جدید موبائل ایپس کا کرشمہ ۔ سفارشی نظام سے چھٹکارا

جمعہ 5 نومبر 2021

Yasir Farooq Usman

یاسر فاروق عثمان

بند نالی کا پانی سڑک پر آ رہا تھا اور اڑنے والے چھینٹے وہاں سے گذرنے والے لوگوں کے کپڑوں کو ناپاک کررہے تھے۔ مسئلے کے حل کے لیے محلے کے لوگ جمع ہوئے اور مشاورت کے بعد ایک وفد نے مقامی کونسلر سے ملاقات کرکے مسئلہ حل کروانے کی درخواست کی ۔کونسلر نے وفد کی موجودگی میں سنیٹری انسپکٹر کا نمبر ملا کر صفائی کے احکامات جاری کیے۔

اگلے دن ہی صفائی کے عملے نے بند نالی کو کھول دیا جس کے بعد پورا علاقہ کونسلر صاحب کے گن گانے لگا اور لوگوں نے ٹھان لی کے اگلی بار ووٹ کونسلر صاحب ہی کو دینا ہے۔ مجھے جب ایک دوست نے یہ واقعہ سنایا تو ذہن فوری طور پر قدرت اللہ شہاب کی طرف چلا گیا۔ جھنگ کی ڈپٹی کمشنر ی کے دوران ایک زمینداراُن سے ملنے آیااور اس دوران تعلیم کے فضائل پر طویل تقریر کے بعد پیشکش کی کہ اگر انکے پڑوس والے گاوں میں پرائمری سکول کھول دیا جائے تو سکول کے لیے مفت زمین، کمروں کی تعمیر کے لیے رقم اور ایک استاد کی پورے سال کی تنخواہ وہ اپنی جیب سے دے گا۔

(جاری ہے)

شہاب نے زمیندار کے جذبے سے متاثر ہوکر یقین دہانی کروائی کہ وہ نہ صرف سکول بنوا دیں گے بلکہ افتتاح کے لیے وزیر اعظم کو بھی بلانے کی کوشش کریں گے۔ یہ سن کر زمیندارصاحب خوشی خوشی واپس چلے گئے۔ چند دنوں بعداسی علاقے کا ایک اور زمیندار شہاب صاحب کے پاس آیااور چھوٹتے ہی گلہ شکوہ کرتے ہوئے کہنے لگا کہ جناب میں نے کیا قصور کیا ہے کہ مجھے اس قدر کڑی سزا دی جا رہی ہے؟شہاب صاحب نے حیران ہوکر وجہ پوچھی تو زمیندار کہنے لگا کہ جس شخص سے آپ نے سکول کھولنے کا وعدہ کیا ہے،وہ میرا مخالف ہے اور آپ سے میرے علاقے میں سکول بنانے کا وعدہ کسی نیک نیتی سے نہیں بلکہ اس لیے لے کر گیا ہے تاکہ میرے علاقے کے لوگ پڑھ لکھ (کر باشعورہو)جائیں ۔

شہاب نے زمیندار کو مشورہ دیا کہ وہ بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہوئے پہلے زمیندار کے گاوں میں سکول کھلوا دے جسے سن کر اِن صاحب کو تھوڑی تسلی ہوئی اوروہ وہاں سے روانہ ہو گئے۔ قدرت اللہ شہاب کہتے ہیں کہ اسکے بعد دونوں میں سے کوئی بھی میرے پاس نہیں آیا اور شاید اسکی وجہ یہ ہو کہ انہوں نے باہمی نظریہ ضرورت کے تحت ایک دوسرے سے سمجھوتہ کر لیا ہو کہ کوئی بھی دوسرے علاقے میں سکول نہیں بنائے گا ۔

شاید دونوں زمیندار سمجھتے تھے کہ تعلیم لوگوں کو وہ شعور عطا کردے گی جس کے آتے ہی لوگ اُن کو اہمیت دینا بند کر دیں گے۔ قارئین کرام! ایک زمانہ تھا کہ خواندگی کی شرح کم تھی ،زیادہ تر لوگوں کو اپنے شہری حقوق کا علم نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی انہیں دفتری معاملات کی سمجھ بوجھ ہوتی تھی جسکی وجہ سے وہ اپنے معمولی معمولی کاموں کے لیے علاقے کے بااثر افراد کے محتاج ہوتے تھے ۔

جدید طور میں تعلیم عام ہو چکی ہے اور سائنسی ترقی نے عام آدمی کو بااختیار بنا دیا ہے۔ سمارٹ فون کی ایجاد کے ساتھ ہی طرح طرح کی ایپس بنائی جانے لگیں ۔پاکستان میں بھی شہریوں کی سہولیات کے لیے مختلف ایپس لانچ کی گئیں۔ان کرشماتی ایپس کی بدولت اب شہریوں کو کسی کونسلر یا سیاسی نمائندے کو اپنا دکھڑا سنانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ کسی زمانے میں عام آدمی کے لیے پولیس تک رسائی ایک خوفناک مرحلہ ہوتا تھا لیکن راولپنڈی پولیس نے سٹیزن کنیکٹ ایپلیکشن کے ذریعے شہریوں کوسینئر ترین پولیس آفیسرز تک براہ راست رسائی دے کر کمال ہی کردیا جس سے سٹیزن فرینڈلی پولیسنگ کے تصور کو مزید تقویت ملی۔

سٹریٹ لائٹس کی مرمت،سڑکوں کی صفائی ، پانی کی شکایات اور ٹیکس کے معاملات کے لیے پہلے شہریوں کو مقامی کونسلرز کا احسان مند ہونا پڑتا تھا لیکن کنٹونمنٹ بورڈز کی سی بی کیئر نامی ایپ نے شہریوں کی یہ مشکل آسان کر دی اور اب کونسلر کی مدد کے بغیرگھر بیٹھے مسائل حل ہونا شروع ہوگئے ۔پاکستان سٹیزن پورٹل نے معاشرے کے لاچار طبقے کے ہاتھ میں جہانگیری عدل کی وہ زنجیر تھما دی جسے گھر بیٹھے ہوئے ہلا کر وہ متعلقہ افراد کو اپنی فریاد پہنچا سکتے ہیں۔

چونکہ ان ایپس میں ہر مرحلے کی کارروائی اور صرف شدہ وقت کا باقاعدہ اندراج ہوتا رہتا ہے لہذا متعلقہ اہلکار بھی سفارشوں کے بغیر مستعدی کا مظاہرہ کرنے لگے۔سوال یہ ہے کہ آج بھی اکثریت اپنے کاموں کے لیے بااثر افراد کی محتاج کیوں رہتی ہے؟اسکی پہلی وجہ عوام کی اکثریت کی ان ایپس کے متعلق لاعلمی ہے جبکہ دوسری اور اہم ترین وجہ ان ایپس کے استعمال میں ہمارے لوگوں کی وہ سستی ہے جسکی قیمت انہیں بااثر افراد سے سفارشیں کروانے اور انکا احسان مند ہونے کی صورت میں دینی پڑتی ہے۔

قارئین کرام، کوئی بھی نظام اسوقت کامیاب ہوتا ہے جب اسکو استعمال کرنے والے بھی ہوں۔ مذکورہ ایپس کے متعلق عوامی آگاہی پیدا کرنااور انکے استعمال کو یقینی بنانا آج کے دور کا وہ اہم ترین تقاضا ہے جسے پورا کرنے کے لیے متعلقہ اداروں اور افراد کومحنت کرنی ہو گی کیونکہ یہ ایپس شعور کی وہ نئی الیکٹرانک صورت ہیں جن سے جدید دور کی جاگیردارانہ ذہنیت خوفزدہ ہے ۔ متعلقہ اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ ان ایپس کے سسٹم کو مزید آسان بنا کر عوامی سطح پر بھرپور آگاہی مہمات چلائیں تاکہ ہرشخص گھر بیٹھے ان سہولیات سے فائدہ اٹھا سکے اور آئے روز کے دفتری چکروں اور خواری سے اسکی جان چھوٹ سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :