ایثار، رمضان اور فوجی ہسپتال

منگل 4 مئی 2021

Yasir Farooq Usman

یاسر فاروق عثمان

بچی تکلیف سے چیخ رہی تھی اور والدین بیچارگی سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ دونوں نے مل کر فیصلہ کیا اور والد بچی کو لے کر قریبی فوجی ہسپتال کی ایمرجنسی کی جانب بھاگا۔ بچی کی تکلیف کی وجہ مقناطیس کا وہ تکونی ٹکڑا بنا جو کھیل ہی کھیل میں کہیں سے بچی کے ہاتھ لگا اور بچی نے اسے اپنی ناک میں ڈال لیا۔ تھوڑی دیر گذری ہی تھی کہ اس مقناطیسی ٹکڑے نے چبھن کرنا شروع کر دی تو بچی نے والدہ سے ذکر کیا، والدہ نے بچی کے والد سے دیکھنے کو کہا اورپھر تو گویا پورے گھر میں پریشانی کی لہر دوڑ گئی۔

والد نے ناک کو دبا کر بچی کی ناک سے مقناطیسی ٹکڑا نکالنے کی کوشش کی توہ سرک کر اور آگے ہو گیا اور خطرہ لاحق ہو گیا کہ کہیں یہ سانس کی نالی میں داخل ہو کر سانس ہی بند نہ کردے۔

(جاری ہے)

یہ بچی تو سارے گھر کی آنکھ کا تارہ تھی۔ والد نے پہلے تو اس نادانستہ لاپرواہی پر بچی کی ماں سے خفگی کا اظہار کیا مگر ساتھ ہی اسکی پریشانی بھی عروج پر پہنچ چکی تھی۔

سویلین ہسپتال دور ہونے کی وجہ سے والد جب بچی کو لے کر قریب ترین موجود فوجی ہسپتال کی ایمرجنسی میں پہنچا تو وہاں ریسیپشن پر موجود فرد نے بتایا کہ آن ڈیوٹی ایمرجنسی ڈاکٹر کا ٹائم ختم ہو گیا ہے لہذا یا اگلے ڈاکٹر کا انتظار کرنا ہو گا یا بچی کو ہنگامی طور پرنزدیکی سول ہسپتال میں لے جایا جائے۔ ابھی وہ اسی پریشانی میں تھا کہ ریسیپشن پر موجود حوالدار نے اسکی پریشانی کو دیکھتے ہوئےاسے فی الفور ڈاکٹرز روم کی طرف روانہ کیا کہ شاید ڈاکٹر بچی کی حالت کو دیکھ کر مزید کچھ دیر رک جائے۔

سوئے اتفاق، وہ جیسے ہی بچی کو وہاں لے کر پہنچا تو ڈاکٹر جو جانے ہی والا تھا، ایک دم بچی کو دیکھ کر رک گیا۔ جب ڈاکٹر کو مسئلہ بتایا گیا تو اسکی آنکھوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ۔ اسی دوران ڈاکٹر نے اپنے ایک اور ساتھی ڈاکٹر سے کمرے کے کونے میں جا کر مشورہ کیا اور فیصلہ کیا کہ فی الفور بچی کی ناک سے یہ ٹکڑا نکالنا انتہائی ضروری ہے، کہ کہیں بچی کی جان کو خطرہ لاحق نہ ہو جائے۔

دونوں ڈاکٹرز نے مل کر بچی کو آپریشن ٹیبل پر لٹایا اور نہایت باریک بینی سے ناک کا جائزہ لے کر لائحہ عمل طے کیا۔ اس دوران دونوں ڈاکٹرز کی باڈی لینگویج سے پتہ لگ رہا تھا کہ وہ اس معاملے پر پیشہ ورانہ مہارت کی آخری حد کو بروئے کار لانے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ ایک ڈاکٹر نے خصوصی چمٹی کی مدد سے بچی کی ناک میں موجود مقناطیسی ٹکڑے کو مضبوطی سے پکڑا اور دوسرے ڈاکٹر نے جیسے ہی اوکے کیا تو پہلے ڈاکٹر نے سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں اس ٹکڑے کوباہر نکال لیا۔

جیسے ہی ٹکڑا باہر آیا تو ڈاکٹرز کے چہرے پر اطمینان کی لہر دوڑ گئی اور بچی کا باپ دل و جاں سے انکے لیے دعاگو ہو گیا۔ یہ ڈاکٹر چاہتے تو اپنی ڈیوٹی کا وقت پورے کرتے ہوئے نکل جاتے لیکن انہوں نے پیشہ ورانہ فرض کو مقدم جانا کہ انکی تربیت ہی میں شامل تھا کہ انسانیت کے لیے اپنے وقت کا ایثار ہی عین عبادت ہے۔ وقت بدلتا ہے اور 2021 کا رمضان آتا ہے۔

پاک فوج سے ریٹائر شدہ ایک کپتان صاحب رمضان کے دوسرے عشرے کے دوران سی ایم ایچ راولپنڈی میں اپنے کانوں کا علاج کروانے گئے۔ وہاں پر موجود ای این ٹی سپیشلسٹ نے کپتان صاحب کے کان چیک کیے اور دوائی ڈال کر دو دن کے بعد آنے کو کہا۔ کپتان صاحب نے بتایا کہ وہ معتکف ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں اور گرمی کی وجہ سے دوبارہ آنا مشکل ہے لہذا انہیں رمضان کے بعد کا وقت دیا جائے۔

کپتان صاحب کو کہا گیا کہ وہ باہر تشریف رکھیں تا کہ اگلے وزٹ تک کے لیے انکو وقت اور دوا دی جائے۔ ابھی کپتان صاحب بیٹھے ہی ہوئے تھے کہ بریگیڈیئر رینک کا سپیشلسٹ کمرے سے باہر نکلا اور کپتان صاحب کو کہنے لگا کہ آپ فوراً اندر آئیں، جب کپتان صاحب اندر گئے تو بریگیڈیئر صاحب نے طبی عملے کو ہدایت کی کہ کپتان صاحب کے کان میں ابھی کے ابھی دوائی ڈالی جائے اور انکے کان صاف کیے جائیں۔

کپتان صاحب اس پر حیران رہ گئے اور انہوں نے استفسار کیا کہ یہ تبدیلی کیسے آئی۔ بریگیڈیئر صاحب مسکرائے اور کہنے لگے کہ اگرچہ میں نے طبی روٹین کے مطابق آپ کو بعد میں آنے کا کہا لیکن آپ باہر گئےتو میرے ذہن میں آیا کہ آپ نے اعتکاف کا ذکر کیا تھا یعنی آپ اللہ کا مہمان بننے کا ارادہ رکھتے ہیں تو میں نے سوچا کہ جو شخص اللہ کا مہمان بننے کا ارادہ کر رہا ہے؛ ممکنہ حد تک آج ہی اس کا علاج کیا جائے تاکہ وہ یکسوئی سے عبادت میں مصروف ہو سکے۔

یہی وجہ ہے کہ میں نے آپ کو دوبارہ بلا کر آج ہی آپ کے علاج کا فیصلہ کیا۔ جب آپ اعتکاف میں جائیں تو میرے لیے بھی دعا کریں۔ تھوڑی دیر بعد کپتان صاحب کے کانوں کی صفائی کردی گئی اور کپتان صاحب واپس گھر آگئے۔ افطار کے وقت انہوں نے تمام اہل خانہ سے اس واقعے کا ذکر کیا اور بڑی دیر تک مذکورہ سپیشلسٹ کے لیے مسکرا کر دعاگو رہے۔ قارئین اگر آپ غور کریں تو دونوں واقعات میں حیرت انگیز حد تک ایک مماثلت پائی جاتی ہے کہ دونوں ہی واقعات میں ڈاکٹرز حضرات نے اپنی مقررہ ذمہ داریوں سے بڑھ کر ہمت کا مظاہرہ کیا اور تندہی کے ساتھ انسانیت کو مقدم رکھ کر علاج کا فریضہ سر انجام دیا۔

یہ اتفاق ہی ہے کہ دونوں واقعات کا تعلق فوجی ہسپتال سے ہے۔ ان میں سے پہلا ہسپتال ایم ایچ راولپنڈی ہے جسے پاکستان میں ستارہء ایثار حاصل ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ آج جب کرونا کی وباء کے دوران، سول انتظامیہ کی مدد کے لیے فوجی دستوں کو بھی میدان عمل میں اتارا گیا تو راقم نے ضروری سمجھا کہ مذکورہ واقعات اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کرکے انہیں بتاوں کہ کس طرح پاک فوج کے جوان، ہر شعبے میں ملک و ملت اور انسانیت کی خدمت کے لیے ہمہ وقت ہر گھڑی تیار رہتے ہیں۔

شاید افواج پاکستان کے انہی جوانوں سے متعلق شاعرانہ انداز میں کہا گیا کہ "تمہی سے اے مجاہدو، جہان کا ثبات ہے"۔
کالم کی دم: راقم مذکورہ بالا دونوں واقعات کا عینی شاہد ہے کہ پہلے واقعے میں مذکور بچی بھی میری ہی بیٹی ہے اور دوسرے واقعے میں مذکور کپتان صاحب بھی راقم کے والد ہیں۔ دونوں ہی واقعات نے راقم کو مذکورہ بالا سطورضبط تحریر میں لا کر افواج پاکستان کو خراج تحسین پیش کرنے پر مجبور کیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :