شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار

جمعرات 1 اپریل 2021

Yasir Farooq Usman

یاسر فاروق عثمان

آئی ایس پی آر کے تحت بننے والے ڈرامہ سیریل عہد وفاء میں اسسٹنٹ کمشنر بننے والا پرجوش نوجوان شہریارجب قبضہ مافیا کےخلاف کارروائی کے دوران قابض ٹھیکیدار کو طلب کرتا ہے تو اسسٹنٹ کمشنر کا کارخاص گاڑی سے نکل کر وہاں موجود ٹھیکیدار کے ہرکارے کو زور سے تھپڑمارتے ہوئے ٹھیکیدار سے بات کروانے کوکہتا ہے اور وہ ہرکارہ نیلی بتی والی گاڑی سے نکلے اس کار خاص کی حرکت پر اپنا منہ لے کر رہ جاتا ہے۔

  اسسٹنٹ کمشنر صاحب جب تھپڑ مارنے کی وجہ دریافت کرتے ہیں توکارخاص جواب دیتا ہے کہ یہ لوگ اس کے بغیر نہیں سمجھتے۔ وطن کی خدمت اور قانون کی عملداری کے جذبے سے سرشار اسسٹنٹ کمشنر صاحب کے منہ سے اسوقت جو تاریخی الفاظ نکلے وہ سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہیں۔

(جاری ہے)

نوجوان اسسٹنٹ کمشنر نے کار خاص کو تنبیہہ کرتے ہوئے کہا کہ "جن پر ہاتھ اٹھایا وہ مالک نہیں ملازم تھے، کمزور پر ہاتھ اٹھانے کی عادتیں ختم کرو، آئندہ میرے سامنے اپنے نمبر بنانے کے لیے ایسی کوشش نہ کرنا، اگر ہم بھی ایسا کریں گے تو ان میں اور ہمارے میں کیا فرق رہے گا"۔

ڈرامہ آگے بڑھ گیا لیکن اسسٹنٹ کمشنر کے یہ تاریخی الفاظ ڈرامہ دیکھنے والوں کوایک عجیب سی لذت اور حسرت میں مبتلا کر گئے ۔ لذت اس لیے کہ ان الفاظ میں ایک ذمہ داری اور عام آدمی کا درد چھپا ہوا تھا اور حسرت اس لیے کہ ایسا شاز و نادر ہی دیکھنے میں آیا اور لوگوں نے حسرت کی کےکاش اصل زندگی میں بھی ایسا ہی ہوتا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے بڑَے مسائل کی وجہ لوگوں میں نظام کے متعلق پایا جانے والا عدم تحفظ ہے۔

یہ مسئلہ تحقیق طلب ہے کہ نظام میں انتہائی قابل اورحب الوطنی سے سرشار لوگوں کی موجودگی کے باوجود عوامی سطح پر عدم تحفظ کا یہ احساس بڑھتا ہی کیوں چلا جا رہا ہے۔ میری نظر میں متعدد وجوہات میں سے اہم ترین وجہ مختلف محکموں میں موجود شاہ سے زیادہ شاہ کے ایسے وفادار ہیں جو نہایت چابکدستی سے شاہ کو یقین دلانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ ان سے زیادہ مخلص اور وفادار کوئی نہیں اور جب شاہ چین کی بانسری بجانا شروع کر دیتا ہے تو یہ وفادارایسے کارہائے نمایاں انجام دیتے ہیں جنکے منظرعام پر آنے کے بعد محکمے کی بدنامی تو ہوتی ہی ہے اور شاہ کی آنکھیں بھی کھل جاتی ہیں لیکن تب تک چڑیاں کھیت چُگ کر اُڑ چکی ہوتی ہیں اور کف افسوس ملنے کے علاوہ کچھ نہیں رہتا۔

چونکہ محکمے کو بدنامی سے بھی بچانا ہوتا ہے تو بادل نخواستہ ضمیر کی آواز کو دبا کر شاہ معاملے پر پردہ ڈالنا شروع کر دیتا ہے اور ضمیر کی آواز ایک بار دب جائے تو پھر شیطان کی آنت کی طرح ایک ایسا شیطانی سلسلہ شروع ہوتا ہے جس کا انجام کار دوزخ کی آگ ہوتا ہے۔
ماضی قریب میں راقم کو بھی پولیس کے ساتھ ایک بار ایسے ہی تجربے سے گذرنا پڑا جس کے دوران شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفاداروں نے نہ صرف راقم کی روح کو زخمی کر دیا بلکہ یہ لوگ عوامی سطح پر پولیس کی بدنامی کا باعث بھی بنے لیکن کوئی گلہ نہیں کیونکہ فوجی خاندان کے بچوں کے لہو میں بہر قیمت دھرتی ماں کی خدمت کے دوران کسی تکلیف پر اُف تک نہ کہنے کا جذبہ شامل ہوتا ہے۔


اللہ کا شکر ہے کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں اعلی اور نچلی سطح پر ایسی نوجوان نسل آ چکی ہے جو اپنے سے پہلے لوگوں سے زیادہ علم رکھنے والے، زیادہ ادب والے، ذہین و فطین اورزیادہ متحرک ہیں لیکن بشری خامیوں میں ایک خامی خوشامد پسندی بھی ہے۔ ضروری نہیں کہ کسی کو خوشامد پسند ہو، بعض لوگ انتہائی مہارت سے خوشامد کرتے ہیں اور مذکورہ بالا اسسٹنٹ کمشنر کے کار خاص کی طرح خلاف قانون کوئی ایسا کام کر گذرتے ہیں جو بظاہر تو اپنے سینئر کو خوش کرنے کے لیے ہوتا ہے لیکن اس کے مضمر اثرات پورے معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں۔


وطن عزیز کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہمارے آفیسرز اورنو تربیت یافتہ نوجوانوں کو چاہیئے کہ جب وہ میدان عمل میں اتریں تو وہ اپنے ارد گرد شاہ سے زیادہ شاہ کے ایسے وفاداروں پر کڑی نگاہ رکھیں اور انہیں قطعاً ایسا موقع نہ دیں کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لے کر اداروں کی بدنامی کا باعث بن سکیں۔ اللہ تعالی پاکستان اور پاکستان کے اداروں اور ان میں کام کرنے والے افراد کو قانون کی عملداری میں مدد فرمائے کہ اسلام کے نام پر بننے والی اس ریاست کے لیے خلوص سے کیا جانے والا ایک چھوٹا سا کام بھی بہت بڑا بن کر اللہ کے ہاں مقبولیت کا درجہ پاتے ہوئے آخرت کی کامیابی کا باعث بن سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :