹ کاٹنے ۔۔ان کونشان عبرت بنانے ۔۔انہیں گھسیٹنے اوران کاگریبان پھاڑنے۔۔اورلگ گئے غریب عوام کودن میں تارے دکھانے کے کام پر۔

۔واہ حاجی صاحب واہ۔۔واقعی آپ نے اس بھولی بھالی قوم کودن میں تارے بھی دکھادیئے۔۔پیٹ میں بھوک سے کیڑے انگڑائیاں لیکرچیخ وپکارکررہی ہوں اورکھانے کیلئے ایک نوالہ تک نہ ہو۔۔پھردن میں تارے تونظرآتے ہیں۔۔اقتدارسے باہرشرم وحیاسے عاری۔۔بے حس اورظالم سیاستدان تودیکھے تھے لیکن حکمران پہلی باردیکھے۔۔ایسے بے حس اورظالم بھی حکمران ہوتے ہیں ۔

۔؟واللہ باہرمہنگائی ،غربت ۔۔بیروزگاری اوربھوک وافلاس کے ہاتھوں غریبوں کی آہ وبکا۔۔چیخ وپکاراورفریاداوراقتدارمیں ایسے بے حس حکمرانوں کودیکھ کرایک خوف ساآنے لگتاہے۔۔یہ جوگھرکانظام چلانے کیلئے ایک ایک پائی ۔۔یہ جوبچوں کی آہوں اوسسکیوں کوبندکرنے کیلئے روٹی کے ایک ایک نوالے اورزندگی کی گاڑی کوآگے دوڑانے کیلئے ڈسپرین کی ایک ایک گولی کیلئے ایڑھیاں رگڑرگڑکرتڑپ رہے ہیں۔

۔یہ جوروٹی نہ ملنے پرراتوں کوبھوکے سوتے ہیں ۔۔یہ جودوائی نہ ملنے پردنیاسے روٹھ کے جاتے ہیں ۔۔یہ جوتھانوں میں لاتیں اورکچہریوں میں دھکے کھاتے ہیں۔۔یہ جوروزگارنہ ملنے پرپنکھوں اوردرختوں سے جھوم جاتے ہیں ۔۔یہ جوحکمرانوں کاعذب وعذاب برداشت نہ کرکے دریاؤں میں چھلانگ لگاکرخودکشیاں اورآتش میں کودکرخودسوزیاں کرتے ہیں۔۔آخران کے بارے میں جواب توکسی نہ کسی کودیناہوگا۔۔سیاسی کتابوں میں یہ وفاداربنیں یاغدارٹھہریں۔۔عوام کے لئے یہ سب کل بھی حاجی صاحب تھے اوریہ آج بھی حاجی صاحب سے کچھ کم نہیں۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :