سوشل میڈیا اور چوکس پولیس

بدھ 27 اکتوبر 2021

Yasir Farooq Usman

یاسر فاروق عثمان

 فیس بک کی تخلیق کے دوران اسکے بانیوں کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ وہ جدید دنیا کو دو دھاری تلوارکی طرح ایک ایسا سریع الاثر ابلاغی ذریعہ فراہم کرنے جا رہے ہیں جو آگے چل کربڑے انقلابوں کا موجب ہوگا۔ جب فیس بک نے اپنی مقبولیت کے جھنڈے گاڑنا شروع کیے تو ٹیکنالوجی کی دنیا میں مسابقت کی دوڑ شروع ہوئی اور نتیجتاً سامنے آنے والے متعددسوشل میڈیاپلیٹ فورمز میں سے ٹویٹر اور واٹس ایپ جیسی نمایاں ایپس نے دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر کے اربوں انسانوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیا۔

دنیا پر ان سوشل میڈیا پلیٹ فورمز کے کیا اثرات مرتب ہوئے، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اور نہ ہی یہ میرا آج کا موضوع ہے۔موجودہ دور ٹیکنالوجی کا دور ہے اورزمانہ قدیم میں خواب سمجھی جانے والی ہر چیزآج حقیقت کی صورت میں ہمارے درمیان موجود ہے۔

(جاری ہے)

ایک زمانے میں علم کے متلاشی سفر کے کھٹن مراحل صرف اس لیے طے کرتے تھے کہ انہیں علم کی پیاس بھجانے کو چند بوندیں مل جائیں لیکن آج آن لائن ایجوکیشن کی صورت میں علم کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہماری دہلیز پر ہے اور اس سے استفادہ طالبعلم کی علمی پیاس پر منحصر ہے۔

جدید ترین ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا پلیٹ فورمز کی صورت میں آج دنیا بھر بالخصوص ترقی پذیر ممالک کو وہ ہتھیار حاصل ہیں جنکے بروقت استعمال کی بدولت سلطنت کے انتظام میں انقلابی اقدامات کرتے ہوئے ترقی کی راہ پر سرپٹ دوڑا جا سکتا ہے۔
کہتے ہیں کہ ایک شخص کے پاس انتہائی شاندار اور تیز دھاری تلوار تھی۔ اس تلوار کودیکھنے والا ہر فرد رشک میں مبتلا ہو جاتا۔

ایک دفعہ سفر کے دوران ڈاکواس شخص پر حملہ آور ہو گئے۔ بہترین تلوار ہونے کے باوجود وہ شخص ڈاکوووں کے سامنے بے بس ہو گیا کیونکہ اس نے تلوار تو خرید لی تھی لیکن اسکو چلانا نہیں سیکھا تھا۔ جدید ٹیکنالوجی کے آج کے دور میں اگر کوئی شخص بہترین ٹیکنالوجی رکھنے کے باوجود اسکا درست استعمال نہ کرے اس پر پنجابی کی یہ ضرب المثل درست بیٹھتی ہے کہ ''کمہار کو لعل ملا تو اس نے اسے اپنے گدھے کے گلے میں باندھ لیا''۔

اس کے برعکس ٹیکنالوجی کی پرکھ کرنے اور اسکے درست استعمال سے فائدہ اٹھانے والے شخص کی مثال قدرشناس جوہری کی سی ہے۔ قارئین کرام، آپ اچھی طرح واقف ہیں کہ دنیا بنتے ہی شیطان نے اللہ کے بندوں کو درغلانے کے لیے کمرباندھ لی اور اسکے چیلے جرائم کے ذریعے دنیا میں بدامنی پھیلانے لگے۔ جرائم ہونا شروع ہوئے تو مجرموں کو پکڑنے کے لیے پولیس کا محکمہ بھی معرض وجود میں آگیا۔

ہر دور میں جرائم پیشہ افراد کی سرگرمیوں اور انکے عزائم پر نگاہ رکھنے کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے گئے۔ جرائم پیشہ افراد ایک خاص نفسیات کے حامل ہوتے ہیں۔زیادہ تر جرائم پیشہ افراد عوام پر اپنی دھاک بٹھانے کے لیے جرائم کی کھلے عام تشہیر کرنا پسند کرتے ہیں۔انکی دیکھادیکھی نوجوان طبقے میں بھی مجرمانہ سرگرمیوں کا رحجان پیدا ہوتا ہے۔

اکثر اوقات آپ نے فیس بک، ٹک ٹاک اور یوٹیوب پر ایسی پوسٹیں دیکھی ہوں گی جس میں نوجوان اسلحہ لہراتے، دھمکیاں دیتے ہوئے یا مارکٹائی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔اسکی وجہ خودپسندی اوردھاک بٹھانے کے رحجانات ہیں۔ نوجوانوں کے ساتھ ساتھ متعدد جرائم پیشہ افراد نے بھی سوشل میڈیا پر اپنے اکاونٹس بنا لیے جن کے ذریعے وہ معاشرے میں جرائم کے پھیلاو اور نوجوانوں کو گمراہ کرتے رہتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر دندناتے ہوئے ان معاشرتی ناسوروں کے انسداد اور انکی جانب میلان رکھنے والے نوجوانوں کو گمراہ ہونے سے بچانے کے لیے پولیس کا حرکت میں آنا ناگزیر تھا لہذا پاکستانی پولیس نے بھی روایتی طریقوں سے ہٹ کرمیدان میں اترنے کا فیصلہ کیا۔ اس ضمن میں اگر دیکھا جائے تو راولپنڈی پولیس سوشل میڈیا کے انقلابی استعمال کی بدولت پنجاب بھر میں نمایاں دکھائی دیتی ہے۔

قارئین کرام، راولپنڈی پولیس نے اس سلسلے میں کیا اقدامات کیے ہیں، یہ بتانے سے قبل آپ کو فارسی کی کہاوت'' قدرِ جوہر شاہ داند یا بداند جوہری'' یعنی ''موتی کی قیمت یا بادشاہ جانتا ہے یا سنار ''کو ذہن میں رکھنا ہو گا۔
دنیا بھر میں فورسزکا سپہ سالار صرف اسی شخص کو مقرر کیا جاتا ہے جو اپنی سپاہ کی صلاحیتوں کو پرکھنا اور ان کو چمکانا جانتا ہو اور ایسا صرف تبھی ممکن ہو سکتا ہے جبکہ سپہ سالار خود بھی عملی تجربے اور قائدانہ صلاحیتوں کا حامل ہو۔

راولپنڈی پولیس اس سلسلے میں خوش قسمت ٹھہری کہ اسکی قیادت کے لیے ایک موجودہ سی پی او کی صورت میں ایک ایسا جوہری ملا جس نے سب سے پہلی اپنی سپاہ کی صلاحیتوں کو پرکھ کراس کے جذبے کو مہمیز دینے اور عزت نفس بحال کرنے کے ابتدائی اقدامات کے ساتھ ساتھ فورس کی صلاحیتوں کو چمکانے کے لیے میدان عمل میں بالکل اسی طرح مسلسل مصروف کرنا شروع کر دیا جس طرح حلب کے بادشاہ عزیز کی جانب سے کائی قبیلے کے لیے صلیبی سرحدپر علاقہ دیے جانے کا پروانہ ارطغرل غازی نے یہ کہتے ہوئے وصول کیا کہ صلیبی سرحدوں پر خطرے کا مستقل احساس ہمیں ہر وقت فعال اور چوکس رکھے گا۔

جرائم کے رحجانات اور جرائم پیشہ افراد پر کڑی نگاہ رکھنے کے لیے دور جدید کے سوشل میڈیا پلیٹ فورمز پر ہمہ وقت کڑی نگاہ رکھنے والی خصوصی ٹیم تشکیل دی گئی۔ سوشل میڈیا پر راولپنڈی پولیس کے مسلسل فعال اکاونٹس کے ذریعے نہ صرف پولیس اور عوام کے مابین فوری رابطے کی سہولت میسر ہوئی بلکہ ان کے ذریعے معمولی وسنگین جرائم کے مبہم سے بھی امکانات پر کڑی نگاہ رکھتے ہوئے پولیس کی جانب سے قبل از وقت برق رفتار انسدادی کارروائیوں کے نتیجے میں یہ عام تاثر پیدا ہو چکا ہے کہ جیسے ہی کوئی بھی فرد کسی جرم کا مرتکب ہو گا یا جرم کا خیال ذہن میں لاتے ہوئے کوئی شیخی بگھارنے کی کوشش کرے گا تو سوشل میڈیا پر سرگرم نادیدہ ہاتھوں کی آہنی گرفت اسے دبوچ لے گی۔

اکثر ایسا ہوا کہ ادھر کسی نے سوشل میڈیا پر ہوائی فائرنگ کی ویڈیو چلائی تو اگلے چوبیس سے اڑتالیس گھنٹوں میں وہی فرد سلاخوں کے پیچھے عوامی سطح پر معافی مانگتا دکھائی دیا جس سے بالخصوص نوجوان طبقات میں جرائم کے رحجانات کی حوصلہ شکنی ہوئی اور عوام الناس کے اعتماد میں دوگنا اضافہ ہوا۔ تھرڈ جنریشن وار کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے راولپنڈی پولیس نے سوشل میڈیا پلیٹ فورمز سے عوام الناس کے لیے آگاہی مہمات بھی چلائیں اور سٹیزن فرینڈلی پولیسنگ کے امیج کو مضبوط کیا۔

سوشل میڈیا کے اس موثر استعمال کی بدولت راولپنڈی پولیس کو وہ عوامی اعتماد حاصل ہو چکا ہے جو شاید ہی ضلع بھر میں کسی اور محکمے کو حاصل ہو۔
مکمل صرف اللہ کی ذات ہے لیکن عوامی رائے کے مطابق راولپنڈی پولیس ہر آنے والے دن کے ساتھ مسلسل بہتری کے سفر پر گامزن ہے۔موجودہ سی پی او احسن یونس کی جانب سے اپنی سپاہ میں موجود ٹیلنٹ کی نشاندہی کرتے ہوئے جرائم کے انسداد کے لیے روایتی اور غیر روایتی طریقے اختیار کرنا، ناقدین کی پروا کیے بغیر ظلم و ستم کے شکار افراد کی دادرسی کے لیے فوراً انکے گھروں میں پہنچنا، ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے صف اول میں کھڑے ہونا اور سوشل میڈیا پلیٹ فورمز کے ساتھ ساتھ مختلف مقامات و صدر دفتر میں مسلسل کھلی کچہریوں کا انعقاد محکمہ پولیس میں ایسی بے نظیر مثالیں ہیں جنہیں برقرار رکھنا بلاشبہ آئندہ آنے والوں کے لیے ایک چیلنج ہو گا۔

دیکھا جائے تو سوشل میڈیا کا درست استعمال راولپنڈی پولیس کا ایک ایسا ہتھیار ثابت ہوا ہے جسکے ماہرانہ استعمال نے جرائم پیشہ افراد کی بیخ کنی میں اہم کردار ادا کیا اور معاصر اداروں کو بھی ترغیب ملی کی وہ بھی راولپنڈی پولیس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سوشل میڈیا کے دستیاب ہتھیاروں کا موثر استعمال کرتے ہوئے عوامی خدمت کیسفر میں تیزی کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے مملکت خداداد پاکستان کی ترقی میں زیادہ سے زیادہ حصہ ڈالیں۔

سوشل میڈیا پلیٹ فورمز پر اور فیلڈ میں راولپنڈی پولیس کو اپنے کمانڈر کی ماتحتی میں جرائم کی بیخ کنی اور عوامی خدمات کے لیے ہمہ وقت الرٹ دیکھ کر بے اختیار اقبال کا یہ شعر یاد آ جاتا ہے کہ ''جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا۔ لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ''۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :